آپ کتنا کام کرتے ہیں؟ جتنا دیا جاتا ہے، ٹھیک؟ یا پھر جتنا معاوضہ ملتا ہے اُس کے بہ قدر۔ یہ بھی درست ہے۔ ہر انسان اُتنا ہی کام کرنا چاہتا ہے جتنا معاوضہ دیا جائے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ دنیا بھر میں، ہر معاشرے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ مگر کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اِس کا نتیجہ کیا برآمد ہوتا ہے؟ جو لوگ معاوضے کے مطابق کام کرتے ہیں وہ گزارے کی سطح پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ آگے بڑھنا، کچھ بننا اور کر دکھانا اُن کے لیے زیادہ ممکن نہیں ہوتا۔ عمومی سطح پر رہتے ہوئے زندگی بسر کرنا کوئی کمال نہیں۔ ؎
ہوا جو تیرِ نظر نیم کش تو کیا حاصل؟
مزا تو جب ہے کہ سینے کے آرپار چلے!
اگر کسی کو اِس دنیا میں کچھ کرنا ہے، اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر اور برتر ثابت کرنا ہے تو دوسروں سے ہٹ کر، کچھ منفرد اور کچھ زیادہ کرنا ہی پڑے گا۔ موجودگی اُنہی کی محسوس کی جاتی ہے جو اپنی موجودگی کو محسوس کرانے کی شعوری کوشش کرتے ہیں۔ آپ بھی کسی کی قدر کب کرتے ہیں؟ جب وہ کرانا چاہتا ہے۔ اپنی قدر کرانے کا معقول ترین طریقہ یہ ہے کہ اپنی کارکردگی کا حجم بڑھاکر معیار بلند کیا جائے۔ جو لوگ دوسروں سے زیادہ اور بہتر کام کرتے ہیں اُنہیں سراہا جاتا ہے۔ یہ سراسر فطری امر ہے جس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
کسی بھی ادارے میں کس فرد کی کارکردگی نوٹ کی جاتی ہے؟ اُس کی جو زیادہ کام کرے اور معیار بھی بلند رکھے۔ جو دیئے ہوئے کام سے زیادہ کریں، محنت اور لگن برقرار رکھیں اُن کی قدر نہ کی جائے ایسا ہی ہو ہی نہیں سکتا۔ ادارے کی انتظامیہ ایسے ملازمین کو اولیت دیتی ہے جو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ لگن کے ساتھ زیادہ کام کریں۔ ایسے لوگ ادارے کے لیے اثاثے کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن کی کارکردگی سے بہت کچھ تبدیل ہوتا ہے اور ادارے میں بہتری آتی ہے۔ ہر ادارے میں چند افراد دوسروں سے زیادہ اور قابلِ ستائش حد تک معیاری کام کرتے ہیں اور اِس کی بدولت اُن کی زیادہ توقیر کی جاتی ہے۔ جن کا کام زیادہ اور بہتر ہو اُنہیں انکریمنٹ اور پروموشن کے وقت ذہن نشین رکھا جاتا ہے۔ انتظامیہ ایسے ملازمین کو اثاثہ گردانتے ہوئے یاد رکھتی ہے۔
بعض لوگ یہ شکایت کرتے پائے جاتے ہیں کہ زیادہ اور بہتر کام کرنے پر بھی اُنہیں انکریمنٹ اور پروموشن کے وقت نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں اُس میں اِس نوعیت کی خرابیاں خارج از امکان نہیں۔ بہت سوں کو بہتر کام کرنے پر بھی بھرپور معاوضہ ملتا ہے نہ قابلِ ذکر حد تک ستائش نصیب ہوتی ہے۔ زیادہ اور بہتر کام کرنے پر قدر افزائی نہ ہونے کی صورت میں زیادہ دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ معاشرے کا مجموعی چلن آپ پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ جب تک آپ معاشرے کا حصہ ہیں تب تک اِس کے اجتماعی چلن سے مکمل طور پر بچ نہیں سکتے۔ مگر خیر، اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ بدظن اور بددِل ہوکر اپنے آپ کو غلط راستے پر ڈال لیں۔ آپ کو منفی سوچ سے بچنا ہے۔ زمانے کا چلن خواہ کچھ ہو، آپ کو اپنے وجود کی معنویت برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کرنی ہے۔ ایسا کرنے ہی میں آپ کی جیت ہے۔ دوسرے کیا کرتے ہیں یہ بھی اہم ہے مگر اِس سے زیادہ اہم وہ ہے جو آپ کرتے ہیں۔ جو کچھ آپ کریں گے وہی آپ کے لیے بہتری کی راہ ہموار کرے گا۔
یاد رکھیے، اگر آپ کو دوسروں سے کچھ زیادہ پانا ہے تو دوسروں سے کچھ زیادہ دینا بھی ہے۔ نوکری ہو یا کاروبار، آپ کو زیادہ اُسی وقت ملے گا جب آپ زیادہ دیں گے۔ نوکری میں زیادہ وقت خدمات انجام دے کر آپ اپنے افسران اور مالکان دونوں کا دل جیت سکتے ہیں۔ آپ کی اضافی محنت اور لیاقت کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے مگر ایک خاص وقت تک۔ اگر آپ باقاعدگی سے زیادہ اور بہتر کام کریں تو رفتہ رفتہ آپ کے وجود کا نوٹس لینے کا عمل شروع کردیا جائے گا۔ جب آپ کی اضافی کارکردگی نوٹ کی جائے گی تب آپ کو اضافی طور پر نوازنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگا۔ سوال صرف یہ ہے کہ آپ میدان میں کب تک ٹِکے رہتے ہیں۔ اگر آپ اپنے وجود سے مخلص ہیں تو اپنی ملازمت، کیریئر یا کاروبار کو ہر حال میں اولیت دیجیے۔ اضافی محنت کا صِلہ ملنے میں تھوڑی دیر ضرور ہوسکتی ہے مگر آپ کو صِلہ بہرحال مل کر رہے گا۔
جب آپ ملازمت میں کچھ زیادہ کام کرتے ہیں اور کاروبار میں ہر کسٹمر پر بھرپور توجہ دیتے ہیں تب دوسروں کو کام سے متعلق آپ کی سنجیدگی اور دلچسپی کا اندازہ لگانے کا موقع ملتا ہے۔ اگر آپ کسی ادارے میں ملازم ہیں تو اپنی تنخواہ یا کمیشن کی مناسبت سے کچھ زیادہ کام کرنا آپ کو دوسروں سے ممتاز کردے گا۔ اِسی طور اگر آپ دکاندار ہیں یا کوئی بڑا کاروبار چلا رہے ہیں تو اپنے ہر کسٹمر پر غیر معمولی توجہ دینے کی صورت میں یہ تاثر مستحکم ہوگا کہ آپ کاروبار کے معاملے میں سنجیدہ اور پرعزم ہیں۔ ایسی حالت میں آپ کی شخصیت، صلاحیت اور سکت پر لوگوں کا اعتماد بڑھے گا اور وہ آپ سے زیادہ سے زیادہ خدمات لینے کو ترجیح دینے لگیں گے۔
تقریباً ہر معاملے میں اولیت اُن لوگوں کو دی جاتی ہے جو دوسروں سے کچھ زیادہ اور بہتر کام کرتے ہیں۔ معاشی اور غیر معاشی ہر دو طرح کے معاملات میں قابلِ ترجیح وہی ٹھہرتے ہیں جو اپنی صلاحیتوں سے دوسروں کو زیادہ سے زیادہ مستفید کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ کھری مثبت سوچ ہے۔ دوسروں کے لیے سوچنا کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ اپنے حصے سے تھوڑے سے کم پر بھی راضی رہنا اور دوسروں کی خدمت پر یقین رکھنا انسان کو زیادہ قابلِ احترام بناتا ہے۔ اگر آپ نمایاں ہونا چاہتے ہیں تو دوسروں سے تھوڑا آگے جاکر خدمات انجام دینا پڑیں گی۔ کام کرتے وقت آپ کو صِلے پر بھی توجہ دینی ہے مگر اِس سے کہیں زیادہ توجہ آپ کو اپنی استعداد پر دینی ہے۔ جو کچھ آپ کرسکتے ہیں وہ آپ کو ضرور کرنا چاہیے۔ اپنے وجود سے ایمان دار اور باوفا رہنا اور کیا ہوتا ہے؟ آپ کی صلاحیتوں اور استعدادِ کار کا اندازہ لگانے والے اندازہ لگاتے رہیں گے۔ اضافی محنت کا صِلہ آپ کو مل کر رہے گا۔
ویسے تو خیر ہر معاملے میں زیادہ کام کرنا انسان کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے اور کامیابی کے امکانات مستحکم تر کرتا ہے مگر کاروبار میں یہ رجحان زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے۔ کاروبار میں ہر کسٹمر بھرپور توجہ چاہتا ہے۔ اگر آپ کاروبار کر رہے ہیں اور ہر کسٹمر پر اُس کی توقعات سے کچھ زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں تو سمجھ لیجیے کوئی بھی آپ کی راہ میں دیوار کھڑی نہیں کرسکتا۔ کسٹمرز کے اطمینان کے لیے یہی کافی ہوتا ہے کہ اُن پر اُن کی توقعات سے کچھ زیادہ توجہ دی جائے۔
معاشرے پر اُچٹتی سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ کامیاب وہی ہوتے ہیں جو زیادہ کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ جن سے دوسرے زیادہ استفادہ کرسکیں وہ خود بخود نمایاں ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یقینی کامیابی کے اصول کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔ اگر آپ کو بھرپور کامیابی درکار ہے تو بھرپور محنت اور لگن کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ زیادہ کام کرنے سے آپ نمایاں ہوں گے، آپ کی موجودگی محسوس کی جائے گی، آپ کی صلاحیت اور سکت سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور یوں آپ کے لیے بہتر معاشی امکانات کی راہ ہموار ہوگی۔ اور یہی تو آپ چاہتے ہیں۔