ہم ٹرینڈز کے دور میں جی رہے ہیں۔ آج کل جو ٹرینڈز بہت عام ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کوئی بھی معاملہ کسی بھی وقت، کوئی بھی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مٹی میں ہاتھ ڈالیے تو سونا نکل آتا ہے اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی چیز کو سونے کے دام خریدیے اور گھر آکر بغور دیکھیے تو ثابت ہوتا ہے کہ کسی نے آنکھوں میں محض دھول جھونک دی!
ایک گھریلو ٹرینڈ صدیوں سے دنیا بھر میں عام ہے۔ یہ ٹرینڈ ہے بیوی سے ڈانٹ سننے کا! بہت سے لوگ اس ٹرینڈ کو انتہائی شرمناک تصور کرتے ہوئے شرمندہ شرمندہ سے رہتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ بیوی سے ڈانٹ سننا مرد کے لیے انتہائی ہتک آمیز اور اُس کی شان کے خلاف ہے۔ اور اِس سے عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ماہرین بھی بہت کچھ بیان کرتے ہیں۔ اور کیوں نہ کریں؟ اُنہیں تو کچھ نہ کچھ بیان کرتے رہنے کی عادت ہے کہ اس عمل ہی سے ان کی روزی روٹی وابستہ ہے! مصیبت یہ ہے کہ بیوی کی ڈانٹ ڈپٹ سے متعلق ماہرین نفسیات کی باتیں سن سن کر لوگ حوصلہ ہارتے چلے جاتے ہیں۔
بات خیر بظاہر ہے ہی شرمناک کہ بیوی ڈانٹے اور میاں کو سننا پڑے۔ پھر بھی ہم یہی مشورہ دیں گے کہ بیویوں سے ڈانٹ سننے کے عادی شوہر ذرا بھی دل چھوٹا نہ کریں۔ جس عمل یا رجحان کو وہ اپنے لیے ذلت کا باعث سمجھ رہے ہیں وہ دراصل قدرت کی طرف سے ایک غیر معمولی انتظام ہے۔ کس چیز کا؟ بیوی کے دل و دماغ کو متوازن رکھنے کا! گھریلو زندگی کو مستحکم، موازن اور پرسکون رکھنے کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ بیوی کو ڈانٹ ڈپٹ کا تھوڑا بہت موقع فراہم کیا جاتا رہے! بہت سے لوگ گھر کے لیے سامان بالخصوص سبزی خریدتے وقت دو تین سڑے ہوئے ٹماٹر یا آلو بھی ٹوکری میں ڈلوالیتے ہیں۔ گھر میں بیویاں جب سبزی چیک کرتی ہیں تو سڑے ہوئے ٹماٹر یا آلو دیکھ کر اُن کی رگِ تنقید پھڑک اٹھتی ہے اور وہ شوہروں پر برس پڑتی ہیں کہ تمہیں تو کچھ معلوم نہیں، سَودا خریدنے بھی جاتے ہو تو سڑی ہوئی چیزیں اٹھا لاتے ہو! شوہر یہ ساری باتیں چپ چاپ سنتے ہیں کیونکہ اُنہیں معلوم ہے کہ اللہ نے اس عمل میں بہت برکت رکھی ہے! بات یہ ہے کہ خاتونِ خانہ کو اپنے اندر پکنے والا لاوا کہیں نہ کہیں تو نکال پھینکنا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر شوہر یہ موقع فراہم کرے تو اِس کی جزا دوسری دنیا ہی میں ممکن ہے!
موقع بے موقع شوہر کو ڈانٹنا ہر بیوی کے لیے ہاضمے کا چورن ہے۔ جو لوگ گھریلو زندگی میں سکون اور توازن کو اہمیت دیتے ہیں وہ بیوی کو ڈانٹ ڈپٹ کا موقع فراہم کرنے پر خاص توجہ دیتے ہیں! اگر اپنے فکر و عمل میں کوئی خرابی نہ ہو تو وہ پیدا کرتے ہیں! وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بگاڑ سے بچنے کا عمل مزید بگاڑ کا باعث بن جایا کرتا ہے۔ جب تک ڈانٹ ڈپٹ کا موقع نہ ملے تب تک بیویاں ذہنی طور پر غیر متوازن رہتی ہیں۔ دو برائیوں میں سے ایک کو منتخب کرنا ہو تو، ظاہر ہے، چھوٹی برائی ہی کو منتخب کرنا دانش مندی کا تقاضا ہے!
ہمارا ذاتی (تجربہ نہیں) مشاہدہ ہے کہ بیویوں کے ستائے ہوئے بہت سے مرد پاگل یا سنکی ہو جاتے ہیں۔ چین میں ایک صاحب کا عجیب ہی قصہ ہوا۔ بیوی کے ہاتھوں ستائے جانے پر اور ڈانٹ ڈپٹ سہتے سہتے ہی کنگ ٹیکنالوجسٹ بن گئے ہیں۔ اور یہ تبدیلی بھی اِس شان سے رونما ہوئی ہے کہ اب وہ ایک ٹیکنالوجی کمپنی کے مالک بھی ہیں۔ ہی کنگ کہتے ہیں کہ بیوی روز کھانا پکواتی تھی اور ڈھنگ سے کھانا تیار نہ ہونے پر جھڑکیاں اور ڈانٹ سننا پڑتی تھی۔ اس مستقل جھنجھٹ سے نجات پانے کے لیے ہی کنگ نے ایک ایسا روبوٹ تیار کرنا شروع کیا جو کھانا بھی تیار کرے اور برتن بھی دھوئے۔ اس کام میں آٹھ سال لگے۔ اس نے اپنا تیار کیا ہوا روبوٹ شنگھائی کے ایک ٹیکنالوجیکل فیئر میں پیش کیا تو لوگ حیران رہ گئے۔ ہی کنگ کے بنائے ہوئے روبوٹ سے تجارتی سطح پر مستفید ہونے میں لوگوں کو ابھی کچھ وقت لگے گا۔ تب تک وہ 10 ہزار یوآن زر ضمانت جمع کراکے روبوٹ کرائے پر لے سکتے ہیں۔ ہر ڈش کا کرایا الگ دینا ہوگا۔
بیویوں کے ستائے لوگوں کو ہم نے اکثر کچھ نہ کچھ بنتے دیکھا ہے۔ بہت سوں نے فن کی دنیا میں نام کمایا ہے۔ بیوی کی ڈانٹ اور چِک چِک سے بچنے کے لیے لوگ کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی طرف چل دیتے ہیں۔ اور پھر دنیا دیکھتی ہے کہ بیوی کے وجود کی ہمہ گیری سے بچنے کے لیے وہ اپنے وجود کو نئی معنویت سے ہم کنار کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
گھریلو زندگی کے تناؤ اور بالخصوص بیوی کے نازیبا رویّے سے تنگ آئے ہوئے بہت سے مردوں کو ہم نے علم کی دنیا میں تیزی سے آگے بڑھتے دیکھا ہے۔ کتب خانوں کے پرسکون ماحول میں پناہ لینے والے بہت سے احباب کے بارے میں جب ہم نے تھوڑی سی چھان بین کی تو معلوم ہوا کہ اُنہیں علم سے پہلے دوستی اور پھر محبت کی ''تحریک‘‘ دراصل ان کی بیگمات نے دی ہے! گھر میں آئے دن کی چِک چِک سے بچنے کے لیے اُنہوں نے بہتر یہی جانا کہ علم کی دنیا میں قدم رکھا جائے!
قصہ مختصر، خواتین نے ثابت کردیا ہے کہ تصویرِ کائنات میں رنگ اُنہی کے دم سے ہے۔ خواتین اگر خود کچھ نہ بننا چاہیں تب بھی اپنے وجود سے وابستہ مردوں کو کچھ نہ کچھ بناکے دم لیتی ہیں! آپ خود دیکھ لیجیے کہ گھریلو زندگی میں خواتین کے متعارف کرائے ہوئے لازوال آئٹم یعنی ڈانٹ ڈپٹ سے نجات پانے کے لیے بہت سے مرد گھر کی چار دیواری سے نکل کر کسی اور چار دیواری کا سہارا لیتے ہیں اور کسی نہ کسی بڑے مثبت نتیجے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ کوئی نیا کھیل سیکھتا ہے، کوئی فن کی دنیا میں آگے بڑھتا ہے، کوئی علم و ادب کی دنیا کو لگے لگاتا ہے، کسی کو فلسفے کا جہان راس آ جاتا ہے اور کوئی سائنس دان یا ٹیکنالوجسٹ بن جاتا ہے! وجودِ زن کی مہربانی سے مرد اگر اپنی تصویرِ کائنات میں یونہی رنگ بھرتے رہے تو اِس دنیا کی رنگا رنگی یا نیرنگی کو چار چاند لگتے رہیں گے۔ حالات و واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ گھریلو یا ازدواجی زندگی مردوں کو کچھ نہ کچھ بنانے کے عمل کا عام فہم نام ہے۔ خواتینِ خانہ کے ہاتھوں ستائے جانے کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو بیشتر شوہر اور بہت کچھ بنتے بنتے ایک نہ ایک دن انسان بھی بن ہی جائیں گے! اور ایسا کیوں نہ ہو کہ ہر شادی شدہ عورت کے بہت سے تکیہ ہائے کلام میں ایک یہ بھی تو شامل ہے کہ ''تم میں کہاں کوئی بات تھی؟ شکر کرو کہ مجھ سے شادی ہوگئی اور میں نے تمہیں انسان بنادیا!‘‘