"MIK" (space) message & send to 7575

اہمیت فرق پیدا کرنے کی ہے

ذوالفقار چیمہ صاحب ایک بار پھر کراچی میں ہیں۔ اِس بار انہوں نے زیادہ رونق لگائی ہے۔ کل کراچی کے ایک ہوٹل میں نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن (نیوٹیک) کے زیر اہتمام تقسیم انعامات کی تقریب منعقد ہوئی۔ انعامات اُن نوجوانوں کو دیئے گئے جنہوں نے مختلف شعبوں میں غیر معمولی فنّی (پیشہ ورانہ و تکنیکی) مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقابلے جیتے۔ چیمہ صاحب نے خلوص کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بار پھر یاد کیا اور ہم حاضر ہوئے۔ 
چیمہ صاحب جب بھی کراچی آتے ہیں تو اُن کے طرف سے بلاوے کا مطلب ہوتا ہے میڈیا بریفنگ اور اُس کے بعد کچھ دیر کی غیر رسمی سی گپ شپ۔ اس غیر رسمی گفتگو میں وہ اپنے طویل تجربے کو خلوص کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے شیئر کرتے ہیں۔ نیوٹیک کے سربراہ کی حیثیت سے چیمہ صاحب پر ایک غیر معمولی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یہ ذمہ داری ہے نئی نسل کو بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنے کی۔ اُن کی خدمت میں حاضر ہونے کا ایک ضمنی فائدہ یہ ہے کہ ہم نئی نسل کو بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنے کے حوالے سے دی جانے والی پیشہ ورانہ و تکنیکی تربیت کے بارے میں جان کر اپنے عہدِ شباب کو بھی یاد کرلیتے ہیں! گویا کچھ دیر کے لیے ''ٹائم ٹریول‘‘ کا اہتمام ہو جاتا ہے۔ 
نئی نسل کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ زندگی میں معنویت پیدا کرنے کا اور معنویت کسی نہ کسی شعبے میں مہارت پیدا کیے بغیر یقینی نہیں بنائی جاسکتی۔ چیمہ صاحب اور ان کے رفقاء ملک بھر میں نئی نسل کو زیادہ سے زیادہ ہنر مند بنانے کی تگ و دَو میں مصروف ہیں۔ یہ فرضِ منصبی بھی ہے اور نیکی بھی۔ ملک میں خانہ پُری کی بنیاد پر چلائے جانے والے ادارے بے حساب ہیں۔ تبدیلی کے دعووں کے ساتھ قائم کیے جانے والے یہ ادارے معاشرے میں کوئی بڑی تبدیلی لانے میں ناکام رہتے ہیں۔ غیر معمولی فنڈز 
کے ساتھ کام کرنے والے بیشتر سرکاری ادارے چند افراد کو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع فراہم کرنے تک محدود رہتے ہیں۔ نیوٹیک کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ اس ادارے نے لاکھوں نوجوانوں کو بہتر زندگی کے لیے تیار ہونے میں مدد دی ہے۔ مختلف شعبوں میں غیر معمولی پیشہ ورانہ اور تکنیکی تربیت سے ہم کنار ہوکر لاکھوں نوجوان آج باعزت اور پرکشش ذریعۂ آمدن سے بہرہ مند ہوتے ہوئے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 
چیمہ صاحب اور اُن کی ٹیم نے ملک کے پس ماندہ علاقوں کی نئی نسل کو مستقبل کے لیے بہتر انداز سے تیار کرنے پر خاص توجہ دی ہے۔ سندھ میں ڈیپلو اور ایسے ہی دوسرے بہت سے دور افتادہ علاقوں کے نوجوانوں کو بھی تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنے پر غیر معمولی توجہ دی جارہی ہے۔ وزیر اعظم کے ''یوتھ اسکل ڈیویلپمنٹ پروگرام‘‘ کے تحت صوبائی سطح پر مقابلے کی فضاء پروان چڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فنّی یا پیشہ ورانہ مہارت کا حصول نئی نسل کو بامقصد زندگی بسر کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ کسی بھی حوالے سے مہارت پیدا کرنے میں کامیاب ہونے پر نوجوان معاشرے کے لیے کچھ کرنے کا ذہن بناتے ہیں۔ اور یوں اُن کی اپنی زندگی بھی زیادہ معنویت سے ہم کنار ہوتی ہے۔ دوسروں کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ اپنے وجود کو بھی کماحقہ سیراب کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ 
مختلف تکنیکی شعبوں میں باصلاحیت نوجوانوں کو انعامات دینے کے لیے تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ بھی موجود تھے۔ اُنہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ نیو ٹیک اور دیگر متعلقہ اداروں اور پروگرامز کی بدولت بہت سے پس ماندہ علاقوں کے لڑکوں اور لڑکیوں کو بھی اب متحرک ہوکر معیاری انداز سے زندگی بسر کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ سندھ کے دور افتادہ علاقوں کے ہزاروں نوجوانوں نے ہنر مندی کے ساتھ خاصی بارآور اور پرکشش زندگی شروع کی ہے۔ 
مختلف شعبوں میں پیشہ ورانہ مہارت حاصل کرنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کو 30 ہزار تا ایک لاکھ روپے ماہانہ کمانے کا موقع مل رہا ہے۔ اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے کہ نئی نسل کو بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے لازم سمجھی جانے والی تکنیکی تربیت بھی فراہم کی جائے اور وہ آمدن کے اعتبار سے پرکشش طرزِ زندگی یقینی بنانے میں کامیاب بھی ہو جائے؟ 
پاکستان میں کئی مسائل کسی بڑے عفریت کی طرح منہ پھاڑے کھڑے ہیں۔ اِن میں نئی نسل کو بامقصد زندگی بسر کرنے کے قابل بنانے کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ معاشی و معاشرتی علوم کے ماہرین اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ نئی نسل کو بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل بنانے کے لیے غیر معمولی ڈسپلن کی ضرورت ہے۔ ہماری نئی نسل اچھی خاصی الجھی ہوئی ہے۔ کسی واضح مقصد کے بغیر زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ وقت کا ضیاع عام ہے۔ بے ترتیب زندگی بسر کرنے سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں جو پنپتے پنپتے زندگی کے ہر پہلو کو لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ دیگر پس ماندہ معاشروں کی طرح پاکستانی معاشرہ بھی نئی نسل کے حوالے سے غیر معمولی الجھنوں کا شکار ہے۔ ایسے معاشروں میں نئی نسل کو خاصی چھوٹی عمر سے غیر معمولی توجہ اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں اس حوالے سے اب تک سنجیدگی اختیار نہیں کی گئی۔ کوئی واضح مقصد نہ ہو تو نئی نسل نہ صرف یہ کہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے قاصر رہتی ہے بلکہ ذہنی عوارض اور پیچیدگیوں میں مبتلا بھی ہو جاتی ہے۔ یہ گویا دُہرا عذاب ہے۔ 
نیو ٹیک اور اِسی قبیل کے دوسرے اداروں نے معاشرے کو نئی سمت دینے کی اچھی کوشش کی ہے۔ نئی نسل کو مقصد کی تلاش ہے۔ لڑکیوں اور لڑکیوں کو ابھرتی ہوئی عمر میں کسی نہ کسی حوالے سے ہدف اور اُس کے حصول کی لگن درکار ہوتی ہے۔ اگر سرکاری سطح پر مضبوط ادارے موجود ہوں تو لڑکوں اور لڑکیاں دونوں ہی کو معیاری زندگی بسر کرنے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ 
پاکستان کے طول و عرض میں ایسے علاقوں کی کمی نہیں جو زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ بہتر معاشی امکانات کی تلاش اور زندگی کو زیادہ سے زیادہ سے بامقصد بنانے کی غرض سے ہر عمر کے لوگ اِن پس ماندہ علاقوں سے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ کراچی، لاہور اور راولپنڈی پر اِس حوالے سے غیر معمولی دباؤ ہے۔ نیوٹیک جیسے ادارے اور ذوالفقار چیمہ جیسی شخصیات کا بھرپور جذبۂ عمل نئی نسل کے لیے بہتر معاشی امکانات یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ دور افتادہ پس ماندہ علاقوں کو نئی ہیئت اور نئی زندگی بخشنے کے حوالے سے مثالی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اِس وقت ایسے اداروں اور شخصیات کی ضرورت ہے جو معاشرے میں نمایاں، مثبت فرق پیدا کرنے کی صلاحیت اور سکت رکھتے ہوں۔ معاشرے کو تبدیل ہونا ہے مگر یہ کام خود بخود تو نہیں ہوگا۔ اِس کے لیے عملی سطح پر بہت کچھ کرنا ہوگا۔ دعووں اور وعدوں کی منزل اب بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ نئی نسل کو ہنر مند بنانے والے اداروں کا جال ہو اور مضبوط ہو۔ اہمیت فرق پیدا کرنے کی ہے اور معاشرے اُسے وقت پنپتے ہیں جب واضح فرق پیدا کیا جائے، کچھ کرکے دکھایا جائے۔ سندھ کے وزیر اعلٰی سید مراد علی شاہ بھی خیر سے نئی نسل کے ہیں۔ اور اگر عمر کے حوالے سے پیش رَو سے موازنہ کیجیے تو مراد علی شاہ ''ٹین ایجر‘‘ دکھائی دیتے ہیں! چیمہ صاحب وفاقی ادارے کے سربراہ ہیں۔ وزیر اعلٰی سندھ کو ایسے اداروں اور شخصیات میں غیر معمولی دلچسپی لینی چاہیے تاکہ صوبائی میں واضح تبدیلی آئے اور دکھائی بھی دے۔ یاد اُنہی کو اور اُنہی کی کارکردگی کو رکھا جاتا ہے جو واضح فرق پیدا کر دکھائیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں