"MIK" (space) message & send to 7575

گوبر نیتی

بھارت میں جنتا پارٹی کی حکومت پہلے بھی رہی ہے مگر نریندر مودی کی قیادت میں کام کرنے والی مرکزی حکومت نے کچھ اِس ڈھنگ سے کام کیا ہے کہ بیشتر معاملات پر، بس یہ سمجھ لیجیے، گوبر پُت گیا ہے۔ نریندر مودی نے انتہا پسند سوچ کو کھل کر نہ صرف اپنایا بلکہ فروغ بھی دیا ہے۔ تین چار سال کے دوران ملک بھر میں ہندو ازم کو دیگر مذاہب پر مسلط کرنے کی بھرپور کوشش دکھائی دی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں ملک میں تقسیم بڑھی ہے۔ مسلمان اور نچلی ذات کے ہندو ''دلِت‘‘ خاص طور پر نشانہ بنے ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کے ہندو اپنے ایجنڈے ''ہندُتوا‘‘ کو بھرپور کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے نفرت اور تعصب کی آگ بھڑکانے سے گریز نہیں کرتے۔ مودی دورِ حکومت میں یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ 
ہندُتوا کے ایجنڈے پر عمل کے لیے انتہا پسند ہندوؤں نے اب تک کئی چیزوں کا سہارا لیا ہے۔ جو کچھ خود اپنایا ہے وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں پر تھوپنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ گائے کے پیشاب اور گوبر سے تیار کی جانے والی ادویہ کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ملک بھر میں بالعموم اور اتر پردیش میں بالخصوص گائے کے گوبر اور پیشاب سے تیار کردہ ادویہ اور مرہم وغیرہ دستیاب ہیں۔ راسخ العقیدہ ہندو یہ ادویہ خوشی خوشی استعمال کرتے ہیں اور اِن کی خوبیاں بڑھ چڑھ کر بیان کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر معمولی پروپیگنڈے کے باوجود گائے کے پیشاب اور گوبر سے بنائی جانے والی ادویہ کو ہندوؤں سے ہٹ کر مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی۔ 
کچھ دن قبل اتر پردیش کے شہر بلند شہر سے خبر آئی کہ ایک عورت کو سانپ نے کاٹ لیا تو معقول طریقے سے علاج کرانے کے بجائے اُس کے توہم پرست شوہر نے اُسے گوبر سے ڈھک دیا! گوبر کے ڈھیر میں اُس بے چاری کا دم گھٹ گیا۔ حالت بگڑنے پر جب اُس کے اوپر سے گوبر ہٹایا گیا تو وہ بہت بُری حالت میں تھی اور کچھ ہی دیر میں دم توڑ گئی! 
سانپ کے کاٹے کا علاج گائے کے گوبر سے! یہ ہے مودی کا بھارت۔ ملک چلانے کے لیے پالیسیاں تیار کرنے والے بزرجمہر اب کچھ ایسا ہی کرتے آئے ہیں۔ بھارتی قیادت نے بہت سے معاملات پر مٹی کے ساتھ ساتھ گوبر ڈالنے ہی کو ترجیح دی ہے تاکہ معاملات اپنی موت آپ مر جائیں اور اُنہیں درست کرنے پر خواہ مخواہ محنت نہ کرنی پڑے۔ 
ملک چلانے کے لیے راج نیتی (سیاست) لازم ہے۔ ملک کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے جو پالیسی اختیار کی جاتی ہے اُسے کُوٹ نیتی کہتے ہیں یعنی دوسروں کو کُوٹو یا پھر اُن کے ہاتھوں اپنی کُٹ لگواؤ! اب معاملہ گائے کی پُوجا سے ہوتا ہوا ''گوبر نیتی‘‘ کے مرحلے میں اٹک گیا ہے! ہندُتوا، گائے اور گوبر کی باتیں اِس تواتر سے کی جاتی رہی ہیں کہ اب ہر معاملے میں گوبر نیتی در آئی ہے! گوبر پرستی ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ اب بی جے پی کی تیار کردہ ہر پالیسی سے گوبر کی بُو پُھوٹ رہی ہے۔ 
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قیادت جو کچھ بھی کر رہی ہے اُس پر ایک نظر ڈال کر کوئی بھی اُسے با آسانی گوبر نیتی قرار دے سکتا ہے۔ بھارتی قابض فوج اور بیورو کریسی مل کر مقبوضہ کشمیر میں جو کھیل کھیل رہی ہے اُسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ بھارتی پالیسی میکرز کے ذہنوں میں شاید گوبر بھرگیا ہے۔ ہر زمینی حقیقت کو یکسر نظر انداز کرنے کی روش اپنائی گئی ہے۔ زمانے بھر کی حماقتیں بھارتی پالیسیوں میں یوں در آئی ہیں کہ معقولیت کا کوئی سِرا ہاتھ آتا نہیں۔ 
بھارتی معاشرہ اب تک ہزاروں سال پہلے کے زمانے میں سانس لے رہا ہے۔ ذات پات کا نظام دم توڑنے کا نام نہیں لے رہا۔ بیورو کریسی اور اشرافیہ کی مدد سے اعلٰی نسل کے ہندوؤں نے معاشرے کے پچھڑے ہوئے طبقوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ انتہا پسندی کی سیاست کا سہارا لے کر نچلی ذات کے ہندوؤں (دلِتوں) کو کچلنے کا عمل پوری قوت اور شدت سے جاری ہے۔ معاشرے کے سب سے کچلے ہوئے لوگوں میں اعلٰی ذات کے ہندوؤں کے خلاف نفرت غیر معمولی حد تک پنپ چکی ہے۔ اس نفرت ہی کے نتیجے میں وہ اسلام اور بدھ اِزم کی طرف تیزی سے متوجہ ہو رہے ہیں۔ اتر پردیش، بہار اور جنوبی ریاستوں میں دِلتوں کا جھکاؤ واضح طور پر اسلام کی طرف ہے۔ یہ وقت نہایت احتیاط کے ساتھ اُنہیں دینِ حنیف کی طرف لانے کا ہے۔ اس حوالے سے مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کو مل کر جامع حکمتِ عملی ترتیب دینی چاہیے۔ 
نچلی ذات کے ہندوؤں سے اعلٰی ذات کے ہندوؤں کا گندا سلوک بھارتی معاشرے کو مزید تقسیم کر رہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت کی سمجھ میں جب کچھ بھی نہیں آتا تو معاملات کا رخ مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرف موڑ دیتی ہے۔ یہ سلسلہ عشروں سے جاری ہے مگر اب مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کی مہربانی سے کسی بھی معاملے کے بنیادی حقائق بے نقاب کرنا آسان ہوگیا ہے اِس لیے جھوٹ زیادہ دور اور زیادہ دیر تک چل نہیں پاتا۔ 
جب سے چین نے سی پیک کا پوٹلا کھولا ہے اور پاکستان، ترکی اور روس کے ساتھ مل کر ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کو عملی شکل دینے کی ٹھانی ہے، بھارتی قیادت شدید حواس باختہ ہوگئی ہے۔ کبھی امریکا کو رجھایا جارہا ہے اور کبھی یورپ کو۔ چین کی طرف سے دونوں منصوبوں میں معقول شراکت کی پیش کش بھی بھارتی قیادت کو اب تک راس آئی ہے نہ سمجھ میں آئی ہے۔ بھارتی قیادت چاہتی ہے کہ ان دونوں منصوبوں کو کسی نہ کسی طور ناکامی سے دوچار کیا جائے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ چین، روس، پاکستان اور ترکی ایک پلیٹ فارم پر آکر متعدد دوسرے ممالک کی معاونت سے ایک نیا اکنامک کوریڈور تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ اس زمینی حقیقت کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر گوبر نیتی کو خیر باد کہتے ہوئے بھارتی قیادت نے معقول پالیسیاں نہ اپنائیں تو اُن کا ملک عملاً محصور ہوجائے گا۔ میانمار (برما) اور بنگلہ دیش کو بھی چین نے ساتھ ملانے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ نیپال سے بھی بات چیت جاری ہے۔ اگر یہ تمام ممالک خطے کے ایک بڑے اور گیم چینجر قسم کے منصوبے کا حصہ بن گئے تو پورے یقین کے ساتھ کہنا بہت مشکل ہوگا کہ اپنی جگہ ہوتے ہوئے بھی بھارت کہاں کھڑا ملے گا! 
نریندر مودی کے پاس صورتِ حال کی نزاکت کے پیش نظر صرف معقولیت کا آپشن بچا ہے۔ جذباتیت اور کھوکھلی انا کو خیرباد کہتے ہوئے انہیں کچھ ایسا کرنا پڑے گا جو پالیسیوں میں پائے جانے والے عدم توازن کو دور کرے۔ اگر وہ اپنے ملک کو مستحکم رکھنا چاہتے ہیں تو اہم پالیسیوں سے گوبر نیتی کی بدبُو نکال کر اُن میں دانش مندی اور معاملہ فہمی کی خوشبو بسائیں۔ ہر معاملے کو گوبر کے ڈھیر میں دبانے کا رجحان کل کارگر تھا نہ آج کارآمد ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں