کرولے نیو یارک کا انتہائی خطرناک مجرم تھا۔ ''ٹوگن کرولے‘‘ کی عرفیت رکھنے والے کرولے کو ''پبلک اینمی نمبر ون‘‘ قرار دیا گیا یعنی وہ اُن لوگوں میں سے تھا جن سے معاشرے کو غیر معمولی خطرہ لاحق ہوا کرتا ہے۔ کرولے بات بات پر گولی مار دیا کرتا تھا۔ اُسے خود بھی یاد نہیں ہو گا کہ اُس نے کتنے قتل کیا۔ جب اُسے نیو یارک کی ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ میں گھیر لیا گیا تو اُس نے پولیس پر گولیاں برسانے کے دوران شدید زخمی حالت میں ایک خط لکھا۔ اِس خط میں اُس نے خود کو معصوم اور مظلوم ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اُس نے خط میں دعویٰ کیا کہ اُس کے سینے میں بہت درد مند دل ہے اور یہ کہ اُس نے ہمیشہ لوگوں کا بھلا چاہا۔ ہاں، لوگ ہی اُسے سمجھنے میں ناکام رہے!
یاد رکھیے، یہ بات اُس شخص نے لکھی جس نے گرفتاری سے محض چند گھنٹے قبل ہائی وے پر ایک ٹریفک پولیس سارجنٹ کی جانب سے کار روکے جانے اور لائسنس طلب کیے جانے پر ریوالور نکال کر دو گولیاں سارجنٹ کے سینے میں اتار دی تھیں! یہی نہیں، کرولے نے کار سے اتر کر مردہ سارجنٹ کا پستول نکال کر مزید ایک گولی اُس کے سینے میں اُتاری! اِس قدر سفّاک طبیعت کا مالک کیا دعوٰی کر رہا ہے؟ یہ کہ اُس کے سینے میں تو شفیق دل ہے اور وہ سب کی بھلائی چاہتا ہے!
دنیا کے ہر درندہ صفت مجرم کا یہی حال ہے۔ جیلوں کے حکام سے بات کیجیے تو معلوم ہو گا کہ جتنے بھی خطرناک مجرم ہیں وہ کبھی یہ نہیں مانتے کہ اُنہوں نے کچھ غلط کیا یا اُن کی سوچ غلط تھی۔ وہ ہر معاملے میں ہر حد سے گزرنے پر بھی یہی دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ دوسروں کا بھلا چاہنے کے معاملے میں اُن کا ثانی کوئی نہیں!
ڈیل کارنیگی نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ''ہاؤ ٹو وِن فرینڈز اینڈ انفلوئنس پیپل‘‘ (میٹھے بول کا جادو) میں کرولے کا واقعہ درج کرنے کے بعد لکھا ہے کہ جن کی خباثت میں کسی شبہے کی گنجائش نہیں اور جو اپنے کسی بھی عمل سے معاشرے سے کوئی فیض نہ پہنچا سکے وہ جب خود کو غلط سمجھنے کے لیے تیار نہیں تو پھر اُن لوگوں میں بھی ہمیں کوئی خرابی دکھائی نہیں دینی چاہیے جن کے ساتھ ہم زندگی بسر کرتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ جب بے حساب جرائم کا ارتکاب کرنے والے اپنے آپ کو مجرم یا قصور وار ماننے کے لیے تیار نہیں تو پھر اُن لوگوں کو ہم کیوں بہت بُرا سمجھیں جو ہمارے ساتھ رہتے اور کام کرتے ہیں؟ یعنی یہ کہ لوگوں کی چھوٹی موٹی غلطیاں اور کوتاہیاں معاف کرتے رہنے ہی میں عافیت ہے۔ بہت بڑی غلطی پر تو گرفت کی جا سکتی ہے مگر معمولی سی غلطی کو بنیاد بنا کر کسی میں عیب تلاش کرنے کی مہم پر نکلنا کسی بھی طور قابلِ ستائش امر نہیں۔
یہ تو ہوا کرولے اور دیگر مجرموں کے حالاتِ زندگی سے ملنے والا ایک اہم سبق۔ اِس سے بڑا سبق یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ معاشرے میں ہر طرح کا تنوّع پایا جاتا ہے۔ مادّی اشیا کی طرح لوگوں کے مزاج میں بھی بہت واضح تنوّع ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہمیں یہ ''اختلاف‘‘ قبول کرتے ہوئے زندگی بسر کرنا ہوتی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کا انتہائی بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ مل کر جدوجہد بھی کرنا ہے اور اپنی انفرادیت کو برقرار بھی رکھنا ہے۔
زندگی کا ہر معاملہ اظہر من الشمس ہے۔ جتنا گڑ ڈالیے گا اُتنا میٹھا ہو گا۔ کسی سے جس طور پیش آئیے گا اُسی طور وہ آپ سے بھی پیش آئے گا۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ بُرے کام کا بُرا نتیجہ، بھلے کام کا بھلا انجام۔ ہر چیز روزِ روشن کی طرح سب کے ذہن و دل پر عیاں ہے، واضح ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر کیا سبب ہے کہ لوگ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی بہت کچھ نہیں دیکھتے اور بدمعاملگی کے گڑھے میں جا گِرتے ہیں؟
بات کچھ یوں ہے کہ معاشرے کی عمومی روش خرابی سے عبارت ہوتی ہے۔ لوگ بہت سی بُرائیوں سے بُری طرح آلودہ ہوتے ہیں مگر اِس کے باوجود کسی نہ کسی طور جیے جاتے ہیں اور اپنی کسی بھی خرابی کو دور کرنے پر متوجہ نہیں ہوتے۔ اور اِس سے بھی بُری بات یہ ہے کہ اپنی ہر خرابی پر اَڑنا، ڈٹے رہنا بھی لازم سمجھا جاتا ہے۔
انسانوں کی ایک بڑی نفسی خرابی یہ ہے کہ اپنی ہر بُرائی بہت چھوٹی اور دوسروں کی ہر بُرائی بہت بڑی دکھائی دیتی ہے۔ کوئی معمولی سی غلطی بھی کر بیٹھے تو ہم معاف کرنے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتے۔ اور اگر خود بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کر بیٹھیں تب بھی یہی توقع رکھی جاتی ہے کہ لوگ معاف کر دیں اور بھول جائیں۔ یہ مسئلہ ہر معاشرے میں اور ہر سطح پر موجود ہے۔ ہم سب کی زندگی میں مسائل ہیں۔ مسائل کو حل کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہ دی جائے تو وہ اور بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ ایسے میں اپنی خرابیوں پر کم اور دوسروں کی خرابیوں پر زیادہ نظر رہتی ہے۔ جب اپنے مسائل حل نہ ہو پا رہے ہوں تو انسان کسی جواز کے بغیر دوسروں کے مسائل پر تنقید کرنا اور اُنہیں بُرا سمجھنا اپنا استحقاق سمجھتا ہے۔ بلی کو سامنے پا کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینا اور خود کو محفوظ تصور کر لینا احمقانہ عمل ہے۔ ہم جب اپنے مسائل کو نظر انداز کر کے دوسروں کی چھوٹی چھوٹی خرابیوں پر نظر ڈالتے اور اُنہیں ناقابلِ معافی سمجھتے ہیں‘ تب زندگی مزید پیچیدہ اور دشوار ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایسی حالت میں نفسی امور کی پیچیدگیوں کے کسی ماہر سے مشورہ کرنا لازم ہو جاتا ہے!
اپنے ماحول میں پائے جانے والے لوگوں کا پوری دیانت اور غیر جانب داری سے جائزہ لیجیے۔ یہ سب آپ کے اپنے ہیں۔ اِن سے آپ کا اشتراکِ عمل رہتا ہے۔ اِن سے کام لینا اور اِن کے کام آنا آپ کی زندگی کا لازمی جُزو ہے۔ مل کر کام کرنے میں چند ایک کوتاہیاں بھی سرزد ہوتی ہیں۔ چند ایک فیصلے غلط بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ ہر معاشرے اور ہر ماحول کا حصہ ہے۔ زندگی کا سفر اِسی طور جاری رہتا ہے۔ بات بات پر کسی سے ناراض ہونا اور اُس کی معمولی سی کوتاہی یا غلطی کو معاف نہ کرنا آپ کی زندگی کو مزید الجھاتا رہے گا۔ اچھا ہے کہ آپ اپنی کوتاہیوں پر معذرت چاہا کریں اور دوسروں کی کوتاہیاں معاف کر دیا کریں۔
پھر یاد کیجیے۔ انتہائی سفّاک اور درندہ صفت مجرم بھی جب اپنے آپ کو غلط سمجھنے پر آمادہ نہیں ہوتے تو پھر عمومی سطح پر زندگی بسر کرنے والے اپنی چھوٹی موٹی کوتاہیوں پر کیوں زیادہ شرمندہ ہوں اور معافی مانگتے پھریں؟ دانش کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو قبول کرتے رہیں اور انتہائی معمولی نوعیت کی کوتاہیوں اور غلطیوں پر متوجہ نہ ہوں۔ غلطی صرف اُن سے سرزد نہیں ہوتی جو کچھ نہیں کرتے۔ اشتراکِ عمل ہو گا تو غلطی کا ارتکاب بھی ہو گا، کوتاہی بھی سرزد ہو گی۔ ذرا سی بات پر کسی کو انتہائی درجے کا مجرم تصور کرنا اچھی بات نہیں۔ یہ تو معاشرے کی راہ میں پہاڑ کھڑے کرنے والی روش ہے۔ بیس تیس قتل کرنے، لوگوں کو لوٹنے اور معاشرے میںشدید ہراس پھیلانے والے غلط نہیں تو پھر کوئی بھی غلط یا بُرا نہیں۔