لیاقت، سکت اور محنت ... تینوں کا حسین ملاپ زندگی کو معنویت عطا کرتا ہے۔ کامیاب وہی ہوتے ہیں، جو اپنی صلاحیت کو شناخت کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ سکت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگاتے ہیں اور پھر عمل پسند رویے کے ذریعے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اُنہیں بھرپور کامیابی حاصل کرنے سے شغف ہے۔ ہر شعبے میں وہی لوگ کامیابی سے ہم کنار ہو پاتے ہیں، جو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے معاملے میں سکت کے مطابق کام کرنے کے عادی ہوں اور عمل نواز رویہ کسی بھی حال میں نظر انداز نہ کریں۔
کامیابی کی طرف سے تیزی سے وہ لوگ بڑھتے ہیں ،جو اپنے لیے کسی واضح راہ کا تعین کریں اور پھر بھرپور مطابقت کے ساتھ سفر بھی جاری رکھیں۔ آپ سوچیں گے ایسا تو سبھی کرتے ہیں، پھر کامیابی کو یقینی بنانا کیوں ممکن نہیں ہو پاتا؟ ناکامی کی متعدد وجوہ ہوسکتی ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی میں بھرپور صلاحیت اور سکت پائی جاتی ہو، مگر اُسے یہ معلوم ہی نہ ہو کہ کیا اور کیسے کرنا ہے۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ کوئی بہت محنت کرے، مگر سمت اور ہدف کا تعین کرنے پر متوجہ نہ رہنے کے باعث ساری محنت ضائع کر بیٹھے۔
بہت سے لوگ کسی سے بھرپور مشاورت کے بغیر ہی کام شروع کردیتے ہیں۔ ایسے میں بگاڑ کا امکان باقی رہتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں نمایاں اور فقید المثال کامیابی یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ اُس شعبے کے تمام معاملات اور اسرار و رموز پر نظر رکھنے والوں سے مشاورت کی جائے، اپنے ہدف کا تعین کرکے اُس کے بارے میں تجاویز مانگی جائیں اور پھر ہدف کا حصول یقینی بنانے کے لیے بہترین طریقِ کار اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔ کسی بھی شعبے میں نمایاں ترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہوتا ہے تاکہ لوگ اُن کے تجربے سے سیکھیں، کارکردگی کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے آسانی محسوس کریں۔ قائد کا بنیادی کام تمام متعلقین میں جوش و جذبہ جگائے رکھنا ہے۔ لوگ کام کرنا تو چاہتے ہیں، مگر اس کے لیے اُنہیں لازمی طور پر تحریک درکار ہوتی ہے۔ کوئی بھی ہدف یا شخصیت تحریک دے تو انسان زیادہ لگن سے محنت کرتا ہے اور اس کا نتیجہ بھی دنیا خوب دیکھتی ہے۔
قیادت کی روح یہ ہے کہ دوسروں میں بھی یہ وصف پیدا کیا جائے۔ کسی نہ کسی حد تک تو دنیا کے ہر انسان میں قائدانہ صفت پائی ہی جاتی ہے۔ اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا کا ہر انسان کسی نہ کسی حد تک قائدانہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے، مگر یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ صلاحیت ہونے پر بھی قائدانہ کردار ادا کرنا بچوں کا کھیل نہیں، یہ صفت سیکھنا پڑتی ہے اور اسے نکھارنے میں زمانہ لگتا ہے۔
حقیقی قائد وہ ہے ،جو متعلقین میں سے جس جس میں قائدانہ مزاج دیکھے اُس کی رہنمائی کرے اور اُس میں بھی قیادت کا وصف پیدا کرے۔ ہر شعبے میں قائدانہ کردار ادا کرنے والوں کی غیر معمولی ضرورت رہتی ہے۔ کارکردگی کا گراف اُسی وقت بلند ہوسکتا ہے جب بھرپور رہنمائی میسر ہو۔ کسی بھی ٹیم، ادارے، فیکٹری یا گھر میں لوگ کام کرنے کی بھرپور لگن اُس وقت محسوس کرتے ہیں جب اُنہیں مقصد یا ہدف کے بارے میں صراحت کے ساتھ بتایا جائے۔ قائدانہ کردار ادا کرنے والے بتاتے ہیں کہ کسے کیا کرنا ہے، مگر خیر، معاملہ یہیں تک محدود نہیں۔ قائدانہ کردار ادا کرنے والوں کو دوسروں میں قیادت کا وصف پروان چڑھاکر اُنہیں بھی دوسروں کی راہنمائی کے قابل بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ کوئی دوسروں کو قیادت کے قابل کس طور اور کیوں بنائے۔ انسانی مزاج میں بہت سے حوالوں سے کجی بھی تو پائی جاتی ہے۔ یہ بھی کجی ہی ہے کہ کوئی اپنے جیسا دوسرا پسند نہیں کرتا۔ جس میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی بھرپور صلاحیت پائی جاتی ہو وہ چاہتا ہے کہ وہی اس منفرد حیثیت کا حامل ہو اور کوئی دوسرا اُس کا ہمسر نہ ہو۔ یہ سوچ افسوسناک ہے نہ حیرت انگیز۔ انسان ایسا ہی تو واقع ہوا ہے۔ وہ کسی کو کچھ دینا نہیں چاہتا۔ کسی میں کوئی جوہر پایا جاتا ہے، تو وہ اُس جوہر کو بروئے کار لانے کی بھرپور کوشش کے دوران اس بات کا بھی خیال رکھتا ہے کہ کوئی اُس سے کچھ خاص سیکھ نہ پائے۔ انسان سکھانے کے معاملے میں خاصا احتیاط پسند بلکہ بخیل واقع ہوا ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں ،جو چاہتے ہیں کہ اُن میں جو بھی خوبی ہے وہ دوسروں میں منتقل ہوجائے، مگر تلخ تر حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر یہی چاہتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے، وہ ہمارا ہی رہے، دوسروں کو اُس سے فیض یاب ہونے کا زیادہ موقع نہ ملے۔
قائدانہ کردار ادا کرنے والوں کو اگر یہ ہدایت کی جائے کہ وہ مزید قائد تیار کریں تو اُن کے لیے اچھی خاصی مشکل کھڑی ہو جاتی ہے، جو کچھ انسان کو آتا ہے، اُس سے دوسروں کو مستفید ہونے کا موقع دینے اور پورا ہنر دوسروں میں منتقل یا نصب کرنے میں بہت فرق ہے۔ ایک اور نکتہ بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ بہت سے لوگ اپنا کام جانتے تو بہت اچھی طرح ہیں اور اُن کی کارکردگی ہوتی بھی متاثر کن ہے، مگر دوسروں کو سکھانے کے معاملے میں وہ تھوڑے سے کمزور ثابت ہوتے ہیں۔ کچھ تو کم آمیزی کا بھی دخل ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کا مزاج ہی نہیں ہوتا کہ دوسروں کو کچھ سکھائیں۔ ایسے میں اگر اُن سے کہا جائے کہ اپنا ہنر منتقل کریں تو اُن کے لیے اچھی خاصی پریشان کن صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے۔
قائدانہ صلاحیت پیدا کرنا یوں بھی بہت مشکل کام ہے کیونکہ یہ کردار دیگر تمام کرداروں سے بہت ہٹ کر یعنی منفرد اور مشکل ہوتا ہے۔ آپ خود تصور کیجیے کہ کسی کی قیادت کرنا آپ کے لیے کتنا مشکل کام ثابت ہوتا ہے۔ اور اگر آپ سے کہا جائے کہ دوسروں کو بھی اس مشکل کام کے لیے تیار کیجیے، تربیت کیجیے تب؟ تب اندازہ ہوتا ہے کہ قیادت کرنے اور دوسروں کو قیادت کے لیے تیار کرنے میں کتنا واضح فرق ہے۔ قائد کا ایک بنیادی فریضہ یہ بھی ہے کہ وہ دوسروں میں بھی قیادت کا ہنر پیدا کرے۔
پاکستان کا شمار اُن معاشروں میں ہوتا ہے، جن میں قائدانہ کردار ادا کرنے اور اس کردار کے تقاضوں کو سمجھنے اور نبھانے والوں کی غیر معمولی قلت ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ جو قیادت کا ہنر جانتے ہیں، وہ دوسروں میں بھی یہ وصف بونے اور پروان چڑھانے کی کوشش کریں۔ قائدانہ کردار ہی صلاحیت اور سکت رکھنے والوں سے کماحقہ کام لینے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ یہ جَوت سے جَوت جگانے، دیے سے دیے جلاتے چلے جانے کا کام ہے۔ معاشرے اِسی طور پنپتے اور مستحکم ہوتے ہیں، جسے جو ہنر آتا ہے وہ دوسروں کو منتقل کرکے ہی دنیا سے جانا ہے۔ دنیا کا معیار اِسی طور بلند ہوتا ہے۔ اس حوالے سے اپنی ذمہ داری کو پوری شدت سے محسوس کرنا لازم ہے۔