"MIK" (space) message & send to 7575

مسکراؤ کہ بات بن جائے !

دانش کے حوالے سے چین نے دنیا کو بہت کچھ دیا ہے۔ کنفیوشس کی تعلیمات سے اہلِ جہاں خوب مستفید ہوئے ہیں۔ چین ہی کی ایک کہاوت ہے کہ جو مسکرانا نہ جانتا ہو‘ وہ دکان نہ کھولے! بات کچھ یوں ہے کہ دکان داری میں لوگوں سے معاملت رہتی ہے۔ دکان پر گاہک یا کرم فرما آتے ہیں۔ اُن سے اشیاء و خدمات کے حوالے سے بات بھی کرنا پڑتی ہے۔ کبھی کبھی بحث و تکرار بھی ہو جاتی ہے۔ دکان پر آنے والا شخص کسی بھی شکایت کی صورت میں تھوڑا سا جذباتی اور بے قابو بھی ہوسکتا ہے۔ اگر دکان دار بھی برابری پر اُتر آئے‘ تو ہوچکا کام اور چل چکی دکان۔ ایسے میں لازم ہے کہ کوئی ایک فریق تو تحمل کا مظاہرہ کرے۔ اور یہ مظاہرہ دکان دار ہی کو کرنا ہے کیونکہ اُس کی دکان پر آنے اور بحث کرنے والا فرد اُس کے کاروبار کے چلنے کا ضامن ہے۔ 
اور محض خالص دکان داری پر کیا موقوف ہے‘ ہماری تو پوری زندگی ہی دکان داری ہے۔ قدم قدم پر لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ تجارت یا دکان داری میں پبلک ڈیلنگ کچھ زیادہ ہوتی ہے ‘وگرنہ ہر شعبے میں‘ ہر معاملے میں ہمیں لوگوں سے معاملت کا سامنا رہتا ہے۔ آپ کا تعلق خواہ کسی شعبے سے ہو‘ دوسروں سے بات بھی کرنا پڑتی ہے اور بحث بھی۔ بحث کبھی کبھی تکرار کی شکل بھی اختیار کرلیتی ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے معاملات درست رہیں‘ لوگوں کو آپ سے کوئی بے جا شکایت نہ ہو اور آپ اُن کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولت اور آسانی کا ذریعہ ثابت ہوں‘ تو لازم ہے کہ آپ اُن سے مسکراتے ہوئے بات کیجیے۔ کسی کا دل جیتنے کا اس سے آسان اور باسہولت طریقہ کوئی اور ہے‘ تو بتائیے؟۔ 
جب انسان خوش مزاجی کا مظاہرہ کرتا ہے ‘تو فریقِ ثانی بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کرتا ہے اور عام طور پر اس کا نتیجہ مثبت تبدیلی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ اس دنیا میں کم ہی لوگ ایسے ہوں گے‘ جن سے کسی کی خوش مزاجی ہضم نہیں ہوتی ہوگی۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جو لوگ خوش مزاجی کا مظاہرہ کرنے کے معاملے میں خسیس نہیں ہوتے ‘وہ لوگوں میں غیر معمولی حد تک مقبول ہوتے ہیں۔ قریباً ہر انسان اس بات کو پسند کرتا ہے کہ کوئی اُس سے خوش دِلی سے ملے۔ دنیا جتنی تیزی سے تبدیل ہوئی ہے اُس کے نتیجے میں اور بہت سی خرابیوں کے ساتھ ساتھ بدمزاجی نے بھی ہم میں جگہ بنالی ہے۔ کبھی کبھی کسی جواز کے بغیر بھی ہم میں مردم بیزاری سی پائی جاتی ہے۔ ذہن میں پنپنے اور داخل ہونے والی الجھنیں اتنی ہیں کہ انسان کے لیے ہر وقت خوش مزاج رہنا اور لوگوں سے بھرپور خوش دِلی سے ملنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ بہر کیف‘ یہ ساری باتیں کسی بہانے کے طور پر بروئے کار نہیں لائی جاسکتیں۔ آپ کے پاس بہترین آپشن خوش اخلاقی‘ خوش دِلی اور خوش مزاجی ہی کا ہے۔ 
کسی بھی بگڑے ہوئے معاملے کو درست کرنے کے لیے جو کچھ بھی کیا جاتا ہے۔ اُس میں خوش مزاجی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ کاروباری معاملات ہوں یا سماجی تعلقات‘ گھر کے اندر کا کوئی دُکھڑا ہو یا پھر گھر سے باہر کے بکھیڑے ... جس طرح بھی نظر ڈالیے گا‘ خوش مزاجی کو بہت آگے پائیے گا۔ 
کسی میں خوش مزاجی یونہی پیدا نہیں ہو جایا کرتی۔ یہ اعلیٰ وصف اُنہی لوگوں کے حصے میں آتا ہے ‘جو زندگی پورے توازن کے ساتھ بسر کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہوتے ہیں۔ زندگی کو بنیادی طور پر مثبت حقیقت کی حیثیت سے قبول کرنے والوں میں ہر معاملے کو خوش دِلی سے انجام تک پہنچانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ جذبہ اُنہیں لوگوں سے اچھی طرح پیش آنے کی تحریک دیتا ہے۔ خوش دِلی اور خوش مزاجی کے بل پر وہ لوگوں کے دِلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ 
جب کوئی دکان دار اپنی دکان پر آنے والے ہر فرد سے خوش دِلی سے ملتا ہے‘ اُس کی رہِ نمائی کرتا ہے اور اُس کی بہتر انداز سے خدمت انجام ہے ‘تب خریدار کو بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ جہاں جانا چاہتا ہے‘ وہ جگہ یہی ہے۔ دکان دار اگر کسی بھی خریدار کو بہترین خدمت فراہم کرے اور ہر مطلوبہ شے بہترین معیار کے ساتھ فراہم کرے تو خریدار کو نہ صرف یہ کہ دوبارہ آنے کی تحریک ملتی ہے‘ بلکہ وہ دوسروں پر بھی زور دیتا ہے کہ اُسی دکان دار سے خریداری کریں۔ 
ہم زندگی بھر دکان چلا رہے ہوتے ہیں۔ ہماری پوری زندگی‘ یعنی قریباً تمام معاملات دکان داری جیسے ہی تو ہیں‘جو بھی ہم سے ملتا ہے ‘وہ بہتر رویے کی توقع رکھتا ہے۔ ہم اگر اپنے رویے میں کوئی کمی رہنے دیں گے ‘تو معاملات کسی بھی طور ہمارے حق نہیں جاسکیں گے۔ ہمارے تمام معاملات کی دکان اُسی وقت ڈھنگ سے چل سکتی ہے ‘جب ہم معاملات کو خوش دِلی سے نمٹائیں‘ لوگوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔ 
خوش دِلی ‘اس بات کا مظہر ہے کہ انسان اپنی زندگی‘ اپنے ماحول اور مجموعی طور پر اس سیارے پر قیام کے لیے بخشی جانے والی مہلت کے حوالے سے سنجیدہ اور مثبت ہے۔ خوش دِلی ہی انسان کو دوسروں کے لیے زیادہ قابلِ قبول بناتی ہے۔ جب ہم کسی سے خوش دِلی سے ملتے ہیں‘ تب اُسے معلوم ہو پاتا ہے کہ کوئی اُسے سنجیدہ سے لے رہا ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے اس سے اچھی کیا ہوسکتی ہے کہ کوئی اُسے خوش دِلی سے ملے‘ توجہ دے اور اُس کی مدد کرنے یا اُس کا مسئلہ حل کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہو۔ یہی سبب ہے کہ خوش دِلی سے پیش آنے والوں‘ مسکراتے ہوئے ملنے والوں کو ہر طرح کے ماحول میں پسند کیا جاتا ہے۔ 
زندگی کو بامقصد تو ہونا ہی چاہیے‘ مگر اس سے ایک قدم آگے جاکر‘ معاملات کی ٹرین کو خوش مزاجی کے ٹریک پر چلایا جانا چاہیے۔ جو مسکرانا جانتا ہے‘ وہی جانتا ہے کہ زندگی کو ہنستے گاتے کس طور گزارنا چاہیے اور کس طور دوسروں کو بھی قبول کرکے زندگی کا حصہ بنانا چاہیے۔ ہم اپنے معاشرے کی بات کریں ‘تو ہر طرف ایسے لوگ پائے جاتے ہیں‘ جو اپنے وجود سے بھی بیزار سے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی اُن کے دل میں کچھ خاص جگہ نہیں۔ یہ سب کچھ مزید خرابیوں کو جنم دے رہا ہے۔ خوش دِلی اور خوش مزاجی کوئی ایسا وصف نہیں کہ کسی میں نہ ہو تو پیدا نہ کیا جاسکے‘ پروان نہ چڑھایا جاسکے۔ کسی سے مسکراتے ہوئے ملنا ہی اس بات کا مظہر ہے کہ آپ زندگی کے حوالے سے سنجیدہ ہیں اور دوسروں کو بھی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ مسکراہٹ اصل ہو‘ تصنع سے پاک ہو تو دل کو دل سے ملاتی ہے‘ تعلقات کو ایسی نہج تک پہنچاتی ہے ‘جہاں سے معاملات زیادہ سے زیادہ بہتری کی طرف لے جانے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی۔
تو پھر ... مسکرائیے کہ بات بن جائے‘ معاملات درست کرنے کی راہ ہموار ہو... !

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں