"MIK" (space) message & send to 7575

’’جاب‘‘ سے کچھ آگے جاکر

دوسرے بہت سے معاشروں کی طرح ہمارے ہاں بھی اب نوکری یا ملازمت کے لیے انگریزی کا لفظ job مستعمل ہے۔ نوکری کے لیے درست انگریزی لفظ employment ہے اور اسی لیے ملازم کو employee کہا جاتا ہے۔ کسی خاص کام کے لیے job کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے‘ مثلاً: کسی ملازم سے کہا جائے کہ تین دکانوں پر جاکر چند چیزیں خرید لائے‘ تو ان تمام چیزوں کی خریداری مکمل کرنے پر کہا جائے کہ اُس ملازم نے بتائی ہوئی job مکمل کرلی۔ 
ہم جب کہیں ملازمت کرتے ہیں ‘تو ہمیں مختلف کام کرنا پڑتے ہیں۔ ہر کام اپنی جگہ ایک مکمل پروفائل رکھتا ہے۔ ہماری مجموعی کارکردگی ہی سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ہم میں کس قدر صلاحیت پائی جاتی ہے اور ہم کیا کرسکتے ہیں۔ زندگی کا معاشی پہلو ہم سے غیر معمولی توجہ کا طالب ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ پوری توجہ کے ساتھ کام کرنے ہی کی صورت میں ہمارے لیے امکانات کی شمع روشن رہتی ہے۔ جب آپ کسی کے لیے کام کرتے ہیں تو پوری لگن‘ سکت اور محنت سے کام کرنے ہی کی صورت میں کچھ بہتری دکھائی دیتی ہے۔ 
''خود روزگار‘‘ طریقے سے معاشی سرگرمیاں جاری رکھنے اور نوکری کرنے میں بہت نمایاں فرق ہے۔ اپنا کام کرنے کی صورت میں انسان بہت کچھ کما سکتا ہے۔ نوکری کی صورت میں لگی بندھی آمدن ہوتی ہے۔ تنخواہ سے زائد کچھ نہیں ملتا۔ اپنا کام کرنے کی صورت میں بھرپور محنت کا بھرپور صِلہ ملتا ہے۔ کسی کی ملازمت کرنا کوئی شرمناک بات نہیں جیسا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جو آپ کو ملازمت دے گا ‘وہ ظاہر ہے‘ سرمایہ کار کہلائے گا۔ آپ کو کام پر لگانے والا ایک خاص حد تک سرمایہ کاری کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ سرمایہ کاری کا بھرپور صِلہ ملے۔ منافع کا گراف بلند سے بلند تر کرنے کے لیے انسان تمام ممکن طریقے بروئے کار لاتا ہے۔ ایسا انسان چاہے گا کہ جنہیں اُس نے ملازم رکھا ہے‘ وہ زیادہ سے زیادہ کام کریں۔ یہیں سے مفادات کا تصادم شروع ہوتا ہے اور ملازمین یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اُن کا استحصال کیا جارہا ہے۔ 
کسی کے ملازم کی حیثیت سے کام کرنے والا ہر فرد‘ کسی نہ کسی صورت، یہ محسوس کرتا رہتا ہے‘ جیسے اُس سے اُس کی صلاحیت کے مطابق کام نہیں لیا جارہا یا پھر اُس کا استحصال کیا جارہا ہے۔ یہ احساس فطری ہے۔ ہر انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور وہ آزاد حیثیت ہی میں زندگی بسر کرنا چاہتا ہے۔ معاشی سرگرمیوں کے معاملے میں بھی وہ آزادی اور اختیار چاہتا ہے‘ مگر ظاہر ہے ایسا ممکن نہیں۔ کسی کی ملازمت میں رہتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق کام کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اگر کوئی اپنی صلاحیتوں کو بھرپور انداز سے بروئے کار لانا چاہتا ہے‘ تو اپنا ذاتی کام شروع کرے۔ اسے انگریزی میں عمومی سطح پر سیلف ایمپلائمنٹ کہتے ہیں۔ ایسی حالت میں کوئی بھی شخص اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے معاملے میں سکت پوری طرح استعمال کرتا ہے۔ تمام آمدن چونکہ اپنی ہوتی ہے‘ اس لیے اپنا کام کرنے والے عام طور پر معمول سے زیادہ محنت کرتے ہیں۔ 
اگر آپ کسی ادارے میں ملازم ہیں‘ تو کام کرتے وقت یہ نہ سوچا کریں کہ سارا منافع تو ادارے کا ہوگا‘ اس لیے زیادہ محنت کیوں کی جائے۔ جب آپ نے ادارے سے معاہدہ کیا ہے کہ اُس کے لیے کام کریں گے‘ تو پھر اُس کے لیے کام کرنا آپ کا فرض ہے۔ کسی بھی ادارے کے ہر ملازم کو ادارے کے لیے بہترین مفاد کے لیے کام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اخلاقی اقدار اور کردار کا تو یہی تقاضا ہے۔ کسی بھی شخص کے کردار کی بلندی اس امر سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کے لیے کس حد تک بار آور ثابت ہوتا ہے۔ کوئی بھی ادارہ اُسی وقت ترقی اور استحکام سے ہم کنار ہوسکتا ہے جب اُس کے ملازمین وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری لگن سے محنت کریں اور اپنے اپنے حصے کا کام (جاب) کماحقہ انجام تک پہنچائیں۔ لگن اور محنت کے معاملے میں ڈنڈی مارنے سے انسان دوسروں کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اگر کسی سے معاہدہ (ملازمت) کیا ہے تو پھر پوری دیانت کے ساتھ محنت کرنا لازم ٹھہرتا ہے۔ یہ اخلاقی اقدار کو اہم سمجھنے کا معاملہ ہے۔ بلند کردار کا حامل ہر فرد اپنے فرض کو محض پہچانتا ہی نہیں ‘بلکہ اُس سے کماحقہ سبک دوش ہونے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ اگر آپ کسی ادارے کے ملازم ہیں تو آپ کے لیے بھرپور ترقی اور طمانیتِ قلب کی راہ اِسی صورت ہموار ہوسکتی ہے کہ آپ اپنے کام میں بھرپور دلچسپی لیں اور اپنے ادارے کو بھرپور کارکردگی سے جس قدر فائدہ پہنچا سکتے ہیں پہنچائیں۔ 
کسی کے لیے کام کرنے والا فرد چاہتا ہے کہ اُسے بھی کچھ زیادہ ملے۔ یہ خواہش بے جا یا غیر فطری نہیں۔ ادارے کے مالک کو بھی یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی ملازم اُسی وقت پوری دیانت اور لگن سے کام کرتا ہے جب اُسے بھرپور کارکردگی کے عوض محض سراہا نہ جائے‘ بلکہ کچھ اضافی صِلہ بھی دیا جائے‘ جو ادارے اپنے ملازمین کو زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی تحریک دینا چاہتے ہیں وہ اُنہیں سراہنے کے ساتھ ساتھ اضافی صِلہ دینے کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ 
کسی بھی ادارے میں اُن ملازمین کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے‘ جو دیئے جانے والے کام سے بڑھ کر بھی کچھ کریں۔ ایسے ملازمین ادارے کے لیے اثاثے کی طرح ہوتے ہیں۔ مالکان تنخواہ میں اضافے اور ترقی دیتے وقت ایسے زیادہ پرجوش اور محنتی ملازمین کو نظر انداز نہیں کرتے۔ اگر آپ اپنی زندگی کے معاشی پہلو کو قابل رشک بنانا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ اپنے کام پر خاطر خواہ توجہ دیں‘ صلاحیت کو بروئے کار لانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں۔ دوسروں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانا آپ کا مطمع نظر ہونا چاہیے۔ ملازمت کے دوران کارکردگی کا گراف بلند رکھنا معاشی امکانات کو بہتر بناتا ہے اور ساکھ بھی بہتر ہوتی ہے۔ اچھی کارکردگی ''کیریئر ریکارڈ‘‘ کو بھی بہتر بناتی ہے۔ ادارہ تبدیل کرنے کی صورت میں بہتر امکانات کی راہ آسانی سے ہموار ہوتی ہے۔ 
سوال صرف معاشی معاملات کا نہیں۔ آپ کو زندگی کے ہر شعبے میں بہتر کارکردگی ہی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ بات ملازمت کی ہو‘ سیلف ایمپلائمنٹ کی یا پھر معاشرتی تعلقات کی‘ ہر شعبے میں لوگ آپ سے بہترین کی توقع رکھتے ہیں۔ آپ کو بہترین ہی کی تک و دَو کرنا ہے۔ اپنے آپ کو منوانے کی یہی ایک صورت ہے۔ ملازمت کو سنجیدگی سے لیجیے۔ ہر اُس کام کو پوری دل جمعی سے انجام تک پہنچائیے ‘جو آپ کی ذمہ داریوں کا حصہ ہو۔ جب تک آپ کسی ادارے کا حصہ ہیں آپ کو اس بات کا پورا یقین ہونا چاہیے کہ آپ کو مفید گردانا جارہا ہے۔ اور جب لوگ آپ پر بھروسہ کر ہی رہے ہیں تو نیم دِلی سے کام کیوں کیا جائے۔ کام کے معاملے میں بھرپور جوش و خروش دکھائیے۔ دوسروں سے نمایاں ہونے کا اور کوئی کارآمد طریقہ نہیں۔ جب آپ جاب کو محض جاب نہیں گردانیں گے اور اپنے حصے کے کام کو فرض سمجھیں گے ‘تب زندگی معنویت سے ہم کنار ہوگی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں