"MIK" (space) message & send to 7575

ٹنڈے اور چٹائی

اللہ کی بنائی اور بسائی ہوئی اس دنیا میں کیا نہیں ہے؟ بہت کچھ ہے اور جو کچھ بھی ہے اُس کا اپنا ہی لطف ہے۔ گھریلو زندگی کے بھی اپنے ہی 'مزے‘ ہیں۔ کبھی کبھی تو اِن 'مزوں‘ کے سامنے دنیا بھر کے مزے پھیکے پکوان جیسے معلوم ہوتے ہیں۔ ع 
مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں 
بہت پہلے کی بات ہے، اطہرؔ نفیس مرحوم نے کہا تھا ؎ 
اطہرؔ! تم نے بھی عشق کیا، کچھ تم ہی کہو کیا حال ہوا 
کوئی نیا احساس ملا، یا سب جیسا احوال ہوا 
کسی سے گھریلو زندگی کے بارے میں کچھ بھی پوچھنا‘ اُسے گناہ گار کرنے کے مترادف ہے۔ گھریلو زندگی کے بارے میں جب بھی کوئی سوال کیا جاتا ہے تو انسان کو صرف اور صرف مصلحت پسندی سے اور اگر زیادہ کھل کر عوامی انداز سے کہیے تو منافقت سے کام لیتے ہوئے کہنا پڑتا ہے ؎ 
کچھ اِس ادا سے آپ نے پوچھا مِرا مزاج 
کہنا پڑا کہ شکر ہے پرودگار کا 
جو گھریلو زندگی کی نعمت سے سرفراز ہوئے ہیں‘ کچھ وہی جانتے ہیں کہ سفارت کاری یعنی ڈپلومیسی کس ہنر کا نام ہے اور کسی کی خوشی کے لیے کس حد تک اور کیسے کیسے جھوٹ بولے جاسکتے ہیں! قتیلؔ شفائی مرحوم نے کہا تھا ؎ 
سچ بات پہ ملتا ہے سدا زہر کا پیالہ 
جینا ہے تو پھر جرأتِ اظہار نہ مانگو 
اِسی غزل کے مطلع میں قتیلؔ شفائی نے کامیاب گھریلو زندگی کا انتہائی مجرّب نسخہ یوں بیان کیا ہے کہ ؎ 
یارو! کسی قاتل سے کبھی پیار نہ مانگو 
اپنے ہی گلے کے لیے تلوار نہ مانگو
یہ مشورہ اُن سب کے لیے ہے جو جیون ساتھی سے محبت کے طالب رہتے ہیں۔ اُس غریب کے اپنے بہت سے جھنجھٹ ہیں۔ وہ آخر کب تک آپ کی فرمائشیں پوری کرے؟ جیون ساتھی سے (اپنی اور اُس کی اوقات سے) کچھ زیادہ طلب کرنا فریقین کی تضیعِ اوقات سے زیادہ کچھ نہیں۔ ؎ 
گِر جاؤگے تم اپنے ''مسیحا‘‘ کی نظر سے 
مرکر بھی علاجِ دلِ بیمار نہ مانگو 
یہ سب کچھ ہمیں واٹس ایپ کے ذریعے موصول ہونے والے دو لطائف کے توسّط سے یاد آیا۔ پہلا آئٹم یوں ہے کہ نوجوان نے ماں سے کہا: امّی! آپ نے پھر وہی ٹِنڈے پکا ڈالے۔ ماں نے کہا: بیٹا یہ نخرے اپنی بیوی کو دِکھانا۔ دس سال بعد اُسی نوجوان نے، جو خیر سے ذرا بھی نوجوان نہیں رہا تھا، بیوی سے کہا: تم نے پھر وہی ٹِنڈے پکا ڈالے۔ بیوی نے تُنک کر جواب دیا: یہ نخرے اپنی اماں کو دکھانے تھے نا! 
دیکھا آپ نے؟ ذرا سی اوقات رکھنے والے ٹِنڈوں نے بے چارے مرد کو کیسا 'بے اوقاتا‘ کر ڈالا! اب آپ ہی بتائیے کہ شیر گھاس کیسے کھائے، کوئی مرد 'ٹِنڈیائی‘ ہوئی زندگی کیسے بسر کرے! یہ مخلوق ماں اور بیوی کے درمیان کھیلے جانے والے بیڈمنٹن میچ میں شٹل کاک کا کردار ادا کرتے رہنے پر مجبور ہے ‘کہ کاتبِ تقدیر یہی چاہتا تھا! 
کسی جگہ چٹائیاں بچھی تھیں اور چند ملنگ اُن پر لیٹے ہوئے تھے۔ ایک شادی شدہ مرد وہاں پہنچا اور سب سے بڑے ملنگ بابا سے کہا :بابا جی! میری بیوی بہت لڑاکی ہے‘ کوئی علاج بتائیے۔ بابا جی نے آواز لگائی چھوٹو‘ ایک چٹائی اور بچھادے! پس ثابت ہوا کہ چَٹائی تب سے ہے ‘جب سے اِنسان روئے ارض پر ہے اور یقیناً ملنگیانہ طرزِ زندگی بھی تب ہی سے ہے! 
شادی شدہ مرد کی زندگی ٹِنڈوں اور چٹائیوں کو محور گردان کر‘ اُن کے گِرد گھومتی رہتی ہے۔ کیا کیجیے، مجبوری کا نام شکریہ اِسی کیفیت کو تو کہتے ہیں۔ سلسلۂ روز و شب یونہی جاری رہتا ہے اور عمر ہاتھ سے پھسلتی جاتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ زندگی بسر کرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں‘ گویا ؎ 
صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے 
عمر یونہی تمام ہوتی ہے
اور کبھی کبھی یہی گھویلو زندگی ایسے حالات پیدا کردیتی ہے کہ قدم قدم پر غالبؔ یاد آتے ہیں جنہوں نے کہا تھا ؎ 
کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ 
صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کا 
جب کبھی کشاکشِ ہستی سے تھوڑی فرصت نصیب ہوئی ہے‘ ہم نے سوچا ہے کہ کیا زندگی سی نعمت اِس لیے عطا ہوئی ہے کہ ٹِنڈوں اور چَٹائی کے درمیان پِس کر رہ جائے! دل میں کیسے کیسے خیال آتے ہیں مگر کوئی راہ نہیں پاتے تو دب کر رہ جاتے ہیں‘ دم توڑ دیتے ہیں۔ گھریلو زندگی کا ایک بڑا حصہ تو محض خدشات اور وسوسوں کی نذر ہوکر رہ جاتا ہے۔ بقول حفیظؔ جالندھری ؎ 
ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں 
کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ایسا نہ ہوجائے
گو مگو اور شش و پنج کیفیت کا نشہ صرف گھریلو زندگی کی شراب پینے سے نصیب ہوسکتا ہے۔ کہیں اور یہ کیفیت تلاش کیجیے تو ہوش کھو بیٹھیے گا۔ 
ہم نے اکثر سوچا ہے کہ خوش گوار اور مثالی نوعیت کی گھریلو زندگی کیا ہوتی ہے یا کیسی ہوتی ہوگی تو مرزا تنقید بیگ کا خیال آئے بغیر نہیں رہتا۔ مرزا نے کامیاب گھریلو زندگی کے کئی نسخے بیان کیے ہیں۔ گھریلو زندگی کے بارے میں مرزا کا انتہائی بنیادی 'نظریہ‘ یہ ہے کہ جس جنگ کے بارے میں روزِ ازل یہ لکھ دیا گیا ہو کہ آپ جیت نہیں پائیں گے‘ اس جنگ کے لیے میدان میں آنا اور دادِ شجاعت دینے کی کوشش کرنا انتہائے حماقت کے سِوا کچھ نہیں۔ محمد علی جوہرؔ کے اِس مصرع کو مرزا نے دانتوں سے پکڑ رکھا ہے اور 'کامیاب‘ گھریلو زندگی بسر کر رہے ہیں! ع 
ہر رنگ میں راضی بہ رضا ہو تو مزا دیکھ! 
یہ مصرع بیان کرنے کے بعد مرزا یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر راضی بہ رضا نہ ہو تو پھر مزا چکھ! مرزا کی بات اگرچہ تھوڑی سی تلخ ہے مگر کیا کیجیے کہ سچ یہی ہے ع 
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی 
روایتاً کہی جانے والی بات بالکل درست ہے کہ شادی موتی چُور کا لڈو ہے کہ کھانے والا بھی پچھتائے اور نہ کھانے والا بھی پچھتائے۔ ہمارا سو فیصد پرسنل مشاہدہ یہ ہے کہ جو پریشانیوں سے بچنے کے لیے گھریلو زندگی کی سرنگ سے نہیں گزرتے وہ کہیں زیادہ پریشانیوں کے گٹر میں گِرکر بے موت مارے جاتے ہیں۔ جینے کے سو طریقے اور ہزار ڈھب ہیں‘ مگر گھریلو زندگی کی اکھاڑ پچھاڑ کا اپنا 'لطف‘ ہے۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ جو یہ 'لطف‘ پاتا ہے وہ بیان کرنے کے قابل نہیں رہ پاتا! 
اور سچ تو یہ ہے صاحب کہ جب اوکھلی میں سر دینا لکھ ہی دیا گیا ہے تو پھر مُوصل سے کیا ڈرنا؟ ؎ 
جب چل پڑے سفر کو تو کیا مُُڑکے دیکھنا 
دنیا کا کیا ہے، اُس نے صدا بار بار دی 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں