"MIK" (space) message & send to 7575

بھارت : اقلیتوں کامعاملہ پھرسر اٹھانے لگا

بھارت میں ایک بار پھر اقلیتوں کا معاملہ سَر اٹھا رہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے حسب ِ روایت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حوالے سے اپنے رویے کو درست کرنے کی بجائے معاملات کو مزید الجھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکمراں جماعت کی طرف سے ایک پریس کانفرنس میں وزیر دفاع نرملا سیتا رمن نے کہا ہے کہ کانگریس‘ آگ سے کھیل رہی ہے۔ اس نے ایک ایسا کھیل شروع کیا ہے‘ انتہائی خطرناک ہے۔ 
یہ خطرناک کھیل کون سا ہے‘ جس کے لیے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کو موردِ الزام ٹھہرایا جارہا ہے؟ کانگریس کے رہنما ششی تھرور نے کہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی پالیسیاں تبدیل نہ کیں اور وہ ایک بار پھر اقتدار میں آئی ‘تو بھارت جلد پاکستان میں تبدیل ہوجائے گا۔ اُن کے اس بیان نے ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔ بی جے پی کیمپ میں تو ہاہا کار مچ گئی ہے۔ رونا دھونا شروع کردیا گیا ہے۔ رہی سہی کسر کانگریس کے صدر راہل گاندھی کے اس بیان نے پوری کردی کہ کانگریس ''مسلم پارٹی‘‘ ہے! 
راہل گاندھی کا انڈین نیشنل کانگریس کو ''مسلم پارٹی‘‘ قرار دینا بی جے پی سے اس لیے ہضم نہیں ہو رہا کہ یہ ایک بیان مسلم ووٹ کو کانگریس کی طرف جانے کی تحریک دے سکتا ہے۔ کانگریس پر خطرناک کھیل شروع کرنے کا الزام عائد کرنے والی بی جے پی نے اب تک کتنا خطرناک کھیل کھیلا ہے‘ یہ سب پر عیاں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دوسروں کی آنکھ کا تنکا دکھائی دیتا ہے‘ اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔ 
''ہندُتوا‘‘ یا ہندو اِزم کا کھیل بی جے پی کی کامیابی کا ضامن رہا ہے۔ اُس نے ہر دور میں عام ہندو ووٹر کو اپیل کرنے کی غرض سے مذہبی کارڈ کھیلا ہے۔ ''ہندُتوا‘‘ کے نام پر عام ہندو ووٹر کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے بی جے پی نے ہر دَور میں اقلیتوں کو بہت بڑے خطرے کی شکل میں پیش کیا ہے۔ اس حوالے سے مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ایک زمانے سے بی جے پی مسلمانوں کو ملک کے لیے سب سے بڑے خطرے کی حیثیت سے پیش کرتی آئی ہے۔ اُس نے مسلمانوں کو مختلف لیبلز کے پیچھے چھپانے کا کوئی بھی موقع کبھی ضائع نہیں کیا۔ چند برس کے دوران بھارت میں مسلمانوں کے خلاف عام ہندو کے جذبات ایک بار پھر اتنے بُرے انداز سے بھڑکائے گئے ہیں کہ یہ آگ آسانی سے بجھتی دکھائی نہیں دیتی۔ گائے کے ذبیحے اور گوشت خوری کو بنیاد بناکر معاملات کو الجھایا جارہا ہے۔ 
مسلمانوں سے دل تھوڑا بھرگیا‘ تو مسیحیوں کی باری آئی۔ مسیحیوں پر ایک الزام تو یہ عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے بہت فعال ہیں‘ یعنی بھارت کو مسیحی ریاست میں تبدیل کرنے کے ''ایجنڈے‘‘ پر کام کر رہے ہیں۔ یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے‘ کیونکہ بھارت میں مسیحیوں کی تعداد برائے نام ہے۔ یہی حال سِکھوں کا ہے۔ سِکھوں کو بھی اب ہندوؤں کی طرف سے غیر معمولی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ایک زمانے تک ہندو یہ تاثر دیتے رہے کہ وہ سِکھوں کے انتہائی ہمدرد اور بہی خواہ ہیں‘ پھر یہ ہوا کہ سِکھوں کو ہندوؤں ہی کا ایک فرقہ بتایا جانے لگا۔ اس پر سِکھوں کا ہوش میں آنا اور بھڑک اٹھنا بالکل بجا تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ سِکھ خود کو باضابطہ اقلیت سمجھتے ہوئے مسلمانوں‘ مسیحیوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ چلتے ہیں۔ 
نچلی ذات کے ہندوؤں میں تبدیلیٔ مذہب کے تیزی سے پنپتے ہوئے رجحان نے بھی بی جے پی کی دُم پر پاؤں رکھا ہوا ہے۔ نچلی ذات کے ہندو عرفِ عام میں ''دَلِت‘‘ یعنی کچلے ہوئے لوگ کہلاتے ہیں۔ صدیوں سے انتہائی نچلے درجے کی زندگی بسر کرنے پر مجبور رہنے کے باعث ان کچلے ہوئے لوگوں کی زندگی میں بظاہر کچھ بھی نہیں۔ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں اور ان کے حاشیہ برداروں نے دلتوں کے استحصال میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ دلتوں کے پاس ہندوؤں سے مایوس ہوکر دیگر مذاہب کے دامن میں پناہ لینے کے سوا چارہ نہ تھا۔ پہلے مرحلے میں اُنہوں نے بدھ اِزم کو اپنایا۔ اب وہ اسلام کی طرف تیزی سے متوجہ ہو رہے ہیں۔ اسلام کے دامن میں چونکہ اُنہیں ہر اعتبار سے برابری کا درجہ مل سکتا ہے‘ اس لیے وہ حلقۂ بگوشِ اسلام ہونے میں دیر نہیں لگارہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک اور اُنہی کی قبیل کے دیگر مبلغین نے دلتوں اور دیگر ہندوؤں کو اسلام کے دامن میں لانے کے حوالے سے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف بی جے پی کی پیدا کردہ فضاء کو مستحکم تر کرنے میں بہت سے نام نہاد مسلم علماء اور دانشوروں نے بھی قابلِ مذمت کردار ادا کیا ہے۔ 
بی جے پی نے اپنے موجودہ دورِ حکومت میں مسلمانوں کو کسی جواز کے بغیر نشانے پر لیا ہوا ہے۔ ایک طرف ''شائنِنگ انڈیا‘‘ کا نعرہ لگایا جارہا ہے اور دوسری طرف بھارتی معاشرے کو تاریکیوں کی طرف دھکیلنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ ایک بار پھر منظّم سازش کے تحت مسلم مخالف لہر پیدا کی گئی ہے۔ بی جے پی اپنا ووٹ بینک برقرار رکھنے کے لیے مسلمانوں کو ہوّا بناکر پیش کرتی رہی ہے۔ ایسا کیے بغیر اُس کے لیے چارہ نہیں‘ کیونکہ اُس کی زنبیل میں ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اور کچھ ہے ہی نہیں۔ 
اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکاکر بی جے پی کب تک ووٹ بٹور سکتی ہے؟ کیا ایسا کرتے رہنے سے معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ واقع نہیں ہوگی؟ کیا ایسا کرنا معاشرے میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو مزید الگ تھلگ کرنے کا باعث نہیں بنے گا؟ کانگریس اور ''ہندُتوا‘‘ پر یقین نہ رکھنے والی دیگر سیاسی جماعتیں یہ تماشا کب تک دیکھ اور جھیل سکتی ہیں؟ کانگریس‘ سماج وادی پارٹی‘ بہوجن سماج پارٹی‘ ترنمول کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل جیسی جماعتیں معاشرے کو مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے مضبوط کرنے اور رکھنے کی کوشش کرتی رہی ہیں‘ مگر ہندو اِزم کا کارڈ کھیل کر بی جے پی بھرپور سیاسی فوائد بٹور لیتی ہے۔ بی جے پی کے اس گھناؤنے کھیل نے اب معاشرتی یگانگت اور ریاستی یکجہتی ہی کو داؤ پر لگادیا ہے۔ ملک بھر میں مسلمان ہی نہیں ‘بلکہ تمام اقلیتیں ایک بار پھر شدید خوف کے عالم میں ہیں اور مل کر الگ علاقوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ بڑے شہروں میں مذہب کے فرق کی بنیاد پر الگ علاقے بسانا ممکن نہیں ہوتا مگر اب یہ کیفیت بڑے شہروں میں بھی پیدا ہو رہی ہے۔ ممبئی‘ دلّی‘ چنئی‘ کلکتہ‘ بنگلور‘ حیدر آباد‘ احمد آباد اور دوسرے بہت سے چھوٹے بڑے شہر ہمہ جہت ترقی کی بجائے تقسیم در تقسیم کے مرحلے سے گزرتے جارہے ہیں۔ عوام کو جوڑنے کی ضرورت ہے‘ مگر بی جے پی نے مسلمانوں‘ مسیحیوں‘ سِکھوں اور دیگر اقلیتوں کو دھمکانے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اگر بھارت میں چند لاکھ مسلمان ہوتے یا اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد چند کروڑ ہوتے‘ تو کوئی بات نہ تھی۔ بیس بائیس کروڑ مسلمانوں کو معاشرے کے مرکزی دھارے سے الگ کرنا‘ ملک کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔
کانگریس نے بروقت آواز اٹھائی ہے۔ اگر بھارتی معاشرے کو تقسیم در تقسیم کے مرحلے سے مزید گزرنے سے روکنا ہے ‘تو لازم ہے کہ ہندو اِزم کے جِن کو بوتل میں بند کیا جائے اور بی جے پی جیسی جماعتوں کو مذہبی کارڈ کھیلنے سے روکا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ششی تھرور اور اُن سے اتفاقِ رائے رکھنے والے دوسرے بہت سے لوگوں کا خدشہ درست ثابت ہونے کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ کانگریس کو مسلم جماعت قرار دینے سے متعلق راہل گاندھی کا بیان سیاسی محرکات کا نتیجہ ہوسکتا ہے‘ مگر یہ بھی دیکھیے کہ سوادِ اعظم میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی بات کرنے والا‘ انہیں اپنانے کا عندیہ دینے والا کوئی تو ہو!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں