جو کچھ جمعے کو نواز شریف اور ان کی بیٹی کے ساتھ ہوا‘ وہ ملک بھر میں اولین اور قابلِ ترجیح موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ زبانیں چل پڑی ہیں۔ لوگ تبصرہ اور تجزیہ کرنے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے بے تاب ہیں۔ دور کی کوڑیاں لائی جارہی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ نواز شریف کو بے وفائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ کارکنوں کو دھوکا دیا گیا ہے۔ کسی کا ''نظریہ‘‘ یہ ہے کہ( ن) لیگ کو اُس کی اپنی قیادت نے اپنی سہولت کی خاطر ''کٹ ٹو سائز‘‘ کرلیا ہے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ جب زبانیں چل پڑیں‘ تو کہاں رکتی ہیں۔ پہلے تو لکھنے لکھانے کا معاملہ تھا۔ اس کے لیے تھوڑی بہت محنت اور توجہ درکار ہوا کرتی تھی۔ اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ چھوٹا سا آڈیو یا وڈیو کلپ بناتے ہیں اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیتے ہیں۔ سُنیے اور مزے لیجیے:۔
ہم نواز شریف کے حوالے سے تھوڑے پریشان تھے۔ ہونا ہی تھا۔ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ واپس آئے‘ گرفتاری دی اور جیل پہنچ گئے۔ اس پورے کھیل میں مسلم لیگ (ن) نے جو طرزِ عمل اختیار کی وہ انتہائی حیرت انگیز اور افسوس ناک تھی۔ پورے ملک میں اُس طرزِ عمل پر طرح طرح کے تبصرے کیے جارہے ہیں ‘جو شہباز شریف اور ان کے بیٹے نے اپنایا۔ نواز شریف کی آمد پر ایئر پورٹ جانے کے لیے ریلی نکالنے کا جو ڈھنگ اپنایا گیا‘ وہ سیاسی اعتبار سے بہت بڑا ''بھنڈ‘‘ تھا۔ لیڈر کو سزا سُنائی جائے‘ تو پارٹی میں ہلچل مچتی ہے‘ شور اٹھتا ہے‘ احتجاج کیا جاتا ہے‘ سسٹم سے ٹکرانے کی بات کی جاتی ہے‘ تھوڑا بہت تصادم بھی ہوتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ فیصلہ آسانی سے قبول نہیں کیا گیا۔
نواز شریف کی بدنصیبی یہ ہے کہ کارکنوں میں تو تھوڑا بہت جوش و جذبہ پایا گیا‘ مگر درونِ خانہ ٹھنڈا ٹھار پروگرام چلتا رہا۔ دنیا حیران تھی کہ گھر کے اندر ہلچل نہیں مچی۔ دنیا بھی عجیب ہے‘ ہر معاملے میں اپنے رنگ ڈھنگ دوسروں پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔ ہر گھر کے اپنے معاملات ہوتے ہیں۔ کس معاملے میں کیا ردعمل ظاہر کیا جائے ‘یہ بھی کیا باہر والے طے کریں گے؟
مرزا تنقید بیگ کو ہر معاملے میں کچھ الگ ہی سُوجھتی ہے۔ دنیا‘ شہباز شریف کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔ سوشل میڈیا کی توپوں سے شہباز شریف اور ان کے بیٹے پر گولے داغے جارہے ہیں۔ نواز شریف کی وطن واپسی پر (ن) لیگ کی ریلی‘ جس نیم دلانہ انداز سے نکالی گئی اور پھر اُسے جس حیرت انگیز طریقے سے ختم کیا گیا ‘اُس پر بہت لے دے ہو رہی ہے۔ مرزا کی رائے یہ ہے کہ شہباز شریف پر کی جانے والی تنقید بلا جواز ہے۔ وہ کہتے ہیں ''دنیا کی یہی ریت ہے۔ کڑی دھوپ میں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ اور بھائی بہرحال سایہ نہیں ہوتا! عبیداللہ علیمؔ کے بقول ؎
محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا
نہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے!
جو کچھ محبت میں ہوتا ہے‘ وہی کچھ سیاست میں بھی ہوتا ہے۔ محب‘ محبوب اور رقیب ... سبھی بدلتے رہتے ہیں۔ وصال کو فراق میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ کوچۂ رقیب میں ویسے تو قدم رکھنا بھی گوارا نہیں ہوتا‘ مگر مفاد کی خاطر کبھی کبھی سر کے بل بھی جانا پڑتا ہے! شہباز شریف پہلے 'راضی بہ رضا‘ ہونے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ ایسے میں اُنہیں کسی بھی طرزِ عمل کے لیے موردِ الزام ٹھہرانا قرینِ انصاف نہ ہوگا۔ بھائی جان کے خلاف فیصلہ سنائے جانے پر اُنہوں نے جو پریس کانفرنس کی تھی‘ اُس میں مشاہد حسین سید اور دیگر شخصیات نے تو بازو پر سیاہ پٹی باندھ رکھی تھی‘ مگر خود شہباز شریف نے سیاہ پٹی باندھنے سے یکسر گریز کرکے کچھ کہے بغیر بتادیا کہ وہ امن کا رنگ قبول کرچکے ہیں! ہم تو اب تک یہ سمجھ نہیں پائے کہ نواز شریف کی آمد پر (ن )لیگ کو متحرک نہ کرنے پر شہباز شریف کو ہدفِ تنقید و استہزاء کیوں بنایا جارہا ہے۔ سیدھی سی بات ہے‘ شہباز شریف کے بھی کچھ 'اسٹیکز‘ ہیں۔ اُن کے بھی تو کچھ ارمان ہیں۔ اور یہ ارمان اسی دنیا میں‘ اسی زندگی میں پورے ہونے ہیں۔ 'برادرِ اعظم‘ کے بعد اب اُن کے 'اعظم‘ بننے کے دن ہیں۔ ایسے میں وہ سیاہ پٹی اور احتجاج وغیرہ کے چکر میں پڑکر اُنہیں کیوں ناراض کریں‘ جو اقتداری سیاہ و سفید کے مالک ہیں؟
مرزا کی بات ہمارے حلق سے نہیں اُتری۔ اترتی بھی کیسے؟ ہم رہتے ہیں خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں اور مرزا بات کر رہے تھے خالص عمل نوازی اور حقیقت پسندی کی۔ شہباز شریف نے بھائی جان کی وطن واپسی پر جو اپروچ اپنائی ہے‘ اُسے خالص عمل نواز اور ''پروفیشنل‘‘ ہی قرار دیا جائے گا۔ ہم جیسے خیالی دنیا میں رہنے والے تو ریلی کی بساط لپیٹنے کے حوالے سے شہباز شریف کے اقدام کو بے وفائی اور بے اعتنائی ہی سے تعبیر کریں گے۔ مرزا کا استدلال ہے کہ شہباز شریف نے اس مشکل گھڑی میں کو اپنے لیے آسان بنانے کی خاطر جو کچھ کیا اُسی کو خالص سیاسی اپروچ کہتے ہیں! کرمنل انڈر ورلڈ ہو یا پولیٹکل اپر ورلڈ ... دونوں دنیاؤں میں اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ اپنے دامن کو داغدار ہونے سے کس طور بچایا جائے اور اپنے گلے پر پِھرنے کے لیے بے تاب دکھائی دینے والی چُھری کو دوسروں کے گلے تک پہنچنے کا راستہ کس طرح بتایا جائے!
ہمیں شش و پنج میں مبتلا اور عدمِ اتفاق کی راہ پر گامزن دیکھ کر مرزا نے‘ از راہِ ترحّم‘ ایک ایسا نکتہ بیان کیا‘ جو ہمیں سُوجھا ہی نہیں۔ مرزا بولے ''شہباز شریف نے ریلی کی بساط لپیٹ کر دراصل (ن) لیگ کے تمام کارکنوں پر ایک بہت بڑا احسان کیا‘ اُنہیں زندگی بھر کی تہمت سے بچالیا۔‘‘
تہمت؟ کیسی تہمت؟ ہم نے جب حیران ہوکر وضاحت چاہی‘ تو مرزا نے کمالِ شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وضاحت کا فریضہ یوں انجام دیا : ''عمران خان نے ایک دن پہلے انتباہ کردیا تھا۔ اس انتباہ کی روشنی میں نواز شریف کے استقبال کے لیے جانے والے تمام لیگی کارکنوں کی نوع ہی تبدیل ہو جانی تھی۔ شہباز شریف نے استقبالی ریلی بروقت ختم کرکے اُس میں شامل تمام لیگی کارکنوں کو شرفِ انسانیت سے ہم کنار رہنے کا موقع فراہم کیا‘‘۔
جب ہم نے بتایا کہ ہماری سمجھ میں بات اب تک نہیں آئی‘ تو مرزا نے ہماری فہم و فراست کو ''خراجِ تحسین‘‘ پیش کرتے ہوئے کہا ''عمران خان نے کہہ دیا تھا کہ نواز شریف کا استقبال کرنے والے گدھے ہوں گے‘ اگر لیگی کارکن ان کا استقبال کرلیتے تو شرفِ انسانیت سے محروم ہو جاتے۔ خیر ہو شہباز شریف کی کہ اُن کے فیض سے لیگی کارکن اب تک خیر سے انسان ہیں!‘‘
حق تو یہ ہے کہ مرزا نے ایسی نکتہ آفرینی کی کہ ہمارے پاس شہباز شریف کے حق میں خاصی دیر تک خاموشی اختیار کرنے کے سوا چارہ نہ رہا‘ مگر خیر‘ ہم تحریکِ انصاف کے چیئرمین سے اتنی استدعا ضرور کریں گے کہ سیاسی مخاصمت کے معاملات میں بے زبان جانوروں کو نہ گھسیٹا کریں ‘کیونکہ اب تک اُن کی تو بہرحال کچھ نہ کچھ توقیر ہے!