کل ہم نے اُن احباب کا ذکر کیا تھا‘ جو طرح طرح کے برقی پیغامات بھیج کر ناک میں دم بھی کیا کرتے ہیں اور کبھی کوئی چشم کشا جملہ یا واقعہ بھیج کر دل و دماغ میں ہلچل برپا کرنے کا اہتمام بھی کردیا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فی زمانہ کوئی بھی بڑی بات زیادہ دیر تک دل یا دماغ کو اپنی گرفت میں نہیں رکھ پاتی۔ سبب اس کا یہ ہے کہ گزشتہ زمانوں کے برعکس اب دانش کے موتیوں سے مزیّن بہت سی باتیں بہت بڑے پیمانے پر ہم تک پہنچ رہی ہیں اور دل و دماغ کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کس بات پر کتنی دیر تک رُکا جائے اور کس بات کے سامنے سے بس یونہی سرسری گزر جانے پر اکتفا کیا جائے۔
ایک دور تھا کہ انسان کے پاس یہ کہنے کا موقع تھا کہ بہت سی باتوں کا تو علم ہی نہ تھا ‘اس لیے مواخذہ نہ کیا جائے۔ اب کوئی بھی مواخذے سے بچ نہیں سکتا۔ جاں بخشی ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ جو کچھ بھی انسان کو کسی بھی حوالے سے جاننا چاہیے‘ وہ سب کچھ ایک کلک کی دوری پر ہے۔ دین اور دنیا کا کوئی بھی معاملہ اور مسئلہ ہماری دسترس سے باہر یا بہت دور نہیں۔ کوئی اگر ہماری راہ نمائی کے لیے موجود نہ ہو تو پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ موبائل فون پر انٹرنیٹ کنکشن ہے؟ اگر ہاں‘ تو پھر اور کیا چاہیے؟ بس اتنا ہی کافی ہے۔ چند لمحات میں معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کسی بھی مسئلے پر دینی تعلیمات کیا ہیں۔ یہی حال دوسرے بہت سے معاملات کا ہے۔ اگر آپ کے پاس معلومات کم ہیں تو انٹرنیٹ سے استفادہ کیجیے۔ آن کی آن میں وہ سب کچھ معلوم ہو رہے گا‘ جو آپ کو معلوم ہونا چاہیے۔
کل تک بہت کچھ تھا‘ جو ہماری زندگی میں نہ تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم متعدد امور میں بنیادی معلومات تک سے بخوبی یا کماحقہ واقف نہ تھے۔ وہ زمانہ آسان بھی تھا اور مشکل بھی۔ مشکل یہ تھی کہ بہت سے معاملات میں اہم باتوں کا آسانی سے علم نہ ہو پاتا تھا۔ اس کے نتیجے میں بہت سے کام ادھورے رہ جاتے تھے۔ آسان یوں تھا کہ کسی بھی معاملے میں ناکامی پر دل کو تھوڑا سا اطمینان رہتا تھا کہ اپنی سی کوشش تو کر دیکھی‘ اب بنیادی ڈھانچا ہی کمزور ہو تو انسان کیا کرے۔ اب ایسی کوئی ''عیاشی‘‘ میسر نہیں۔ آج معاملہ یہ ہے کہ ہر معاملے میں محض بنیادی نہیں ‘بلکہ انتہائی تفصیلی معلومات دستیاب ہیں۔ کوئی کچھ نہ جان پانے کا بہانہ تراشنے کی پوزیشن میں ہے ہی نہیں۔ اب مواخذے کی منزل سے بچ نکلنا سہل نہیں۔
علم کے حصول کے اعتبار سے ہم تاریخ کے سب سے سنہرے‘ بلکہ انتہائی تابناک دور میں جی رہے ہیں۔ دنیا بھر کے علوم و فنون کے بارے میں بنیادی اور عمیق ہر دو طرح کی معلومات کا حصول اب اس قدر آسان ہے کہ سو سال پہلے کے انسان کو دوبارہ زندگی دے کر چند روز آج کی دنیا میں رہنے کا موقع دیا جائے ‘تو وہ کچھ ہی دیر میں حیرت کے سمندر میں غرق ہوکر دوبارہ چل بسے گا! اور اگر ایسا ہو تو اس میں ہمارے لیے حیرت کا کوئی پہلو نہیں۔ پچھلے زمانوں کے انسانوں کا تو خیر ذکر ہی کیا‘ آج کا انسان بھی برق رفتار ترقی کا مشاہدہ کرکے حیران ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے بہت کچھ اتنی تیزی سے بدلا ہے کہ حواس کام نہیں کرتے‘ ذہن سمجھنے اور سوچنے سے انکار کردیتا ہے۔ محض چار عشروں میں یہ دنیا اس قدر بدل گئی ہے کہ 60 اور 70 سال کی درمیانی عمر والوں کے لیے یہ سب کچھ خواب کا سماں معلوم ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو اپنی ہی آنکھوں پر یقین نہیں آتا کہ اُنہوں نے کیا دیکھا اور ہم نے کیا سمجھا۔ حواس پر گولے داغے جانے کا عمل جاری ہے‘ جس کے نتیجے میں انسان کے لیے متعدد معاملات میں محض ششدر رہ جانے اور فوری فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو رہنے کے سوا آپشن نہیں بچا۔
وہ دور بھی اب یادوں کا حصہ بنا کہ جب انسان تھوڑا بہت جان لیتا تھا‘ تو تھوڑی بہت اکڑ دکھانا بھی اپنے لیے حلال سمجھتا تھا۔ اور ایسا کرنا غیر اخلاقی سہی‘ غیر منطقی نہ تھا۔ معاملہ یہ تھا کہ کسی بھی شعبے میں کچھ جاننے اور ماہر کہلائے جانے کی منزل تک پہنچنے کے لیے انسان کو بہت محنت کرنا پڑتی تھی۔ تب انسان کو اخبارات و جرائد کے ساتھ ساتھ کتابیں بھی پڑھنا پڑتی تھیں‘ ریڈیو پر بہت کچھ سننا پڑتا تھا۔ معلومات کے حصول کے تمام ذرائع سے مستفید ہونا لازم سمجھا جاتا تھا۔ ٹی وی آچکا تھا‘ مگر معاملہ ایک یا دو چینلز تک محدود تھا۔ اس لیے بہت کچھ جاننے میں کامیاب ہونے کے لیے انسان ریڈیو سے مدد لینے کا پابند تھا۔ معلومات کی فوری ترسیل کا یہ سب سے مؤثر ذریعہ تھا۔ اتنے بہت سے مراحل سے گزرنے پر اگر کوئی معقول حد تک معلومات کا حامل ہو پاتا تھا‘ تو اُس کا حق تھا کہ تھوڑی بہت اکڑ بھی دکھائے۔
اب تو معاملات محض ایک کلک کی دوری پر ہیں۔ ایسے میں کوئی اس پوزیشن میں ہے کہاں کہ کچھ جاننے کا دعویٰ کرے اور گھمنڈ سے سَر اکڑائے پھرے؟ آج کے انسان کے پاس عجز و انکسار کو زندگی کا بنیادی شعار بنانے کے سوا ڈھنگ کی کوئی راہ نہیں بچی۔ انسان اشرف المخلوق ہے‘ مگر بہت سے معاملات میں اُس کی بھی حدود متعین ہیں۔ آج کا انسان بہت سے معاملات میں محض مجبور ہے۔ جتنی آسانیاں ہیں اُتنی ہی مشکلات ہیں۔ بہت سے معاملات اتنے آسان ہوگئے ہیں کہ اب مشکل محسوس ہونے لگے ہیں! بیشتر آسانیوں نے انسان کو الجھنوں سے دوچار کردیا ہے۔ ہر طرف معلومات کا ڈھیر لگا ہے‘ مگر انسان کے لیے ٹھوس اور پختہ علم کا حصول آج بھی دردِ سر سے کم نہیں۔ معلومات کے ڈھیر میں بہت کچھ ہے جو کسی کام کا نہیں۔ بہت سے اہم معاملات غیر متعلقہ امور کے بوجھ تلے یوں دبے ہیں ‘اُن کا باقی رہ جانا معجزے سے کم نہیں۔ انسان کے پاس اب گھمنڈی ہونے اور اکڑ دکھانے کا آپشن نہیں بچا۔ اب تو خوش دِلی کے ساتھ اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرنا ہے۔ اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرنے ہی پر ہمیں اندازہ ہوسکتا ہے کہ آج کی دنیا میں ہمارا مقام کیا ہے اور ہم کس طور اپنے حصے کا کام کرتے ہوئے دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ ڈیجیٹل انقلاب نے اب کسی کو بھی اکڑنے کی پوزیشن میں نہیں چھوڑا۔ معمولی سی مشین سب کچھ جانتی ہے۔ آپ کی ہتھیلی پر رکھا ہوا موبائل فون پوری دنیا کو آپ کے قدموں میں ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب آپ کو زیادہ مغز پاشی کرنے کی ضرورت نہیں۔ جب سب کچھ ایک چھوٹی سی ڈیوائس میں بند ہے‘ تو پھر آپ اپنے کس کمال کی بات کرتے ہیں! ہمیں مکیش کے گائے ہوئے ایک گانے کا انترا یاد آرہا ہے ؎
تمہارے محل چوبارے یہیں رہ جائیں گے سارے
اکڑ کس بات کی پیارے‘ یہ سر پھر بھی جھکانا ہے