"MIK" (space) message & send to 7575

’’عوامی راج‘‘

دنیا بھر میں ایک نئی معاشرتی و سیاسی حقیقت ابھر رہی ہے ‘جس کے آگے بہت سے اصول اور قوانین بے دم سے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے عوام کے بے قابو ہونے کی۔ پس ماندہ‘ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ... تینوں ہی طرح کے معاشروں میں ریاستی نظم و ضبط کی بنیادیں کمزور پڑتی جارہی ہیں۔ جب کبھی کوئی بڑا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے تب سوادِ اعظم‘ یعنی معاشرے کی غالب اکثریت کی رائے تمام امور پر تسرف قائم کرتی دکھائی دینے لگتی ہے۔ 
کسی بھی اِشو کے حوالے سے عوام میں پیدا ہونے والے جذباتی اُبھار کو بیان کرنے کے لیے populism (عوامیت) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ پس ماندہ اور ترقی پذیر معاشروں میں عوامی جذبات کے ریلے میں بہہ جانے کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ کسی بھی بڑے اِشو پر عوام کے جذبات جب غیر معمولی حد تک پنپ اور ابھر کر بے قابو ہو جاتے ہیں تب سیاسی جماعتیں اور ریاستی نظم و ضبط سبھی کچھ بے بس سا دکھائی دینے لگتا ہے۔ عوامی جذبات کا ریلا تیزی سے آتا ہے اور بہت کچھ اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ جب یہ ریلا گزر جاتا ہے‘ تب اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھوں نقصان کس حد تک پہنچا ہے۔ بسا اوقات عوام کے جذبات کو پروان چڑھانے والے بھی اندازہ نہیں لگا پاتے کہ کیا کھوئیں گے اور کیا پائیں گے۔ اندازے کی غلطی معاشرے اور ریاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا جاتی ہے۔ 
چند عشروں کے دوران دنیا بھر میں انتہا پسندی بڑھی ہے۔ اس رجحان نے مہذب اور غیر مہذب ہر دو طرح کے معاشروں سے بہت کچھ چھین لیا ہے۔ کسی بھی موضوع پر ڈھنگ سے اور کام کی بات کرنے والوں کی بات اَن سُنی کردی جاتی ہے اور صرف اُنہیں مقبولیت ملتی ہے ‘جو کسی بھی غیر منطقی بات کو انتہائی جوش و خروش سے‘ بڑھ چڑھ کر بیان کریں۔ میڈیا پر کامیابی کا یہی راز ہے۔ سیاست دان ہوں یا اینکرز‘ سبھی صرف اُس وقت کامیاب ہو پاتے ہیں جب اپنی بات چیخ کر‘ انتہا پسند رجحان کے ساتھ کہیں۔ عوام کا مزاج ہی کچھ ایسا ہوگیا ہے یا بنادیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی معقول بات کو شائستہ انداز سے سُنتے ہیں‘ نہ ہضم کر پاتے ہیں۔ سب کی خواہش ہے کہ ہر بات انتہائی جذباتی انداز سے‘ جوش و خروش کے ساتھ اور بڑھک آمیز انداز سے بیان کی جائے۔ آج کل میڈیا میں جو اصطلاح چل رہی ہے‘ اُس کا سہارا لے کر کہیں تو معاملہ یہ ہے کہ کوئی بھی بات ''ششکوں‘‘ کے بغیر اچھی نہیں لگتی۔ 
بات ہو رہی ہے ''عوامی راج‘‘ کی۔ آپ نے ''غنڈہ راج‘‘ کی اصطلاح تو سُنی ہی ہوگی۔ اور ''پولیس اسٹیٹ‘‘ کی اصطلاح بھی آپ کی سماعت کی نذر ضرور ہوئی ہوگی۔ ذہن تسلیم کرے یا نہ کرے‘ تلخ اور دل خراش حقیقت یہ ہے کہ آج کی دنیا میں تیزی سے پنپتا ہوا عوامی راج بھی غنڈہ راج یا پولیس اسٹیٹ سے کم خطرناک نہیں۔ یہ تینوں اصطلاحات دراصل ایک ایسی کیفیت کی طرف اشارا کرتی ہیں‘ جس میں تہذیب‘ شائستگی‘ قانون کے احترام اور اخلاقی اقدار کی طرف جھکنے کی گنجائش برائے نام رہ جاتی ہے۔ عوام کی سوچ اور جذبات انتہائی سطحی ہوتے ہیں۔ عام آدمی زندگی کے بیشتر اہم امور کے بارے میں برائے نام بھی نہیں جانتا اور جاننا چاہتا بھی نہیں۔ عوام کی اجتماعی نفسیات بالعموم وہی ہوتی ہے‘ جو بھیڑوں کے ریوڑ کی ہوتی ہے۔ رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے ہنر سے بخوبی واقف اور اس حوالے سے سکت رکھنے والے رائے عام کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔ عوام کسی بھی نئے ریلے میں تیزی سے بہہ جاتے ہیں اور پھر کچھ ہی دیر میں اُنہیں اپنی سادہ لوحی (یا حماقت) کا احساس بھی ہوتا ہے‘ مگر خیر‘ تب تک بہت کچھ ہوچکا ہوتا ہے۔ 
ڈیڑھ دو عشروں کے دوران جنوبی ایشیا میں ہجوم کی نفسیات غیر معمولی حد تک متحرک رہی ہے۔ رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والوں نے معاملات کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کے حوالے سے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش میں ہجوم کی نفسیات غیر معمولی حد تک نمایاں اور متحرک رہی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں شدت ہی آتی جارہی ہے۔ 
بھارت میں انتہا پسند ہندو سیاست دانوں نے پاکستان کے خلاف نفرت کی بنیاد پر اپنے ہی معاشرے میں کروڑوں مسلمانوں کو شدید عمومی نفرت کا نشانہ بنائے رکھنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ انتہا پسند ہندو چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی حوالے سے مسلمانوں کو نشانے پر رکھ کر اپنا ووٹ بینک برقرار رکھیں۔ اور اس سوچ کے مطابق کام کرکے اُنہوں نے بھرپور سیاسی و انتخابی کامیابی حاصل کی ہے۔ علم و عمل کی عمومی سطح پر غیر معمولی پیش رفت یقینی بناکر ترقی کرنے کے باوجود بھارتی معاشرہ اب تک معاشرتی اور تہذیبی سطح پر نہایت سطحی زندگی بسر کر رہا ہے۔ نچلی ذات کے ہندوؤں سے بدسلوکی اور مسلمانوں سمیت تمام مذہبی اقلیتوں سے انتہائی امتیازی سلوک اب تک بھارتی معاشرے کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ اور کچھ نہیں تو گائے کی حفاظت کے نام پر مسلمانوں کو نشانے پر رکھنے کی ''روایت‘‘ اس قدر جڑ پکڑ چکی ہے کہ چیف جسٹس دیپک مشرا کو بھی کہنا پڑا ہے کہ بپھرے ہوئے ٹولوں کے ہاتھوں مسلمانوں اور دیگر اقلیتی بھارتیوں کو تشدد کا نشانہ بنانا یا موت کے گھاٹ اتار دینا انتہائی خطرناک رجحان ہے‘ جس کی بیخ کنی کی جانی چاہیے اور اس حوالے سے ریاستیں (صوبائی) اپنا کردار پوری جاں فشانی اور ایمان داری سے ادا کریں۔ نریندر مودی کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران بھارت کی متعدد ریاستوں میں انتہا پسند ہندوؤں نے گائے کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر متعدد مسلمانوں کو شہید کیا ہے اور تشدد کے ذریعے شدید زخمی کرنے کے واقعات شرمناک حد تک زیادہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انتہا پسند ہندو جماعتوں نے عام ہندوؤں کے جذبات بھڑکاکر اُن میں ایک مستقل کھلونے کی طلب پیدا کردی ہے اور کھلونے کا کردار مسلمانوں کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ 
ہمارے ہاں بھی عوامی راج کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ بہت سے مذہبی گروہوں نے متعدد مواقع پر عوام کے جذبات بھڑکاکر ایسی صورتِ حال پیدا کی ہے‘ جو معاشرے کا تانا بانا بکھیر دینے کے لیے انتہائی کافی ہے۔ متعدد کیسز میں کسی پر بھی توہین مذہب کا الزام لگاکر صفائی یا وضاحت کا موقع دیئے بغیر اُسے نشانہ بناکر ختم کردیا گیا۔ دیہی معاشرے میں یہ رجحان خطرناک حد تک پروان چڑھ چکا ہے۔ مسلکی فرق کی بنیاد پر کسی کو بھی نشانہ بنانا بہت آسان ہے اور پھر مواخذے کا خوف بھی نہیں۔ اس رجحان کی بھرپور حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ 
دنیا بھر میں ہجوم کی نفسیات پنپ رہی ہے‘ مگر ساتھ ہی ساتھ اس کے خلاف آواز بھی بلند کی جارہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہجوم کی نفسیات ‘یعنی عوامی راج کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کی صورت میں قانون‘ تہذیبی‘ شائستگی‘ اخلاقی اقدار‘ رواداری ... سبھی کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ عوام کے جذبات میں پیدا ہونے والا اُبال تیزی سے ختم بھی ہو جاتا ہے‘ مگر چھوٹے سے دورانیے میں وہ بہت سے ایسی خرابیاں پیدا کر جاتا ہے‘ جنہیں دور کرنے میں عشرے لگ جاتے ہیں۔ آج کی دنیا میں کسی مقام تک پہنچنا کسی بھی قوم کے لیے آسان نہیں اور برقرار رکھنا تو اور بھی بہت مشکل ہے۔ ایسے میں معقولیت کا دامن تھامے رہنے ہی میں دانش مندی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں