"MIK" (space) message & send to 7575

’’قاتلوں کو کچھ نہ کہا جائے‘‘

معاشرہ بے لگام جنون کے ہاتھوں اسیری کی زندگی بسر کر رہا ہو تو معاملات کو درست کرنے کے لیے سَر دھڑ کی بازی لگانا پڑتی ہے۔ جہاں لوگوں کا مزاج بگاڑ دیا گیا ہو وہاں شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے بیان کیا جانے والا کوئی بھی نکتہ زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ غیر منطقی اور بے لگام جوش و خروش کی موجوں میں بہتے ہوئے لوگ انجام کا نہیں سوچتے۔ اگر سوچنے کی توفیق نصیب ہوئی ہوتی تو بے عقلی پر مبنی جوش و خروش کے دریا میں ڈبکی ہی کیوں لگاتے! 
ارون دھتی رائے کا شمار اُن اہلِ دانش میں ہوتا ہے جو ضمیر پر ذرا سا بھی بوجھ برداشت کرنے کے قائل نہیں۔ یہ اہلِ نظر جہاں بھی کچھ غلط دیکھتے ہیں‘ پوری تیاری کے ساتھ میدان میں آجاتے ہیں اور اپنی بات مکمل طور پر کہنے تک سکون کا سانس نہیں لیتے‘ نچلے نہیں بیٹھتے۔ کوئی پسند کرے یا نہ کرے‘ اِنہیں اپنی بات کہنے سے اور اپنے ضمیر کی عدالت میں کھڑے ہوکر جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ کہنے سے غرض ہوتی ہے۔ ارون دھتی رائے نے کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کے بارے میں لگی لپٹی رکھے بغیر اتنا کچھ بیان کیا ہے کہ ان کی ہمت پر حیرت ہوتی ہے اور کبھی کبھی تو یقین ہی نہیں آتا کہ بھارت کے تنگ نظر معاشرے میں کوئی اس حد تک بھی جاسکتا ہے۔ 
ارون دھتی رائے کی بے باک رائے دہی کا تازہ ترین مظاہرہ پانچ ریاستوں می چھاپوں کے دوران بائیں بازو کے 6 دانشوروں اور اساتذہ کی گرفتاری پر ردعمل کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ بھارت کے خفیہ اداروں کی مرتب کی ہوئی رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی‘ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر امیت شاہ اور مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے قتل کی سازش تیار کی جارہی ہے۔ رپورٹس کی روشنی میں پولیس نے جو گرفتاریاں کی ہیں وہ ملک بھر میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کے لیے کافی ہیں۔ ملک بھر میں حکومت پر تنقید کی جارہی ہے کہ اس نے بنیادی حقوق کے لیے اور بالخصوص نچلی ذات کے ہندوؤں (دلتوں) کی خاطر آواز اٹھانے والوں کو گرفتار کرکے ماحول خراب کر رہی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے قتل کی سازش کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) سے تعلق رکھنے والوں نے تیار کی تھی۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اس صورتحال سے سخت برافروختہ ہیں اور انہوں نے مرکزی حکومت پر ایک اور محاذ کھولنے کا الزام عائد کیا ہے۔ 
معروف ہندی اخبار ''جَن سَتّا‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ارون دھتی رائے نے کہا ''ملک میں عجیب ہی ماحول پایا جارہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایمرجنسی نافذ کی جانے والی ہے۔ ایسی فضاء پیدا کی گئی ہے کہ قاتلوں کو کچھ نہ کہا جائے اور ہندو اکثریت کے ظالمانہ رویّے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کو سُولی پر لٹکا دیا جائے۔ جو لوگ گائے کی حفاظت کے نام پر مسلمانوں کو پکڑ کر سرعام قتل کر رہے ہیں انہیں سزا دینا یا ان کے خلاف مقدمہ درج کرنا تو بہت دور کی بات ہے‘ ان کی مذمت کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی اور دوسری طرف بائیں بازو سے تعلق رکھنے والا جو بھی دانشور‘ شاعر‘ مصنف‘ استاد یا بنیادی حقوق کا کارکن مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر ہندو اکثریت کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے اسے کسی نہ کسی الزام کے تحت دھر لیا جاتا ہے‘‘۔ 
بھارت میں عام انتخابات بہت نزدیک آگئے ہیں۔ ووٹ بینک کی سیاست جو گل کِھلایا کرتی ہے وہ خوب کِھل رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملک کو چلانے کی بھرپور کوشش سے گریز کیا ہے اور اب اس کے پاس ووٹ بینک برقرار رکھنے کا یہی ایک طریقہ رہ گیا ہے کہ کسی نہ کسی طور اقلیتوں‘ بالخصوص مسلمانوں کو نشانے پر رکھا جائے اور ایسی فضاء پیدا کی جائے جس میں مسلمانوں کو خطرہ سمجھتے ہوئے لوگ بی جے پی کو اپنے لیے واحد نجات دہندہ کے روپ میں دیکھیں۔ 
نریندر مودی کے دورِ اقتدار میں بھارت نے انتہا پسندی کا انتہائی بھیانک روپ دیکھا ہے۔ تین چار برس کے دوران گائے کی حفاظت کے نام پر لِنچنگ یعنی ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنائے جانے اور موت کے گھاٹ اتارے جانے کے متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ان واقعات نے معاشرے میں انتہا پسندی کو خطرناک ترین حد تک پہنچا دیا ہے۔ یوں تو بھارت میں تمام ہی اقلیتیں پریشان رہی ہیں اور اس وقت شدید خوف کے عالم میں جی رہی ہیں‘ تاہم مسلمان اور عیسائی خاص طور پر نشانے پر رہے ہیں۔ دَلِتوں پر مظالم کی انتہا ہوگئی ہے۔ اکیسویں صدی میں ان مظلوموں سے وہی سلوک روا رکھا جارہا ہے جو دو ڈھائی ہزار سال سے روا رکھا جاتا رہا ہے۔ بھارتی معاشرے کا تضاد یہ ہے کہ ایک طرف تو جدید دور کے تمام تقاضے نبھاتے ہوئے یعنی جدید ترین علوم و فنون میں دسترس بہم پہنچاتے ہوئے خوب ترقی کرنے اور معیارِ زندگی بلند کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ اور اس حقیقت سے کوئی انکار بھی نہیں کرسکتا کہ بھارت نے اکیسویں صدی میں مادّی ترقی یقینی بنانے کی غرض سے درکار تمام مہارتوں کا حصول یقینی بنانے پر خاطر خواہ توجہ دی ہے۔ یہ اور بات کہ اس کوشش میں معاشرتی اور اخلاقی پہلو یکسر نظر انداز کردیئے گئے ہیں۔ بھارتی معاشرے میں ایک طرف جدید ترین علوم و فنون میں غیر معمولی مہارت رکھنے والے افراد اور دوسری طرف بھی یہی افراد ہیں جو معاشرتی سطح پر انتہائی پست ہیں۔ اخلاقی اقدار کو خیرباد کہتے ہوئے مادر پدر آزاد زندگی کو اپنانے پر زور دیا جارہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ دلتوں کو معاشرتی اعتبار سے سب سے نچلے درجے پر رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ تضاد بھارتی معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ 
ارون دھتی رائے نے درست ہی تو کہا ہے کہ ایسی فضاء تیار کردی گئی ہے جس میں قاتلوں کو کچھ بھی کہنے سے گریز کیا جارہا ہے اور مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کا گلا گھونٹنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ ایسے غیر معمولی تضاد کے ساتھ زندہ رہنے والا معاشرہ اور تو سب کچھ پاسکتا ہے‘ فلاح نہیں پاسکتا۔ بھارت میں اعتدال پسند سوچ رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں مگر جب معاشرہ مجموعی طور پر مغلوب الجذبات ہو تو وہ بھی کیا کریں اور کب تک‘ کتنے خطرات مول لیں؟ ارون دھتی رائے جیسے اہلِ نظر کا دم غنیمت ہے جن کا ضمیر ہمہ وقت بیدار رہ کر وجود کو معنویت سے ہم کنار رکھنے کے تقاضے نبھاتا رہتا ہے۔ بھارتی معاشرے میں اقلیتوں کی امیدوں کو زندہ رکھنے کے لیے ارون دھتی رائے اور اِسی قبیل کی دیگر باضمیر ہستیاں نعمت سے کم نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ انتہا پسند ہندوؤں کا ضمیر کب جاگے گا اور انہیں اپنی جہالت و حماقت کا احساس کب ہوگا۔ محض ووٹ بینک کی دکان کا دھندا بڑھانے کے لیے پورے معاشرے کو تلپٹ کرنے کی حماقت آمیز پالیسی پر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ بھارتیہ جنتا پارٹی‘ وشوا ہندو پریشد اور اُن کی چھتر چھایا میں پلنے والے بجرنگ دل‘ سیو سینا اور دیگر انتہا پسند گروپ کب تک عمل پیرا رہیں گے؟ گائے کی حفاظت کے نام پر انتہائی بچگانہ نوعیت کی سیاست کا بازار گرم رکھ کر انتہا پسند اپنا ووٹ بینک بھلے ہی برقرار رکھ لیں‘ معاشرے کی جڑیں تو کاٹتے ہی رہیں گے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں