ہر معاشرہ کسی نہ کسی خاص سوچ کا حامل ہوتا ہے۔ اس سوچ کے بہت سے off-shoots ہوسکتے ہیں۔ بہر کیف‘ معاشرے کی شناخت کوئی خاص سوچ ضرور ہوتی ہے۔ آج کا پاکستانی معاشرہ بھی سوچ کے حوالے سے ایک خاص شناخت رکھتا ہے۔ اس سوچ کو ہم شدید نوعیت کی بے ذہنی کا نام دے سکتے ہیں۔ معاشرے کی عمومی روش یہ ہے کہ بیشتر یا قریباً تمام ہی معاملات میں ذہن کو بروئے کار لانے سے گریز کیا جائے۔ کسی بحرانی کیفیت میں بے گھر ہونے کے بعد ریلیف کیمپوں میں وقت گزارنے والے افراد کی سی سوچ پورے معاشرے پر محیط ہے۔ سبھی بظاہر لمحہ موجود میں جی رہے ہیں۔ گزرے ہوئے زمانوں سے کچھ سیکھنے کی خواہش نہیں اور آنیوالے زمانے کے بارے میں سوچنے سے کچھ خاص غرض نہیں‘ یعنی یہ کہ جو کچھ سرِ دست میسر ہے‘ اُسی کو زندگی کی کل کائنات تصور کرتے ہوئے زندگی سے بھرپور حِظ اٹھانے کی کوشش کی جائے‘جو مل گیا‘ اُسی کو مقدر سمجھ لیا والی سوچ تیزی سے پنپتی اور پھیلتی جارہی ہے۔
زندگی بسر کرنے کا عمومی پاکستانی انداز شدید عجلت زدہ ہے۔ ایسا لگتا ہے‘ جیسے سبھی کو کہیں جانے کی جلدی ہے۔ ایک دن تو خیر سبھی کو جانا ہے‘ مگر اُس کے حوالے سے کوئی تیاری دکھائی نہیں دیتی۔ زندگی یوں بسر کی جارہی ہے‘ جیسے محض گزاری جارہی ہو۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ اس طور زندگی بسر کرنے کو زندگی کہا جاسکتا ہے یا نہیں!
سبھی کو دنیا کمانے کی فکر لاحق ہے‘ قدم قدم پر ع
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
والی ذہنیت کار فرما دکھائی دیتی ہے۔ جنون اگر ہے ‘تو صرف اس بات کا کہ دنیا کو گلے لگاکر یوں جیا جائے کہ ذہن میں آخرت کا شائبہ تک نہ ہو‘ یعنی صرف دنیا سے غرض ہے‘ آخرت سے بظاہر کوئی تعلق نہیں۔
آج کے پاکستان میں عمومی طرزِ فکر و عمل یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کی جائے۔ اس معاملے میں جائز و ناجائز کی بحث کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ سہولتوں کے ساتھ ساتھ ضروری نوعیت کی آسائشیں بھی میسر ہوں۔ ایسا تو اُسی وقت ہوسکتا ہے ‘جب زیادہ سے زیادہ کمایا جائے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ لوگ کمانے پر کم اور حصول پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ سرکاری مشینری میں تو کرپشن تھی ہی‘ اب عام آدمی بھی کرپشن کی دست برد سے محفوظ نہیں۔ اُس کے افکار و اعمال کو مختلف النوع کرپشن نے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ فی زمانہ کرپشن کو بُرا نہیں سمجھا جاتا تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ کرپشن عام ہے ‘یعنی کسی نہ کسی حد تک سب میں پائی جاتی ہے۔ جب سوچے سمجھے اور کچھ کیے بغیر بہت کچھ پانے کی ذہنیت پروان چڑھ جائے‘ تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ جب دنیا کو آخرت پر فوقیت دے دی جائے اور روئے زمین پر گزاری جانے والی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھ لیا جائے تو انسان زیادہ سے زیادہ آسائشات اور تعیشات کا حصول یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ انسان کی زندگی میں جتنی بھی سہولتیں اور آسائشات دکھائی دیتی ہیں وہ زر کی بدولت ممکن بنائی جاتی ہیں‘ اس لیے خاصی زر پسند ذہنیت اُسی وقت پنپتی ہے جب انسان حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی بحث سے کنارہ کش ہوکر اپنی جیب بھرنے کی راہ پر گامزن ہو۔
جب دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ لیا جائے تو انسان چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اشیاء و خدمات کا حصول ہی نہیں بلکہ صَرف بھی یقینی اور ممکن بنائے۔ کئی عشروں کے دوران صَرف کا رجحان اس قدر پروان چڑھا ہے کہ آج عام پاکستانی اس بات پر یقین کا حامل دکھائی دیتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اشیاء و خدمات سے فائدہ نہ اٹھایا تو کچھ نہ کیا۔ اب معاملات حواس اور اخلاقی اوصاف کی منزل سے بہت آگے جاچکے ہیں۔ صَرف کا رجحان غیر معمولی ہو تو زر کی گردش بہت تیز ہو جاتی ہے۔ ایسے میں انسان کے پاس زر جس رفتار سے آتا ہے اُس سے زیادہ رفتار سے جاتا ہے۔ آج عام پاکستانی چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اشیائے صَرف استعمال کرے۔ اس معاملے میں یہ رجحان خطرناک حد تک پنپ چکا ہے۔ جب زر بہت تیزی سے گردش کرتا ہے تو مہنگائی بھی بڑھتی جاتی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اشیائے صَرف کی طلب بڑھ جاتی ہے‘ اگر رسد طلب کو پورا کرنے میں کامیاب ہو تو قیمتیں قابو میں رکھنا ممکن ہوتا ہے۔ صَرف کا رجحان ‘اگر تیزی سے پنپ رہا ہو‘ تو معیشت عموماً فروغ پاتی ہے‘ مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ تاجروں نے صَرف کے رجحان کو نعمت سمجھتے ہوئے اشیائے صَرف کا معیار بلند کرنے پر ہمیشہ قیمتیں بڑھاتے رہنے کو ترجیح دی ہے۔
خریداری کے حوالے سے بیشتر پاکستانی انتہائی نوعیت کی بے ذہنی برتنے کے قائل اور عادی ہیں۔ لوگ عمومی اور خصوصی ہر دو طرح کی خریداری کے معاملے ایسی لاپروائی برتتے ہیں کہ دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ حیرت زیادہ ہونی چاہیے یا تاسّف۔ کسی بھی چیز کو افادیت سے زیادہ چمک دمک کی بنیاد پر خریدنے کی قومی خصلت پختہ تر ہوتی جارہی ہے۔ ماہانہ بنیاد پر کی جانے والی خریداری میں ایسی بہت سی اشیاء آجاتی ہیں‘ جنہیں دیکھ کر خود صاحبِ خانہ یا خاتونِ خانہ کی بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیوں خریدی گئیں! جب سے جدید طرز کے مارٹ اور ڈیپارٹمینٹل سٹور متعارف کرائے گئے ہیں‘ لوگ کم و بیش 10 تا 12 فیصد ایسی اشیاء اٹھا لاتے ہیں‘ جن کے خریدنے کی اُن کے دل میں حقیقی خواہش ہوتی ہے‘ نہ ضرورت۔ بہت سی اشیاء ٹرالی میں محض اس لیے ڈال لی جاتی ہیں کہ وہ شیلف میں اچھی لگ رہی ہوتی ہیں!
سوال محض یہ نہیں کہ صَرف کا رجحان قابو میں رکھا جائے اور خریداری سوچ سمجھ کر کی جائے۔ اگر ہم غیر متوازن مزاج اور ٹیڑھی نفسی ساخت کے حامل ہوں تو بیشتر معاملات میں توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہمیں بہت سی ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا بظاہر کوئی جواز نہیں ہوتا۔ کسی بھی فرد‘ معاشرے یا ریاست کے لیے حالات کبھی سازگار نہیں ہوتے۔ حالات کو مہارت اور محنت سے اپنے حق میں کرنا پڑتا ہے۔ آج کے پاکستان کو بہت سے بحرانوں کا سامنا ہے۔ بیشتر بحران ایسے ہیں جو اگر براہِ راست ہماری حماقت یا ''حُسنِ تغافل‘‘ کا نتیجہ نہ ہوں تب بھی ہمارے مزاج ہی کے ہاتھوں پروان چڑھتے ہیں۔ ہم زندگی بھر کماتے اور خرچ کرتے ہیں۔ یہ عمل زندگی کا حصہ ہے۔ جو عمل زندگی سے ناگزیر طور پر جُڑا ہوا ہو وہ ہمارے معمولات اور سوچ پر غیر معمولی حد تک اثر انداز ہوتا ہے۔ بہت سے معاملات میں ہماری سوچ کے غیر متوازن ہونے کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ ہم معاشی معاملات میں اور بالخصوص خریداری کے حوالے سے انتہائی لاپروا ہیں۔ ہم سوچے سمجھے بغیر ایسی بہت سی اشیاء خرید لیتے ہیں جو ہمارے کام کی نہیں ہوتیں یا ہم اُن سے کام لینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ کھانے پینے کی بہت سی ایسی اشیاء ہماری زندگی کا حصہ ہیں‘ جو محض خرابیاں پیدا کرتی ہیں۔ ہم اپنی صحت کو لاحق خطرات کے حوالے سے بھی سنجیدہ ہونا گوارا نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ تقریباً تمام ہی معاملات میں ہماری سوچ لاپروائی اور بیزاری سے ''آراستہ‘‘ ہوتی جاتی ہے۔ عصری تقاضا ہے کہ ہم مستحکم سوچ اپنائیں‘ موجِ نَفَس میں نہ بہہ جائیں۔ حبابؔ ترمذی نے خوب کہا ہے ؎
حبابؔ! ایسی بھی کیا بے اعتمادی
ڈبو دے گی ہمیں موجِ نَفَس کیا؟