"MIK" (space) message & send to 7575

… دل بھی جل گیا ہوگا!

محاورے تو کئی ہیں اور فِٹ بھی بیٹھ رہے ہیں‘ مگر ہم محاوروں کے پھیر میں پڑنا نہیں چاہتے۔ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے جو کچھ کہا ہے‘ اُسے بیان کرنے کے لیے بہترین محاورہ یہ ہے کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ بھارتی قیادت انتخابی موسم کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے پاکستان پر الزام تراشی کے ذریعے عوام کی توجہ نان اِشوز کی طرف موڑ رہی ہے۔ یہ بات نئی ہے‘ نہ حیرت انگیز۔ نئی دہلی کے پالیسی میکرز اور سیاست دان ایک زمانے سے یہی تو کرتے آئے ہیں۔ 
ہندوستان ٹائمز لیڈر شپ سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کیپٹن امریندر سنگھ نے کہا کہ پاکستان نے بھارت کی نئی نسل کو برباد کرنے کی ٹھان لی ہے اور خاص طور پر سرحدی علاقوں کے نوجوانوں کو نشانے پر لے رکھا ہے۔ آپ غلط اندازہ نہ لگائیں۔ امریندر سنگھ کا اشارا فائرنگ اور گولا باری کی طرف نہیں۔ اُن کا دعویٰ یا الزام ہے کہ پاکستان بڑے پیمانے پر منشیات کی کھیپ بھارت اسمگل کر رہا ہے‘ تاکہ نئی نسل کو برباد کیا جاسکے اور یہ کہ اس حوالے سے بھارتی ریاست گجرات کی بندر گاہ مانڈوی اور (مقبوضہ) جموں و کشمیر کے اُڑی سیکٹر کو ''فوکس‘‘ کیا گیا ہے۔ امریندر سنگھ نے انکشاف کیا کہ اب تک سیکڑوں کلو ہیروئن پکڑی جاچکی ہے۔ 
بھارتی پنجاب کے بڑھک باز وزیر اعلیٰ کا یہ دعویٰ یا الزام سن کر ہمیں جاوید قریشی یاد آگئے‘ جنہوں نے کہا تھا ؎ 
ہم کو اپنی خبر نہیں یارو 
تم زمانے کی بات کرتے ہو!
حقیقت یہ ہے کہ ایک زمانے سے پاکستان اپنے مسائل حل کرنے پر متوجہ نہیں ہو پارہا۔ مسائل بڑھ ہی نہیں رہے‘ شدت بھی اختیار کر رہے ہیں۔ ایسے میں ہم بھلا دوسروں کو بگاڑنے کی فرصت کہاں سے لائیں؟ ع 
دل تو دل‘ وہ دماغ بھی نہ رہا
اور جناب‘ سچ تو یہ ہے کہ بھارت نے خود بھی سکون کا سانس نہیں لیا اور ہمیں سکون کا سانس نہیں لینے دیا۔ پاکستان کو گام گام پریشان بھی کیا گیا ہے اور تاثر بھی یہ دیا گیا ہے کہ پریشانی کا سامان کرنے والا صرف پاکستان ہے! شرارت رہی ایک طرف‘ ہم تو کبھی دل لگی کی پوزیشن میں بھی نہیں رہے‘جو کچھ بھارت نے چار پانچ عشروں کے دوران ہم سے کیا ہے‘ اُسے دیکھتے ہوئے میر تقی میرؔ کو یاد کیے بغیر چارہ نہیں۔ ع 
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے ''مختاری‘‘ کی 
امریندر سنگھ کا الزام بے بنیاد ہی نہیں‘ بھونڈا بھی ہے۔ بھونڈا یوں کہ بھارت کی نئی نسل میں خیر سے اب ایسی کون سی کسر رہ گئی ہے‘ جسے پورا کرنے کے لیے ہم جیسوں کو کچھ کرنا پڑے! جو کچھ بھارتی معاشرے میں عشروں سے ہو رہا ہے‘ نئی نسل اخلاقی پستی سے دوچار ہے‘ اقدار کو خیرباد کہتے ہوئے ایسی طرزِ زندگی اپنالی گئی ہے‘ جس میں معقولیت اور تہذیب کے سوا سب کچھ ہے‘ جو کچھ بھارتی معاشرے میں ہو رہا ہے‘ ثقافت جس پستی سے گلے مل رہی ہے‘ اخلاقی اصولوں کی جو درگت بنی ہوئی ہے‘ وہ سب کچھ دیکھتے ہوئے کسی بھی شخص یا یہ کہنا اچھے خاصے لطیفے سے کم نہیں کہ کوئی بھارتی معاشرے کو تباہی سے دوچار کرنے کی سازش پر عمل پیرا ہے! 
امریندر سنگھ نے شاید کبھی یہ نہیں سوچا کہ پاکستانی معاشرے کو برباد کرنے کے لیے بھارت نے کیسے کیسے ہتھکنڈے اپنائے ہیں۔ ایسی بات وہ بھلا کیوں سوچیں گے؟ اتنا تو وہ بھی جانتے ہی ہوں گے کہ پاکستان کو معاشی‘ معاشرتی اور ثقافتی اعتبار سے کمزور کرنے اور رکھنے کے لیے بھارت کی ریاستی مشینری ہمہ وقت متحرک رہی ہے۔ میڈیا کے محاذ پر اس حوالے سے غیر معمولی سرگرمی دیکھی جاسکتی ہے۔ ایک زمانے سے بھارتی چینلز پاکستان کی ساکھ کو یکسر مٹانے کے درپے ہیں۔ یہاں افتخار عارف کا سہارا لیتے ہوئے کہنا پڑے گا کہ ہم نے بھارت کی مخاصمت پسندی اور ہٹھ دھرمی کے باعث ع 
وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے 
ایک زمانے سے بھارت کی ریاستی مشینری ٹھیک ٹھاک منصوبہ بندی کے تحت پاکستانی معاشرے کی بنیادیں ہلانے میں مصروف ہے۔ میڈیا پر زہریلے پروپیگنڈے کے ذریعے ثابت کیا جارہا ہے کہ بھارت سے بڑا ''شانتی بَھکت‘‘ خطے میں نہیں پایا جاتا اور حقیقی معنوں میں کوئی عِفریت ہے تو پاکستان ہے! 
جھوٹوں کی ایک واضح پہچان یہ بھی تو ہے کہ وہ سب کو جھوٹا قرار دینے پر تُلے رہتے ہیں‘ تاکہ کسی کا دھیان اُن کی طرف نہ جائے۔ دوسری جنگِ عظیم میں یہ طریقہ ایڈولف ہٹلر کی کابینہ کے رکن گوئبلز نے اختیار کیا تھا۔ اُس کا قول ہے کہ جھوٹ اتنا بولو کہ وہ سچ جیسا دکھائی دینے لگے! ایک زمانے سے بھارت خود کو ''گوئبلز پرست‘‘ ثابت کرتا آرہا ہے۔ ہر معاملے میں بھارتی ریاستی مشینری اور سیاست دانوں نے شرمناک حد تک جھوٹ بولا ہے اور کبھی ذرا سی بھی شرم محسوس نہیں کی۔ 
پاکستان پر بھارت کی نئی نسل کو بگاڑنے کا کا الزام لطیفہ در لطیفہ کی ایک اچھی مثال ہے۔ ہم تو خود پریشان ہیں کہ بھارت کی مہربانیوں سے کس طور نمٹیں۔ اُس کی مہربانیاں ہیں ہی اِتنی کہ تانتا بندھا ہوا ہے۔ اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے ایک بار پھر جاوید قریشی کی طرف چلتے ہیں ؎ 
ساری دنیا کے رنج و غم دے کر 
مسکرانے کی بات کرتے ہو 
ایمان کی تو یہ ہے کہ بھارت نے ہم سے ہر سَودا نقد کیا ہے مگر پھر بھی نہ جانے کس بات پر اُدھار کھائے بیٹھا ہے۔ ظلم ڈھاتے ہوئے بھی مظلومیت کا راگ الاپنے کی عادت بھارتی قیادت کو ایسی راس آئی ہے کہ وہ اِسے ترک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ قدم قدم پر خرابیاں پیدا کرکے الزام مدمقابل کے سر تھوپنا بھارتی قیادت کا وتیرہ رہا ہے۔ گویا ع 
وہی قتل بھی کرے ہے‘ وہی لے ثواب اُلٹا 
عالمی حالات خواہ کچھ ہوں‘ خطے کے حالات بدلنے کا نام نہیں لیتے۔ اسی بات کو یوں کہہ لیجیے کہ بھارت حالات کی نوعیت تبدیل ہی نہیں ہونے دیتا۔ جب تک سوچنے کا انداز نہ بدلے‘ کوئی حقیقی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ بھارتی قیادت اپنی سوچ بدلنا ہی نہیں چاہتی۔ ریاستی مشینری اگر کبھی کچھ نیا سوچنا چاہتی ہے تو سیاست دان اُس پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں اور مجبور کرتے ہیں کہ ہر پرنالے کو وہیں گرنے دیا جائے ‘جہاں وہ اب تک گرتا آیا ہے۔ کوئی بھی حقیقی تبدیلی واقع نہیں ہونے دی جاتی۔ پاکستان کا معاملہ سپیشل کیس کا درجہ رکھتا ہے۔ جب بھی پاکستان کی بات آتی ہے‘ بھارتی پالیسی میکرز تمام ہتھیار تیز کرلیتے ہیں اور ہتھکنڈے بھی تیار رکھتے ہیں۔ 
نئی دہلی میں جس کسی کے ذہن میں بھی میرِ کارواں بننے کا سَودا سمایا ہے‘ اُس کی نگاہ بلند پائی گئی ہے نہ سخن دل نواز اور جاں بھی پُرسوز نہیں ملی۔ ایسے میں گاڑی کو چلتا رکھنے کا ایک یہی آپشن رہتا ہے کہ کوئی دشمن تخلیق کرکے قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاکر رکھا جائے۔ ایک مدت سے بھارتی پالیسی میکرز کا یہی ڈھنگ رہا ہے کہ پاکستان کو الجھاکر رکھا جائے‘ اس کے مفادات کو خاکستر میں تبدیل کیا جائے اور پھر راکھ کو بھی کرید کرید کر دیکھا جائے۔ ایسے میں ہمارے پاس غالبؔ کا شعر گنگنانے کا آپشن رہ جاتا ہے ؎ 
جلا ہے جسم جہاں‘ دل بھی جل گیا ہو گا 
کریدتے ہو جو اب راکھ‘ جستجو کیا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں