"MIK" (space) message & send to 7575

’’بِنداس‘‘

وقت ہو‘ زندگی سے حِظ پانے کے مواقع بھی ہوں اور آپ کو ایسا کرنے سے کوئی روکنے والا بھی نہ ہو۔ بس‘ اور جینے کو کیا چاہیے! ہماری نئی نسل کا یہی معاملہ ہے۔ نئی نسل تو ہر ملک‘ ہر معاشرے میں ہوتی ہے۔ ہماری نئی نسل کیا انوکھی ہے؟ یقیناً نہیں‘ مگر ایک اعتبار سے دیکھیے تو ہے بھی۔ بات کچھ یوں ہے کہ ہماری نئی نسل میں اعتماد غضب کا ہے۔ دنیا میں کم ہی اقوام ایسی ہوں گی‘ جن کی نئی نسل اعتماد سے اس قدر لب ریز ہو۔ 
ٹھیک‘ مگر سوال یہ ہے کہ اعتماد سے لب ریز نئی نسل سے ہم مستفید بھی ہو پارہے ہیں یا نہیں۔ معاملہ سب پر عیاں ہے کہ ہم اپنی نئی نسل سے کام لینے کی پوزیشن میں اب تک نہیں آسکے۔ اس حوالے سے غور کرنے‘ بلکہ متفکر ہونے کی ضرورت ہے۔ ہر دور میں ترقی صرف اُن اقوام کے حصے میں آئی ہے جنہوں نے اپنی نئی نسل کو اچھی طرح پروان بھی چڑھایا اور پھر کام پر بھی لگایا۔ جو اقوام اپنی رگوں میں پائے جانے والے نئے خون کو لاپروائی کی نذر کردیتی ہیں اُنہیں تاریخ بہت بُری طرح نظر انداز کرتی ہے۔ 
ڈھائی تین عشروں کے دوران جہاں پوری دنیا تبدیل ہوئی ہے وہیں ہمارا معاشرہ بھی تبدیل ہوا ہے۔ کوئی معترض ہوسکتا ہے کہ ہمارا معاشرہ تبدیل کہاں ہوا ہے‘ محض بگڑا ہے۔ بات یہ بھی غلط نہیں مگر خیر‘ بگڑنے کی صورت میں بھی تبدیلی تو واقع ہوتی ہی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے ہم پر شدید منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم نے کسی بھی بڑی تبدیلی کو موثر انداز سے قبول اور ہضم کرنے کی تیاری نہیں کی‘ جو معاشرے تبدیلیوں کو قبول کرنے کی خاطر خواہ تیاری نہیں کرتے وہ اُسی الجھن میں مبتلا ہوتے ہیں ‘جس میں آج ہم مبتلا ہیں۔ ہم بیشتر معاملات درست اندازہ لگانے سے قاصر ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ نئی نسل کے لیے کسی واضح سمت کا تعین کرنے میں ناکامی کا بھی یہی سب سے بڑا سبب ہے۔ 
صدیوں تک یہ ہوتا رہا کہ کسی بھی قوم کو اعلٰی معیار کی زندگی بسر کرنے کے لیے عمر کھپانا پڑتی تھی۔ عشروں کی محنت کے بعد وہ ایسا کچھ کر پاتی تھی جس کی بنیاد پر معیاری زندگی اُس کا استحقاق ٹھہرتی تھی۔ کسی اور کو اُس معیار تک آنے میں ایک زمانہ لگتا تھا۔ ایجادات اور آسائشوں کا معاملہ یہی تھا۔ زندگی کو آسان تر بنانے کے لیے جو کچھ کسی قوم کو ایک طویل مدت کی محنت کے نتیجے میں میسر ہو پاتا تھا وہ دوسری‘ پیچھے رہ جانے والی اقوام کو آسانی سے میسر نہ ہو پاتا تھا۔ اور یہ کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔ ملنا اُسی کو چاہیے ‘جس نے محنت کی ہو۔ 
1950ء کے عشرے تک دنیا اِسی ڈگر پر چلتی رہی۔ پھر جب ٹیکنالوجی میں پیش رفت کی رفتار تیز ہوئی تو بہت کچھ بدلتا چلا گیا۔ اور بدلنا کیوں کہیے‘ مِٹتا ہی گیا۔ ایک بڑی اور عجیب و غریب تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ کسی بھی قوم کو‘ استحقاق کے بغیر یا اُس سے کہیں بڑھ کر‘ بہت کچھ ملنے لگا۔ اور اب کیفیت یہ ہے کہ کسی بھی شعبے میں جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے جو کچھ تیار کرکے مارکیٹ میں لایا جاتا ہے وہ بیک وقت پوری دنیا میں دستیاب ہوتا ہے۔ اِسے آپ آسان الفاظ میں ''پیسہ پھینک‘ تماشا دیکھ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں! 
پاکستان کا شمار کسی بھی اعتبار سے ترقی پذیر ممالک میں نہیں کیا جاسکتا۔ ہم پس ماندہ ریاست ہیں اور اِس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرنے ہی پر بہتری کی راہ نکل سکتی ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ بدن پر نہیں لتہ‘ پان کھائیں البتہ۔ اپنی حیثیت سے کہیں بڑھ کر بہت کچھ پانے کی تمنّا ہے اور محنت کی عادت ہے نہ لگن۔ ایسے میں وہی کچھ ہوتا ہے جو ہو رہا ہے یعنی خرابیاں ہیں کہ بڑھنے پر تُلی رہتی ہیں اور اصلاح کی گنجائش ہے کہ کم ہوتی جاتی ہے۔ 
ویسے تو خیر پوری قوم ہی اپنی اصل حیثیت سے مطابقت نہ رکھنے والی زندگی بسر کر رہی ہے یعنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کی روایت سے رُو گردانی کی جارہی ہے مگر نئی نسل اِس معاملے میں بہت آگے نکل چکی ہے یا یوں کہیے کہ ہم نے اُسے آگے نکل جانے کی کُھلی چُھوٹ دی ہے۔ ڈھائی تین عشروں کے دوران پاکستان میں نئی نسل کچھ کی کچھ ہوگئی ہے۔ آج اِس کے پاس دل کو بہلانے کے تمام اسباب ہیں۔ اگر نہیں ہے تو بس روح کو فرحاں و شاداں رکھنے والی کوئی چیز نہیں۔ اقدار سے منہ موڑنے کے چلن کی جڑیں گہری ہوچکی ہیں۔ اِس روش پر گامزن رہنے کی صورت میں تسلیم شدہ روایات کا ذرّہ بھر خیال نہ رکھنے کی عادت بھی پختہ ہوچکی ہے۔ اس کے نتیجے میں روحانی سطح پر جو کھوکھلا پن زندگی کا حصہ بن جاتا ہے وہ اب ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ 
بڑوں نے اپنے حصے کا کام چھوڑ دیا تو نئی نسل بے لگام ہوگئی۔ معاملات پر جب نظر گہری ہونی چاہیے تھی تب بے تعلّق ہو رہنے کا آپشن اپنایا گیا۔ لاپروائی کو بنیادی چلن کی حیثیت سے حرزِ جاں بنایا گیا۔ اور اِس کے نتیجے میں اب پُلوں کے نیچے سے پانی اچھا خاصا گزر چکا ہے تو ہر طرف صرف پچھتاوا ہے‘ تاسّف ہے‘ بے حواسی ہے۔ اصلاحِ احوال کے بارے میں اب بھی نہیں سوچا جارہا۔ 
پاکستان کی نئی نسل جڑیں مضبوط کیے بغیر بلند عمارت کھڑی کرنا چاہتی ہے۔ پاؤں زمین پر بھی نہیں ٹِک پارہے اور آسمان کو چُھونے کی آرزو ہے۔ اور یہ آرزو بھی تنہا ہے۔ اِس کے جِلو میں لگن ہے نہ ولولہ۔ نئی نسل کو بالی وُڈ کی فلموں کی سے ایک لفظ ملا ہے جو زندگی پر محیط ہوکر رہ گیا ہے۔ کسی کے آگے جوابدہ نہ ہونے کا تصور بیان کرنے والا یہ لفظ ''بِنداس‘‘ ہے۔ جو کسی کی پروا نہ کرے وہ بِنداس‘ جسے کسی بھی معاملے میں ذمہ داری کا احساس نہ ستائے وہ بِنداس۔ جو طے کرلے کہ کسی سے کسی بھی حال میں نہیں ڈرنا وہ بِنداس۔ جس کے لیے یہ دنیا ہی سب کچھ ہے ‘وہ بِنداس۔ جس اپنے سِوا کسی کے مفاد کے بارے میں نہیں سوچنا وہ ہے ‘بِنداس۔ 
نئی نسل قوم کے مستقبل کی معمار ہوا کرتی ہے۔ ہم نے شدید‘ بلکہ مجرمانہ نوعیت کی لاپروائی کے ذریعے اپنی نئی نسل کو کچھ کر گزرنے کی صلاحیت‘ سکت اور لگن تینوں سے محروم کردیا ہے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ ہم رکاب رہنے کے لیے ہماری نئی نسل کے پاس جو کچھ ہونا چاہیے تھا اُسے یقینی بنانے کے حوالے سے ہم شدید غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اعتماد سے لب ریز ہونے پر بھی ہمارے نوجوان ملک و قوم کے لیے وہ سب کچھ نہیں کر پارہے جو کیا جانا چاہیے۔ وہ اب تک سمت سے محروم ہیں۔ بامعنی اور بامقصد زندگی کی طرف جانے کی تحریک دینے والے معاملات معاشرے میں خال خال ہیں۔ ہاں‘ نئی نسل کو گمراہ کرکے ناکارہ بنانے والے عوامل کی کمی نہیں۔ 
ہمارے نوجوانوں کی عمومی طرزِ فکر و عمل یہ ہے کہ زندگی ہنسنے گانے کے لیے ہے۔ اور یہ کہ اگر سوچنا لازم ہی ٹھہرا ہے تو صرف اپنے لیے سوچا جائے۔ معاشرہ تو رہا ایک طرف‘ نئی نسل سوچنے کے معاملے میں اہلِ خانہ کو بھی خاطر میں لانے سے گریز کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ ''بِنداس‘‘ طرزِ زندگی قومی وجود کو بند گلی میں دھکیل رہی ہے۔ صلاحیت‘ سکت اور لگن کو واضح (مثبت) ہدف اور راہ نہ ملے تو اپنے آپ کو نِگلنا شروع کردیتی ہے۔ ہماری نئی نسل کا المیہ یہی ہے کہ اِس کا اپنا اعتماد اور ولولہ پورس کے ہاتھی کی طرح اسی کو روند رہا ہے۔ اس حوالے سے بہت کچھ سوچنے اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں