"MIK" (space) message & send to 7575

خود روزگاری کی دنیا

ہر عہد اپنے کچھ نہ کچھ تقاضے ساتھ لاتا ہے۔ اور چند ایک تقاضے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیدا ہوتے جاتے ہیں۔ اِن تقاضوں سے صرفِ نظر تو ممکن ہے مگر ایسا کرنے کے انتہائی منفی اثرات سے بچنا ممکن نہیں۔ چند عشروں کے دوران ہمارے ہاں بہت سے معاملات میں عمومی رویہ انتہائی منفی ‘اور ظاہر ہے‘ نقصان دہ رہا ہے۔ سیاسی اور معاشی رجحانات نے مل کر معاشرتی رویوں کو بگاڑا۔ اور اب معاشرتی رجحانات مل کر سیاست اور معیشت پر بُری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اب کوئی بھی شعبہ محفوظ ہے نہ دوسروں کو متاثر کرنے سے مجتنب۔ تمام چیزیں آپس میں گڈمڈ ہیں‘ الجھ رہی ہیں۔ اب کسی بھی شعبے کے اثرات کا دائرہ پھیلنے سے روکا نہیں جاسکتا۔ ہم اِس وقت ایسے ماحول کا حصہ ہیں جس میں سیاست‘ معیشت اور معاشرت ایک دوسرے میں بُری طرح پیوست ہیں۔ تینوں شعبے ایک دوسرے پر غیر معمولی شدت سے اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اور اس عمل کے نتائج بھی ہم بھگت رہے ہیں۔ شدید انتشار کی کیفیت ہے۔ کچھ بھی اپنی جگہ دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ سب کچھ المناک ضرور ہے‘ حیرت انگیز ہرگز نہیں۔ 
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں 
ایک ڈیڑھ عشرے کے دوران ہمارے ہاں ایسے معاشی رویے پروان چڑھے ہیں جو زمینی حقائق سے زیادہ مطابقت نہیں رکھتے۔ قوم نے متعدد معاملات میں اعتدال اور توازن کا دامن نہ تھامنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ اِسی کے نتیجے میں ایک طرف تو غیر معمولی صرف کا رجحان پروان چڑھا ہے اور دوسری طرف معاش کے ذرائع گڑبڑا گئے ہیں۔ آمدن اور اخراجات کے درمیان عدم توازن اور عدم مطابقت کا یہ عالم ہے کہ زندگی ہی کا دھڑن تختہ ہوگیا ہے۔ لوگ سوچے سمجھے بغیر خرچ کرکے بجٹ بڑھالیتے ہیں اور اُس بجٹ کے مطابق معاشی سکت میں اضافہ کرنے کے بارے میں نہیں سوچتے۔ زمینی حقیقت کا انکار اور کیا ہوتا ہے؟ چند عشروں کے معاشرتی و معاشی تفاعل نے صورتحال کو انتہائی گنجلک بنادیا ہے۔ بہت سے معاملات میں انتہائی درجے کا تصنّع ہماری زندگی کا حصہ ہے اور ہم اِس تصنّع کو اپنی زندگی سے الگ کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ آمدن اور اخراجات کے درمیان پائے جانے والے فرق کو ختم کرنے کی فکر بھی کم ہی لوگوں کو لاحق ہوتی ہے۔ اِن چند افراد کو چھوڑ کر باقی معاشرہ اپنی سکت سے کہیں بڑھ کر خرچ کرنے کے درپے رہتا ہے۔ معیارِ زندگی بلند کرنے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی دُھن میں لوگ بالکل سامنے کی یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ اِس کے لیے معاشی سکت بھی بڑھانا پڑتی ہے۔بلند معیارِ زندگی کے لیے جو کچھ بھی درکار ہوتا ہے وہ آمدن میں اضافے کا بھی تو طالب ہوتا ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کے بارے میں تو سوچتے ہیں‘ آمدن میں اضافے کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہوتے۔ 
آج ملک بھر میں روزگار کا معاملہ سنگین شکل اختیار کرچکا ہے۔ نوکری کا ملنا دردِ سر ہوگیا ہے۔ اور اگر مل جائے تو اُسے نبھانا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ نوکری کے خواہش مند زیادہ ہیں اور نوکریاں بہت ہی کم۔ ایسے میں ہر نوکری پیشہ کو اصولوں پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے‘ جو مل جائے اُسے' مجبوری کا نام شکریہ‘ کے مصداق قبول کرنا ہی پڑتا ہے۔ ایسے میں کیونکر سوچا جاسکتا ہے کہ عمومی سطح پر کوئی نوکری کے ذریعے اپنا اور متعلقین کا بھلا کرسکے گا یا ایسی بھرپور نوکری حاصل کرسکے گا جو سارے دُلدّر دور کردے؟ ظاہر ہے کہ ایسا سوچنا دیوانے کے خواب کا سا معاملہ ہے۔ 
کراچی سمیت تمام بڑے شہروں میں جسم و جاں کا سلسلہ برقرار رکھنے کا معاملہ انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کرچکا ہے۔ عام سی نوکری میں جو کچھ ملتا ہے وہ ضرورت سے بہت کم ہوتا ہے۔ شہر مہنگے ہوتے جارہے ہیں۔ مکانات اور اپارٹمنٹس کے بڑھتے ہوئے کرائے اور یومیہ سفر کے اخراجات قیامت ڈھانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف اشیائے خور و نوش کے بڑھتے ہوئے نرخ بھی جان پر عذاب بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں نوکری پیشہ افراد زیادہ رُلتے ہیں۔ اُن کی حالت چکّی کے دو پاٹوں کے بیچ پِسنے والے اناج کی سی ہے۔ 
بڑے شہروں کی بدلتی ہوئی معاشی صورتحال کا تقاضا ہے کہ دل پر جبر کرتے ہوئے ملازمت یا نوکری پر تکیہ نہ کیا جائے‘ بلکہ کسی نہ کسی مقبول ہُنر میں مہارت حاصل کرکے اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کیا جائے یعنی خود روزگاری کا طریقہ اپنایا جائے۔ ایسی حالت میں انسان اپنی مرضی کے مطابق کام کرتا ہے اور معاوضہ بھی مرضی ہی کے مطابق پاتا ہے۔ کسی ہنر سے بہرہ مند نہ ہونے کی صورت میں عام سی نوکری کرنے والا بہت سے معاملات میں جبر سہتا ہے۔ ایک مصیبت تو یہ ہے کہ روزانہ کام کے مقام پر جانا پڑتا ہے‘ جو عموماً گھر سے اچھے خاصے فاصلے پر ہوتا ہے۔ روزانہ بسوں میں دھکے کھاتے ہوئے کام پر جانا اور واپس گھر آنا مستقل دردِ سر سے کم نہیں۔ معاملہ محض اخراجات اور وقت کے ضیاع کا نہیں‘ اس یومیہ معمول سے غیر معمولی تھکن بھی واقع ہوتی ہے۔ یہ معمول ہماری استعدادِ کار کو شدید نقصان پہنچاکر دم لیتا ہے۔ بڑے شہروں میں گھر اور کام کے مقام کے درمیان فاصلے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں یومیہ سفر کے ہاتھوں جسم و جاں کو پہنچانے والے نقصان کا گراف بھی بلند ہوتا جارہا ہے۔ 
بڑے شہروں میں زندگی کا بدلتا ہوا چہرہ اس امر کا متقاضی ہے کہ انسان محض معاشرتی نہیں بلکہ معاشی طور پر بھی تبدیل ہو۔ ہر حال میں نوکری کرنے یا تلاش کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ کوئی مستند ہنر سیکھ کر اپنا کام شروع کیا جائے۔ سیلف ایمپلائمنٹ کا طریقہ دنیا بھر میں رائج اور مقبول ہے۔ اس میں انسان زیادہ کماتا ہے‘ یومیہ سفر کے اخراجات اور تھکن دونوں سے نجات ملتی ہے اور وقت بھی ضائع نہیں ہوتا۔ ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ کام کے حوالے سے یومیہ سفر کا تصور ہی انسان کے اعصاب کو ڈھیلا کردیتا ہے۔ کراچی‘ لاہور‘ ملتان‘ راولپنڈی اور دیگر بڑے شہروں میں لوگ کام کے لیے ہر روز طویل فاصلہ طے کرتے ہیں۔ سفر اور پھر اُس کے نتیجے میں طاری ہونے والی تھکن اتارنے پر روزانہ ساڑھے تین چار گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ اس پریشانی سے نجات پانے کا بہترین نسخہ یہ ہے کہ کوئی مستند‘ مقبول اور منفعت بخش ہنر سیکھ کر اپنا کام کیا جائے۔ اِس صورت میں کام کرنے کی آزادی بھی حاصل رہتی ہے‘ زیادہ کام کرنے کی صورت میں زیادہ آمدن بھی یقینی ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان دن بھر گھر کے بہت نزدیک رہتے ہوئے کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یومیہ سفر کا جھنجھٹ ختم ہونے سے انسان غیر ضروری تھکن سے بچتا ہے اور یوں اپنے کام پر زیادہ توجہ دینے کے قابل ہو پاتا ہے۔ 
کمانا ہر انسان کے لیے لازم ہے۔ اس کے لیے سرکاری اور نجی شعبے کی نوکری پر تکیہ کرنا لازم نہیں۔ کوئی بھی ہنر سیکھ کر بھرپور لگن کے ساتھ چھوٹے پیمانے پر کیا جانے والا کام بھی عمومی سی نوکری سے بہت بہتر ہے۔ لوگ دس بارہ ہزار روپے کی نوکری کے لیے دن بھر پریشانی سے دوچار رہتے ہیں اور کم و بیش بارہ تیرہ گھنٹے داؤ پر لگاتے ہیں۔ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں عام سا مگر کام کا ہنر سیکھ کر آٹھ دس گھنٹے کی محنت سے ہزار روپے کمانا کوئی مسئلہ نہیں۔ اس حوالے سے نئی نسل کی ذہن سازی البتہ لازم ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں