پاکستان کا شمار اُن ریاستوں میں ہوتا ہے‘ جنہیں آج کی معروف ترین اصطلاح میں ''متاثرین‘‘ کہا جاتا ہے۔ کون سا بحران ہے‘ جس سے یہ ملک متاثر نہیں؟ کونی سی پریشانی ہے ‘جو لاحق نہیں اور کون سا اختلاج ہے جس میں یہ مبتلا نہیں؟ خیر سے‘ موٹاپا بھی اُن بحرانوں میں سے ہے جن سے یہ ملک نبرد آزما رہا ہے۔ اعداد و شمار کی روشنی میں لگایا جانے والا تازہ ترین اندازہ یہ ہے کہ موٹاپے کے لحاظ سے پاکستان نویں نمبر پر ہے۔
ایک زمانے سے ماہرین کائنات کی جن انتہائی پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے میں لگے ہوئے ہیں اُن میں موٹاپا بھی شامل ہے۔ یہ صحت کی سرگم کا آٹھواں سُر ہے‘ جو صحت سے متعلق امور کا ہر ماہر لگانا چاہتا ہے‘ مگر اس کوشش میں اُس کا گلا بیٹھ جاتا ہے!
موٹاپا وہ موضوع ہے‘ جس پر کی جانے والی تحقیق ‘مزید تحقیق کی راہ ہموار کرتی رہی ہے۔ گویا بقول شاعر ع
مرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا کی
موٹاپے پر کی جانے والی تحقیق اور کراچی کا حال ایک سا ہے ... دونوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پھیلتے ہی جارہے ہیں۔ صحت اور معاشرتی امور کے ماہرین کو جب کچھ اور نہیں سُوجھتا تو موٹاپے کو رگڑا دینے لگتے ہیں۔
اُردو شاعری میں روایتی محبوب کے ہاتھوں ہونے والی بدنامی کا ذکر ہے اور روایتی محبوب سے وابستہ ہونے پر بھی بہت سی چیزیں بدنامی کا نشانہ بنی ہیں۔ موٹاپے کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ رہا ہے۔ مکھن‘ چربی‘ تیل‘ شکر اور دوسری بہت سی اشیائے خور و نوش موٹاپے میں اضافے کا سبب بننے کے باعث کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں! لطیفہ یہ ہے کہ جو لوگ اِن تمام اشیاء کے شوقین ہیں وہ کھاتے پیتے بھی ہیں اور شرمسار سے بھی دکھائی دیتے ہیں جس سے ''گناہِ بے لذّت‘‘ کی سی کیفیت پیدا ہو رہتی ہے۔ شکر‘ مکھن‘ کریم اور اِسی قبیل کی دوسری بہت سی اشیاء کا معاملہ یہ ہے کہ جان دے کر بھی نام نہیں کر پاتیں‘ یعنی مرغی جان سے جاتی ہے اور کھانے والے کو مزا نہیں آتا۔
موٹاپا آج کی دنیا میں انتہائی مشکوک سمجھا جاتا ہے۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے گویا یہ کوئی وباء ہو۔ موٹاپے کو وباء سمجھنا کسی حد تک گوارا ہوسکتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ لوگ موٹاپے میں مبتلا افراد کو بھی وباؤں کی فہرست میں رکھتے ہیں! جس کا وزن بڑھ جائے اُس سے لوگ یوں کتراتے ہیں گویا کوئی چلتا پھرتا بم ہے‘ جو کسی بھی وقت پھٹ جائے گا! یہ امتیازی سلوک موٹاپے میں مبتلا افراد کے لیے شدید ذہنی پیچیدگی کا باعث بنتا ہے۔ ایسے میں احساسِ کمتری کا پیدا ہونا بھی لازم ہے اور کسی حد تک احساسِ جرم بھی پایا جاتا ہے کیونکہ لوگ موٹاپے کو کم و بیش جرم کے کھاتے میں رکھنے کے عادی ہوچلے ہیں! نفسی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ انسان شدید ذہن الجھن کے عالم میں زیادہ کھاتا ہے۔ جب موٹے افراد کو طعنے دیئے جائیں گے اور شک کی نظر سے دیکھا جائے گا تو اُن کے ذہنوں کا الجھنا بھی لازم ہے اور یوں وہ کھانے پینے کی مقدار بڑھانے پر مجبور ہوتے ہیں!
ہم نے اپنی خالص ذاتی نوعیت کی تحقیق سے یہ اندازہ لگایا ہے کہ جو لوگ موٹاپے کو بہت برا سمجھتے ہیں وہ موٹاپے سے دور رہ کر ایسا کچھ نہیں کر پاتے‘ جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ متوازن جسم کے ساتھ اُنہوں نے کوئی بڑا تیر مارا ہے۔
کہتے ہیں موٹاپا اختلاج قلب‘ شوگر یعنی ذیابیطس‘ ہائی بلڈ پریشر‘ فالج اور دوسرے سے امراض کو اپنی طرف کھینچنے والا مقناطیس ہے۔ اور اس مقناطیس کا تاثر‘ یعنی مقناطیسیت کو زائل کرنے والا کوئی جادوئی فارمولا اب تک مارکیٹ میں نہیں آیا۔ ماہرین کا استدلال ہے کہ موٹاپے سے نجات کے لیے متعلقہ دواؤں کے استعمال سے کہیں زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ لائف اسٹائل تبدیل کیا جائے۔ یہ بھی خوب رہی۔ ایک ذرا سے موٹاپے سے نجات کے لیے انسان جینے کا ڈھنگ ہی بدل ڈالے! باپ کے ڈر سے سگریٹ چھوڑنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی اور موٹاپے کے خوف سے زندگی بسر کرنے کا انداز بدل لیا جائے! گویا موٹاپا باپ سے بھی بڑھ کر ہوا! اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جینے کا ڈھنگ بدلنے سے موٹاپا چلا ہی جائے گا۔ اگر نہ گیا تو؟ ایسے میں انسان ''نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ...‘‘ کی منزل میں اٹک سکتا ہے۔
موٹاپے سے متعلق تحقیق کا بازار گرم کرنے والے ٹامک ٹوئیاں مارنے کے ماہر ہیں۔ ہم نے تو محسوس کیا ہے کہ موٹاپے سے نجات کی راہ تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی انتہائی تاریک کمرے میں ایسی کالی بلی تلاش کرے ‘جو وہاں ہے ہی نہیں!
پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ میں جتنی دیر میں کپڑے بدلتا ہوں اُس سے پہلے پاکستان میں وزیر اعظم بدل جاتا ہے! اس پر ہمارے ہاں کسی نے طنز کیا تھا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پنڈت جی کتنے دن میں کپڑے بدلتے ہیں! خیر‘ یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ماہرین بھی موٹاپے سے نجات کے حوالے سے فارمولے اِتنی تیزی سے بدلتے ہیں کبھی کبھی تو (اُن کے) سَر پیٹنے کو جی چاہتا ہے! ہر محقق اپنی تحقیق کو ''مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ قرار دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ موٹاپے پر اگر قابو پایا جاسکتا ہے‘ تو صرف اُس کی تحقیق کی روشنی میں اور اُس کے فارمولے کے مطابق۔
موٹاپے پر قابو پانے کے حوالے سے تازہ ترین تحقیق میں برطانوی ماہرین نے کھانے پینے کے مناسب ترین اوقات کی نشاندہی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ اپنا وزن کم کرنا چاہتے ہیں وہ ناشتہ صبح 7 بج کر 11 منٹ پر کریں۔ دن کا کھانا 12 بج کر 38 منٹ پر اور رات کا کھانا شام 6 بج کر 14 منٹ پر کھایا کریں۔
ابھی ہم کھانے پینے کے اوقات پر سَر دُھن ہی رہے تھے کہ یہ پڑھنے کو ملا کہ فن لینڈ کے ایک تازہ سروے میں 84 فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ وزن گھٹانے کے حوالے سے دن بھر میں بہترین خوراک صبح کا ناشتہ ہے۔ اسی سروے میں لوگوں نے یہ رائے بھی دی کہ دن بھر میں پانچ بار (تھوڑا تھوڑا) کھانے سے وزن گھٹانے میں غیر معمولی مدد ملتی ہے اور ناشتہ بالکل نہ کرنے سے وزن کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتا ہے۔
کینیڈا بھلا کیوں پیچھے رہتا؟ وہاں سے خبر آئی ہے کہ خواتین وزن کم کرنے کے لیے دہی سے غیر معمولی مدد لے سکتی ہیں۔ براہِ کرم یہ بھی بتادیا جائے خواتین کا جھکاؤ دہی کی طرف ہو تو مردوں کا جھکاؤ کس چیز کی طرف ہو!
امریکا کی پنسلوانیا یونیورسٹی بہت دور کی کوڑی لائی ہے۔ اس جامعہ کے محققین کہتے ہیں کہ روزانہ 42 بادام کھانے سے وزن کم کرنے میں نمایاں مدد ملتی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ جادوئی فارمولا ہے‘ کیونکہ فی زمانہ جو عام آدمی روزانہ 42 کھائے گا اُس کی جیب خالی ہوجائے گی یعنی کھانے پینے کی دیگر اشیاء خریدنے کی پوزیشن میں نہ رہے گا اور یوں بھوکا رہنے سے وزن خود بخود کم ہوتا جائے گا!
کسی بڑے شاپنگ مال میں داخل ہونے پر ایک ہی چیز کی ورائٹی دیکھ کر دماغ چکرا جاتا ہے۔ اُسی طرح موٹاپے سے نجات پانے کیلئے سجھائے جانے والے طریقے اتنے ہیں کہ انسان انتخاب کے مرحلے میں اُلجھنے کے بعد وزن گھٹانے کا خیال ذہن سے جھٹکنے پر مجبور ہو جاتا ہے!