ہم زندگی بھر مختلف‘ یا یوں کہیے کہ تقریباً تمام ہی معاملات میں ایک دوسرے کے ضرورت مند رہتے ہیں۔ کوئی بھی انسان تنہا زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں۔ کسی نہ کسی مرحلے پر اُسے دوسروں سے مدد درکار ہوتی ہے۔ اشتراکِ عمل کو ایک ابدی حقیقت کی حیثیت سے تسلیم کرنے والے خوش رہتے ہیں۔ وہ کسی سے مدد لیتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے اور دوسروں کی مدد کرنے میں انہیں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں ہوتی۔ ہمارے حصے میں بہت سے اچھے اور بہت سے بُرے لوگ آتے ہیں۔ اچھے لوگوں کی طرح بُرے لوگ بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ تمام اچھے لوگ ہر اعتبار سے اچھے نہیں ہوتے اور اِسی طور تمام بُرے لوگ ہر معاملے میں بُرے ہوں یہ کچھ لازم نہیں۔ بہت سے لوگ اگرچہ بُرے ہوتے ہیں مگر اُن میں کہیں کوئی ایک آدھ ایسی خوبی ہوتی ہے جو انہیں دوسروں کے لیے ایک خاص حد تک قابلِ قبول بناتی ہے۔
ہم زندگی بھر اِس امر کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ ہمارے معاملات کسی بھی بُرے انسان کے ہتھے نہ چڑھیں۔ بُرے سے مراد ہر وہ شخص ہے جو کسی نہ کسی اعتبار سے منفی ہو اور دوسروں کو بھی منفی بنانے کی کوشش میں مصروف رہتا ہو۔ جن کی سوچ منفی ہوتی ہے اُن کے اعمال بھی منفی ہوتے ہیں۔ منفی اعمال منفی نتائج ہی پیدا کرتے ہیں۔ یوں زندگی کا پورا ڈھانچا منفی ہو رہتا ہے۔ ہم چونکہ معاشرے میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں اس لیے لازم ٹھہرتا ہے کہ لوگوں سے ہمارا رابطہ رہے۔ یہ رابطہ مختلف سطحوں پر ہوتا ہے اور ہر سطح کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے۔ کچھ لوگ ہماری زندگی میں یومیہ بنیاد پر آتے ہیں مگر اُن کا ہماری زندگی سے کچھ خاص تعلق نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے کوئی رشتہ تو نہیں ہوتا مگر وہ ہماری زندگی کا حصہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ اِن دونوں طرح کے لوگوں کے معاملے میں ہمیں غیر معمولی حد تک محتاط رہنا پڑتا ہے۔ آج بازار میں ایسی ہزاروں کتابیں دستیاب ہیں جن میں منفی سوچ اور منفی سوچ رکھنے والوں سے بچنے پر زور دیا گیا ہے‘ طریقے تجویز کیے گئے ہیں۔ زمانے کی مجموعی روش منفی ہے۔ قدم قدم پر منفی اثرات پیدا کرنے والے عوامل کارفرما ہیں۔ جو لوگ اپنے آپ کو منفی سوچ سے بچانا چاہتے ہیں اُن کی مشکلات کی کوئی حد نہیں۔ اُنہیں قدم قدم پر الرٹ رہنا پڑتا ہے۔ الرٹ رہے بغیر وہ معیاری انداز سے زندگی بسر کرنے کی پوزیشن میں نہیں آسکتے۔
منفی سوچ رکھنے والوں سے بچنے کی تاکید کرنے والے نفسی امور کے ماہرین اِس نکتے پر زیادہ زور دیتے ہیں کہ انسان کو طے کرلینا چاہیے کہ اُسے کس مزاج کے لوگوں سے میل جول رکھنا ہے اور کس مزاج کے لوگوں کو ہر حال میں چھوڑ دینا ہے۔ کسی کو ہمیشہ کے لیے اپنانا یا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینا بہت بڑا فیصلہ ہوا کرتا ہے ‘مگر یہ فیصلہ کبھی نہ کبھی تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ برسوں کی ''مشق‘‘ کے ہاتھوں جب سوچ اِتنی پختہ ہوچکی ہو کہ بدلی نہ جاسکتی ہو تب انسان کو وقت اور توانائی کے ضیاع سے بچنا چاہیے۔ منفی سوچ رکھنے والوں کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک خاص سانچے میں ڈھال کر بند کرلیتے ہیں۔ ایسے میں وہ کسی کی بات اول تو سُنتے نہیں۔ سُن لیں تو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اور اگر سمجھ بھی لیں تو عمل سے بھاگتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ منفی سوچ رکھنے والوں سے کسی کو کچھ نہیں ملتا۔ وہ ایک خاص دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ عمومی سطح پر کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور وقت گزار لیا جائے یعنی زندگی بسر کرنے کے نام پر محض وقت گزارنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اگر آپ نے یہ طے کیا ہے کہ زندگی معیاری انداز سے بسر کرنی ہے تو لازم ہے کہ آپ ایسے تمام لوگوں سے دور رہیں جن کی سوچ منفی اور جامد ہو۔ جن کا ذہن کسی مقام پر رک گیا ہو وہ آپ کے لیے تو کیا‘ اپنے لیے بھی کسی کام کے نہیں ہوتے۔ منفی سوچ کے حامل ہر فرد سے دور رہنا اس لیے لازم ہے کہ وہ زندگی کو تاریکی سے تعبیر کرتا ہے جبکہ معیاری انداز سے جینے کے لیے لازم ہے کہ ہم زندگی کے روشن پہلوؤں پر نظر رکھیں۔ جینے کا وہی ڈھنگ کام کا ہے جس میں مثبت سوچ نمایاں ہو اور کسی بھی مرحلے میں قنوطیت نمایاں نہ ہو۔
جب تک ہم زندہ اور فعال ہیں تب تک لوگوں سے واسطہ پڑتا رہے گا۔ یہ ایسا مرحلہ ہے جس سے بچنا ممکن نہیں۔ ہماری زندگی میں آنے والے لوگ کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ کسی میں جوش و خروش زیادہ ہوتا ہے۔ کسی کے عزائم بلند ہوتے ہیں۔ کوئی سنجیدہ ہوتا ہے اور کوئی شوخ مزاج کا حامل ۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کی سوچ مجموعی طور پر مثبت ہوتی ہے۔ وہ خود بھی آسانی سے جیتے ہیں اور دوسروں کو بھی آسانی سے جینے کی تحریک دیتے ہیں۔ دوسری طرف بہت سوں کی سوچ مجموعی طور پر منفی ہوتی ہے اور وہ دوسروں کو بھی اپنے جیسا ہی بنانے کے درپے ہوتے ہیں۔ منفی سوچ رکھنے والوں سے ہر حال میں بچنا لازم ہے۔ اِن سے بچنے کے لیے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ ایک کارگر طریقہ یہ ہے کہ جس حد تک تفاعل ضروری ہے بس اُسی حد تک اُن سے واسطہ رکھا جائے۔ اگر معاملہ معاشی سرگرمی کا ہو اور اُنہیں دور رکھا نہ جاسکتا ہو تب بھی ناگزیر ہے کہ اُن سے عمومی سطح پر ایک خاص فاصلہ رکھا جائے۔ اُن سے اشتراکِ عمل کی حدود کا تعین آپ کریں گے تاکہ آپ کی زندگی میں اُن کا عمل دخل برائے نام رہے۔
ہم ناکارہ چیزیں گھر میں نہیں رکھتے۔ جب کوئی چیز مصرف کھو بیٹھے یعنی کسی کے لیے کسی کام کی نہ رہے تو اُس سے جان چھڑائی جاتی ہے۔ یہ عمل بالکل قرینِ دانش ہے۔ ذہن نشین رہے کہ منفی سوچ رکھنے والوں کے معاملے میں بھی آپ کو یہی کرنا ہے۔ کسی کی سوچ واضح طور پر منفی ہو اور آپ سے اس کا معاشی تعلق لازم ہو تب بھی معاشی سرگرمی کی حدود سے باہر آپ کو اُن سے محض برائے نام تعلق رکھنا ہے۔ کون آپ کی زندگی میں کس حد تک آسکتا ہے یہ کوئی اور نہیں‘ خود آپ طے کریں گے۔ منفی سوچ رکھنے والوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ذہنی اعتبار سے ساکت و جامد ہوتے ہیں یعنی کوئی کتنی ہی کوشش کرکے دیکھے‘ وہ اپنی سوچ ترک کے معاملے میں ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ اگر ایسے لوگ زندگی میں آ بھی جائیں تو ''آنے دو‘ جانے دو‘‘ کے اصول پر کاربند رہا جائے یعنی اُنہیں ایک طرف سے آنے دیا جائے اور ٹھہرنے کا موقع دیئے بغیر چلتا کردیا جائے۔ قصہ مختصر‘ منفی سوچ رکھنے والوں کو اپنے معاملات میں ٹھہرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اُن کا آنا‘ ضرورت اور گنجائش کی حد تک رکنا اور پھر چل دینا ہی بہتر ہے۔ اس معاملے میں وہی سوچ اپنائی جانی چاہیے جو کچرے کی گاڑی کے گزرنے پر اپنائی جاتی ہے۔ کوئی بھی کچرے کی گاڑی کو روکنے یا روکے رکھنے کا خواہش مند نہیں ہوتا۔ منفی سوچ رکھنے والوں کو بھی اِسی طور غیر ضروری طور پر روکا نہ جائے‘ تیزی سے گزرنے دیا جائے۔