دماغوں کا الجھ جانا کچھ آج کے عہد یا ہمارے معاشرے کی خاصیت یا خصوصیت نہیں۔ ہر گزرے ہوئے زمانے کی طرح آج بھی پوری دنیا الجھے ہوئے ذہنوں سے اَٹی پڑی ہے۔ قدم قدم پر دماغی الجھنوں کے ہاتھوں الجھے ہوئے معاملات دکھائی دیتے رہے ہیں اور دے رہے ہیں۔ بہت کوشش کرنے پر بھی کوئی ان پیچیدگیوں سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں انٹر نیشنل سائیکاٹرسٹس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ پاکستانی معاشرہ دماغی (ذہنی) الجھنوں سے اَٹا ہوا ہے۔ ذہنی طور پر الجھے ہوئے افراد کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ الجھی ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے ماہرین کو خاص طور پر تیاری کرنے اور تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب تو ٹھیک ہے مگر صدرِ مملکت نے اپنے خطاب میں ایک ایسی بات بھی کہی جو ''پالیسی‘‘ سے ہٹ کر تھی! جب ذہنی امراض کی بات چلی تو ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ قومی اسمبلی میں بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہیں ذہنی امراض کے حوالے سے علاج کی اشد ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے متعلقہ ماہرین پر زور دیا کہ وہ قومی اسمبلی پر خاص توجہ دیں!
دماغی یا ذہنی امراض کے حوالے سے صدرِ مملکت کی گواہی اِس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ وہ خود ڈاکٹر ہیں۔ دانتوں کے جملہ امراض کے ماہر کی حیثیت سے اُن کی پریکٹس خاصی طویل المیعاد ہے۔ دانتوں کے امراض کو شناخت اور دور کرنے کے حوالے سے مہارت ہی نے ڈاکٹر عارف علوی کو سیاسی حریفوں کے دانت کھٹّے کرنے کا ہنر بھی بخشا۔ اور حریفوں کے دانت کھٹّے کرتے کرتے وہ ایوانِ صدر تک پہنچ گئے ہیں۔ کوشش تو انہوں نے سرکاری پروٹوکول کے دانت کھٹّے کرنے کی بھی کی ہے ‘مگر اب تک زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ گویا اُن کے لیے یہ انگور اب تک کھٹّے‘ بلکہ بہت کھٹّے ہیں۔ خیر‘ یہ تو محض جملۂ معترضہ تھا۔ بات ہو رہی ہے ذہنی امراض کی۔ دماغوں کا یہ حال ہے کہ بات بات پر کھسک جاتے ہیں اور پھر فساد برپا ہوکر رہتا ہے۔ اب تو قدم قدم پر محسوس ہو رہا ہے کہ کسی کا دماغ یا تو چلتا ہی نہیں یا پھر چل جاتا ہے۔ کوئی بھی بات اگر سیاق و سباق سے ہٹ کر کی گئی ہو تو وضاحت طلب کرنا ذہنی سکون کی موت کو دعوت دینے کے مترادف ٹھہرتا ہے! عمومی چلن یہ ہوگیا ہے کہ جو کچھ بھی کہہ دیا گیا ہے اُسے حرفِ آخر سمجھ کر قبول کرلیا جائے یعنی وضاحت کا ڈول نہ ڈالا جائے۔ اب اگر آپ کی سمجھ میں کوئی نکتہ نہیں آرہا یا کسی معاملے کا کوئی پہلو الجھا ہوا ہے تو اُسے سمجھنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ کسی بات کو بیان کردینا ہی کافی سے زیادہ ہے۔ کوئی اتنا فارغ نہیں کہ آپ کو سمجھاتا پھرے!
دماغی امراض میں مبتلا افراد کے حوالے سے قومی اسمبلی کا ذکر کرکے صدرِ مملکت نے قوم کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔ ایک زمانے سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور خاص طور پر ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی میں ایسی ''ہستیوں‘‘ کو جھیلا جارہا ہے جو منتخب تو ہوتی ہیں قانون سازی کے لیے اور قانون کو سب سے زیادہ نظر انداز بھی وہی کرتی ہیں۔ عوام کی نمائندگی کے لیے پارلیمنٹ کے گلیاروں میں قدم رکھنے والی اِن ''عظیم المرتبت ہستیوں‘‘ کے ہاتھوں ہمیں کیا کیا جھیلنا اور سہنا پڑا ہے یہ کچھ ہم ہی جانتے ہیں۔ ملک کے کونے کونے سے منتخب ہوکر ایوانِ زیریں میں پہنچنے والے اپنے حصے کے کام سے کہیں بڑھ کر مخالفین کو نیچا دکھانے کے فراق میں رہتے ہیں۔ عوام اُنہیں اپنے مسائل حل کرنے کے لیے منتخب کرتے ہیں۔ یہ کام تو ہو نہیں پاتا۔ عوام کے مسائل برقرار رہتے ہیں اور منتخب ایوان میں سیاسی چپقلش کا بازار گرم رہتا ہے۔ قومی اسمبلی کا فلور اِس لیے ہوتا ہے کہ قوم کو درپیش تمام مسائل پر کھل کر بات کی جائے۔ کھل کر بات تو ہوتی ہے مگر قوم کے مسائل پر نہیں بلکہ ہر اُس موضوع پر جس کا ملک اور قوم کی عمومی بہبود سے بظاہر کچھ خاص تعلق نہ ہو۔ لایعنی باتوں پر زیرِ بحث لانے اور پھر اُن کا بھی بتنگڑ بنانے کا عمل جاری رہتا ہے۔ حکومتی نشستوں پر بیٹھے ہوئے ہر فرد کی ترجیح صرف یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور اپنی نشست برقرار رکھے اور حزبِ اختلاف کی نشستوں پر بیٹھے ہوئے تمام ارکان اس امر کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور معاملات کو بدل ڈالیں یعنی اقتدار کا حصول یقینی بنائیں۔
یہ ہے قوم کا اصل ذہنی مرض۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اِسی مرض کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مگر صاحب‘ ایک قومی اسمبلی پر کیا موقوف ہے‘ ہر شعبے کا یہ حال ہے کہ جس کے حصے کا جو کام ہے وہ اُس کے سوا سبھی کچھ کر رہا ہے۔ یہ بات تو اب طے ہے کہ ذہن کو بروئے کار نہیں لانا۔ پوری قوم میں اُن کی تعداد ایک ڈیڑھ فیصد سے زائد نہ ہوگی جو بیشتر معاملات میں ذہن کے استعمال کو درست اور ضروری سمجھتے ہیں۔ صدر علوی نے ذہنی امراض کے ماہرین کی کانفرنس سے خطاب میں قومی اسمبلی کا ذکر تو بظاہر جملۂ معترضہ کے طور پر یا تفنّنِ طبع کی خاطر کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ذہنی الجھنوں کے حوالے سے اس وقت پوری قوم کو غیر معمولی سطح پر رہنمائی درکار ہے۔ ذہن اِس بُری طرح الجھ کر رہ گئے ہیں کہ اُن کے سُلجھانے کی راہ ہموار کیے بغیر ہم بہتر زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
بنیادی سوال Trickle down effect کا ہے۔ بہتری اور درستی بالائی سطح پر رونما ہوگی تو اُس کے مثبت اثرات نیچے تک آئیں گے۔ جو کچھ بڑوں کو ملتا ہے اُس کا کچھ نہ کچھ نیچے تک آتا ہے۔ دنیا بھر میں یہ تصور عام ہے کہ بالائی طبقے کو ملنے والی سہولتوں سے بالکل نچلی سطح پر جینے والے بھی کسی نہ کسی حد تک مستفید ہو رہتے ہیں۔ صدر علوی نے جو کچھ کہا ہے اُسے اگر سنجیدگی سے لیا جائے اور منتخب ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ذہنی مریضوں کے علاج پر توجہ دی جائے تو اُن کے ذماغ یا ذہن کی درستی سے ملک میں پست ترین سطح پر جینے والوں کا بھی کچھ نہ کچھ بھلا ضرور ہوگا۔
مرزا تنقید بیگ نے جب صدر علوی کا خطاب پڑھا تو ہماری خبر لینے آ دھمکے۔ اُن کے خیال میں صدر علوی نے جانب داری یا صرفِ نظر کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نے وضاحت طلب کی تو بولے ''ذہنی مریضوں کے تذکرے کو اُنہوں نے قومی اسمبلی تک کیوں محدود رکھا؟ میڈیا کا بھی ذکر کرنا چاہیے تھا‘‘۔ہم نے حیران ہوکر مزید وضاحت چاہی تو مرزا نے تُنک کر جواب دیا ''اب اِتنے بھولے نہ بنو۔ جیسے تمہیں کچھ خبر ہی نہیں۔ میڈیا کی دنیا کا ایک ذہنی مریض تو تم روز آئینے میں دیکھتے ہو! اور بہت سے دوسروں کا جو حال ہے وہ تم سے پوشیدہ نہیں‘‘۔ مرزا کی نشاندہی نے ہمارے قلب و جگر میں سنسنی سی دوڑادی۔ ہم نے اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ صدر علوی نے قومی اسمبلی تک پہنچ کر بریک لگالیے‘ میڈیا آؤٹ لیٹس تک نہیں پہنچے۔ اس کالم کی سرگم کو ہم شکرانے کے نوٹ پر ختم کرتے ہوئے آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں!