کارپوریٹ کلچر کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ میٹنگز پر میٹنگز ہوتی ہیں؛ اگر کبھی یہ سوال اٹھایا جائے کہ آخر اتنی بہت سی میٹنگز کی کیا ضرورت ہے‘ تو اس نکتے پر بھی میٹنگ کا اہتمام کیا جاتا ہے! یہی حال حکومتوں کا بھی ہے۔ حکومتی سیٹ اپ میں میٹنگز کے ساتھ ساتھ کمیٹیوں کا بھی ٹنٹا پایا جاتا ہے۔ ان دو خصوصیات کے ساتھ ساتھ ہر حکومت کے لیے ایک بڑا کام وضاحت کا بھی ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی حکومت کے وقت کا ایک بڑا حصہ محض وضاحت میں کھپ جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت بھی اسی گڑھے میں جا گری ہے۔ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنا پڑتے ہیں۔ یہی معاملہ وضاحت کا ہے۔ جب کسی معاملے میں وضاحت پوری نہیں پڑتی تب مزید وضاحت کرنا پڑتی ہے۔ وزیر اعظم آج کل اسی مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ معروف اینکرز سے طویل دورانیے کے انٹرویو میں وزیر اعظم نے جو کچھ کہا ‘وہ کم و بیش تمام کا تمام وضاحت کے کھاتے میں تھا۔
حکومت بہت کچھ کرنا چاہتی ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ ہر حکومت بہت کچھ کرنا چاہتی ہے‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت بہت کچھ بہت تیزی سے کرنا چاہتی ہے۔ ایک معاملہ تو ہوتا ہے‘ چلنے چلانے کا اور ایک ہوتا ہے‘ اصلاحِ احوال کا۔ ملک جہاں کھڑا ہے‘ وہاں سب سے بڑا مسئلہ صرف یہ ہے کہ معاملات کو کیسے چلایا جائے۔ اس وقت ہمیں فوری طور پر گزارے کی سطح درکار ہے اور وہ بھی کسی بڑی مہم جُوئی کے بغیر۔ ایسے میں لازم ہے کہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھایا جائے۔
حکومت کی اب تک کی کارکردگی کے بارے میں جو کچھ کہا جارہا ہے‘ وہ اب ہنگامے میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ بات یہ ہے کہ جب حکومت نے کام شروع کیا تھا تب بینڈ باجے کے ساتھ 100 روزہ پروگرام جاری کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی۔ لوگ نتائج چاہتے ہیں۔ اُنہیں اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں کہ کام 100 روزہ پروگرام کے تحت کیا جاتا ہے یا 200 روزہ پروگرام کے تحت۔ عام آدمی اپنے مسائل کو حل ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے اور مسائل بھی کیا ہیں؟ صاف پانی مل جائے‘ دو وقت کی روٹی کا بہتر انداز سے اہتمام کردیا جائے اور تعلیم و صحت کے بارے میں زیادہ نہ سوچنا پڑے۔ یہی تو غریبوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں اور یہ بھی پوری نہیں ہو پارہیں۔
عمران خان نے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ روپے کی قدر میں کمی کا علم اُنہیں میڈیا کے ذریعے ہوا۔ جب اس حوالے سے تیکھے سوالات کیے گئے ‘تو انہوں نے توضیحاً کہا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان خود مختار ادارہ ہے اور اپنے فیصلے خود کرتا ہے۔ ٹھیک ہے‘ سٹیٹ بینک کو خود مختار ادارے کی حیثیت ہی سے کام کرنا چاہیے‘ مگر سوال یہ ہے کہ حکومتی سطح پر مشاورت کی کیفیت کیا ہے۔ سٹیٹ بینک کو روپے کی قدر میں کمی جیسے انتہائی حساس معاملے میں حکومت سے مشاورت کرنی چاہیے یا نہیں‘ یہ معاملہ بھی طے کیا جانا چاہیے۔ سٹیٹ بینک کا اس نوعیت کا کوئی بھی اقدام حکومت کی پالیسیوں پر خطرناک حد تک اثر انداز ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کا پوری قوم کے سامنے یہ کہنا کہ سٹیٹ بینک کے اقدام کا علم میڈیا پر خبریں چلنے سے ہوا بہت عجیب ہے۔ اس نوعیت کے بیانات سے قوم کا اعتماد مجروح ہوتا ہے اور حکومت کی ساکھ بھی کمزور پڑتی ہے۔
اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس تاثر کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھانے اور اجاگر کرنے کی ہے کہ تمام ریاستی ادارے ایک پیج پر ہیں‘ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اگر کہیں‘ کسی سطح پر تھوڑا بہت اختلاف ہے بھی تو فکر کی بات نہیں۔ تھوڑا بہت اختلاف تو ہر سطح پر ہوتا ہی ہے ‘مگر یہ اختلاف باہر نہیں آنا چاہیے۔ اس بات کی گنجائش نہ چھوڑی جائے کہ کوئی بات بے بات حکومت پر بلا جواز تنقید کرے۔
اب تک ہمارے ہاں یہ ہوتا آیا ہے کہ حکومتیں قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاتی ہیں اور خود مزے کرتی رہتی ہیں۔ یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔ پی ٹی آئی کی حکومت سے قوم نے غیر معمولی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ اور توقعات وابستہ کرنا کچھ غلط بھی نہیں۔ پی ٹی آئی نے تبدیلی کا نعرہ لگاکر اقتدار کے ایوان تک رسائی پائی ہے۔ قوم بجا طور پر کسی بڑی تبدیلی کی راہ دیکھ رہی ہے۔
ابتدائی مرحلے میں مالیاتی بحران سے دوچار ہونا عمران خان کے لیے یقینابڑا امتحان ہے۔ اس امتحان میں انہیں کامیاب ہونا ہی پڑے گا۔ دوست ممالک اور آئی ایم ایف سے بات چیت کے ذریعے معاملات درست بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سعودی عرب ادھار تیل دینے پر بھی آمادہ ہے۔ چین بھی پسپائی اختیار کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے میں آئی ایم ایف سے کسی بھی معاملے میں دبنے کی کچھ زیادہ ضرورت نہیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو سرمایا کاری کی تحریک دے کر ملک کی مالیاتی مشکلات بہت حد تک دور کی جاسکتی ہیں۔ یہ سب کچھ غیر معمولی احتیاط اور واضح منصوبہ بندی کا متقاضی ہے۔
یہ حقیقت کسی بھی طور نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ پی ٹی آئی کو حکومت ایسے وقت ملی ہے جب عالمی اور علاقائی سطح پر تبدیلیاں تیز ہوچکی ہیں۔ یہ تیزی بہت سے معاملات کو خواہ مخواہ الجھا بھی رہی ہے۔ سی پیک کا معاملہ ہی لیجیے۔ کل تک سب کچھ سست رفتار تھا‘ اب قیامت خیز تیزی واقع ہوچکی ہے۔ یہ تیزی حکومت کے لیے دردِ سر ہے۔ جنہیں کسی بھی حکومت کو اُس کے ابتدائی دنوں ہی میں اچھی طرح ''پرکھنے‘‘ کا شوق ہے اُنہیں اپنی روش تبدیل کرتے ہوئے کچھ انتظار کرنا چاہیے۔ حکومت کو سنبھلنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ ہمیں یہ نکتہ بھی کسی حال میں فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بعض قوتیں دانستہ ایسے حالات پیدا کر رہی ہیں کہ پاکستان کے لیے ڈھنگ سے چلنا دشوار تر ہو جائے۔ اس حوالے سے ملک میں مکمل یکجہتی‘ ہم آہنگی اور یگانگت درکار ہے۔
وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان کو قدم قدم پر وضاحت کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ تنقید ضرور کی جائے‘ مگر پہلے حکومت کو کام کرنے کا موقع تو دیا جائے۔ حکومت اس وقت ع
ابھی آئے‘ ابھی بیٹھے‘ ابھی دامن سنبھالا ہے
کی منزل میں ہے۔ کرنے کو بہت کچھ ہے۔ سوال ارادے کے ساتھ ساتھ سکت کا بھی ہے۔ پی ٹی آئی کو وفاق کی سطح پر حکمرانی کا تجربہ نہیں۔ یہ تو ہوا صلاحیت کا معاملہ۔ لگن اور سکت اس کے بعد کے معاملات ہیں۔ ملک جس کیفیت سے دوچار ہے اُس کا تقاضا ہے کہ حکمرانی کے تمام اُمور ڈھنگ سے نمٹائے جائیں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ معاملات کو خراب کرنے کی مذموم کوششوں سے گریز کیا جائے۔
یہ بات وزیر اعظم کے ذہن پر نقش رہنی چاہیے کہ قوم نے بہت سی امیدوں کے ساتھ انہیں اقتدار کے ایوان تک پہنچایا ہے۔ چھوٹے موٹے معاملات سے بلند ہوکر بڑے کاموں کے لیے تیار ہونا اُن کی اصل آزمائش ہے۔ اگر وہ اس آزمائش میں پورے اترے تو کچھ کر جائیں گے۔ کرپشن کے خلاف سخت اقدامات بھی لازم ہیں ‘مگر ساری توجہ صرف اِس ایک کام پر مرکوز نہ کی جائے۔ گزشتہ حکومتوں نے جو کچھ کیا اُس کے ازالے کی راہ نکالنا درست سہی‘ مگر زیادہ توجہ اُن کاموں پر مرکوز رہنی چاہیے ‘جن کے لیے حکومت نے پی ٹی آئی کو مینڈیٹ دیا ہے۔