کراچی کا موسم بھی محبوبہ کے مزاج کی طرح واقع ہوا ہے۔ پل میں تولہ‘ پل میں ماشہ۔ شہر قائد کی فضاء میں بہت کچھ اچانک ظاہر ہوتا اور پھر اچانک ہی غائب ہو جاتا ہے۔ کبھی بادل یوں چھاتے ہیں کہ پورے شہر کو ڈبوکر دم لیں گے اور پھر اچانک یوں غائب ہوجاتے ہیں کہ عبید اللہ علیمؔ بے ساختہ یاد آ جاتے ہیں‘ جنہوں نے کہا تھا ؎
محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا
نہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے
کراچی کے موسم کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ مانگے تانگے کا ہے۔ گرمی کی لہر اٹھتی ہے تو سرحد سے جڑی بھارتی ریاستوں گجرات اور راجستھان کی گرمی کا اثر قبول کرکے۔ بادل آتے ہیں تو بالائی علاقوں میں بارش کے بعد۔ سردی کی لہر آتی ہے تو کوئٹہ کی ہوائیں چلنے سے۔ گویا کراچی کا موسم نہ ہوا قومی معیشت ہوگئی ‘جو کچھ اِدھر سے اور کچھ اُدھر سے لیے ہوئے پیکیجز کی بنیاد پر چلائی جارہی ہے!
خیر‘ اللہ کا کرم ہے کہ اہلِ کراچی ایک بار پھر سردی کی لہر سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ موسم کیسا ہی کیوں نہ ہو‘ اُس سے محظوظ ہی ہونا چاہیے کہ ہر موسم میں اللہ کی حکمت شامل ہے۔ شدید گرمی پڑتی ہے‘ تو کئی فصلیں پکتی ہیں اور بہت سی وبائیں دم توڑتی ہیں۔ بارشیں موسلا دھار ہوں‘ تو زمین اچھی طرح سیراب ہوتی ہے اور زندگی کا سامان ہوتا ہے۔ سخت سردی بھی بہت سی وباؤں کا توڑ ہے۔ یہ تو انسان کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ شدید سردی کو وبا سمجھ کر قبول کرتا ہے اور اللہ کے فضل و کرم پر شکر گزار ہونے کے بجائے شِکوہ ہی کرتا پایا جاتا ہے۔
ایک سردی تو وہ ہے‘ جو اس وقت موسم کے ہاتھوں پورے ملک کو قدرت کی طرف سے عطا ہوئی ہے اور سردی کی ایک لہر وہ ہے‘ جو قومی معاملات کی فضاء میں آئی ہوئی ہے۔ سیاست‘ سفارت‘ معیشت اور معاشرت ... سبھی کچھ یخ بستگی کی نذر ہوچلا ہے۔ اہلِ سیاست کے جذبے تو جیسے ماند ہی پڑگئے ہیں۔ کل تک قیامت خیز شور مچایا جارہا تھا‘ اب ایک آواز بھی سُنائی نہیں دے رہی۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ سوچ سوچ کر اہلِ وطن پریشان ہوئے جاتے ہیں‘ دلوں میں ہَول سے اٹھ رہے ہیں۔ ہر اہم معاملہ ٹھٹھر کر کسی کونے میں دُبکا ہوا سا ہے۔ سرد مہری ہے کہ تمام معاملات کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ قومی سطح پر یعنی اجتماعی زندگی کا سانس جیسے رک سا گیا ہے‘ نبض جیسے تھم سی گئی ہے۔
حکومت کے 100 دن پورے ہوچکے ہیں۔ مخالفین کہہ رہے ہیں کہ محض 100 دن پورے نہیں ہوئے بلکہ‘ ہمارے منہ میں خاک‘ حکومت کے دن ہی پورے ہوچکے ہیں! عمران خان کو بھی اندازہ ہے کہ بہت سے ہیں جو اس فراق میں ہیں کہ اُن کیلئے: ع
آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے گئے
والی کیفیت پیدا کردیں۔ عمران خان اور ان کے رفقائے کار یقینا کچھ نہ کچھ تو سوچ کر اُس پر عمل کی تیاری کیے بیٹھے ہوں گے‘ جن تبدیلیوں کو یقینی بنانے کے دعوے وہ کرتے رہے ہیں‘ اب اُن دعووں پر عمل کا وقت ہے۔ ایک بڑی تبدیلی بہرحال یہ آئی ہے کہ حکومتی صفوں میں تبدیلیوں کی باتیں ہونے لگی ہیں! ایک لہر سی چل پڑی ہے۔ عمران خان پر اس حوالے سے بھی تنقید کی جارہی ہے کہ اُنہوں نے ٹیم تیار کرتے وقت دانش کا مظاہرہ نہیں کیا اور معامل یوں بھی ہے کہ اُن کی ٹیم میں کئی شخصیات ایسی ہیں‘ جنہیں باضابطہ شخصیت قرار دینا دل گردے کا کام ہے! فواد چودھری کے حوالے سے تنقید کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات انتہائی غیر ضروری حد تک بے باک ہیں‘ کچھ بھی بول جاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ کبھی کبھی حکومتی پالیسی کا بھی خیال نہیں رکھتے اور حال ہی میں شیخ رشید اور فواد چودھری کے درمیان جو تھوڑی سی گرما گرمی نما کیفیت دکھائی دی اُس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومتی ٹیم کے حوالے سے ''سب اچھا ہے‘‘ کا راگ الاپا نہیں جاسکتا۔
وزیر اعظم کو بھی اندازہ ہے کہ اُن کی ٹیم میں مکمل ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ اُنہوں نے چند ایک تبدیلیوں کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ فیصلوں کے معاملے میں یخ بستہ سوچ کے حامل نہیں۔ بہر حال‘ اعظم سواتی کا معاملہ ہو یا کسی اور کی کوئی بات‘ عمران خان کو کسی حد تک خِفّت کا سامنا رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی حکومت کے بالکل ابتدائی مرحلے میں ایسی اکھاڑ پچھاڑ اور دھماچوکڑی کسی اچھے شگون کا درجہ نہیں رکھتی۔
قوم کا اندازہ تھا کہ اس بار سردی وقت سے بہت پہلے آئے گی۔ ایک تو جون جولائی کی گرمی اور پھر اُس پر انتخابی مہم کی گرما گرمی! خیر‘ جیسے تیسے جولائی کی گرمی میں انتخابات ہوئے اور تب سے سردی کی لہر شروع ہوئی۔ قومی معاملات کے حوالے سے‘ جو ٹھنڈک سال کے وسط میں واقع ہوئی تھی‘ وہ برقرار ہے۔ بہت کچھ ہے جو اب تک ٹھنڈا ٹھار ہی چل رہا ہے۔ قوم کی سوچ بدلنے کے نام پر جو کچھ کیا جارہا ہے‘ وہ بھی کچھ ایسا نہیں ہے کہ بہر طور قبول کرلیا جائے۔ منتخب حکومت اور ریاستی اداروں کے درمیان معاملات کی نوعیت کیا ہے ‘اس کا اندازہ روپے کی قدر گھٹانے کے حالیہ فیصلے سے لگایا جاسکتا ہے۔ پہلے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ روپے کی قدر گھٹانے کا فیصلہ کرتے وقت سٹیٹ بینک آف پاکستان نے حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا۔ یہ بات قوم کے لیے انتہائی حیرت انگیز تھی۔ ایک عام آدمی تو بھروسے ہی کی بنیاد پر زندہ رہتا ہے۔ وہ تو یہی سمجھتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔
معاملہ یہاں تک رہتا تو کوئی بات نہ تھی۔ ٹھیک ہے‘ وزیر خزانہ نے اندر کی بات کہہ دی تھی ‘مگر کچھ دن بعد وزیر اعظم نے ایک مغربی میڈیا آؤٹ لیٹ کو انٹرویو میں یہی بات کہی۔ اُنہوں نے اعتراف کیا کہ اتنا بڑا فیصلہ کرتے وقت اُنہیں اعتماد میں لینا تو دور کی بات رہی‘ مطلع کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ روپے کی قدر میں کمی کرنے کے فیصلے کی اطلاع اُنہیں میڈیا کے ذریعے ملی! جہاں معاملات یہ چل رہے ہوں‘ اعلیٰ ترین سطح پر سرد مہری کی یہ کیفیت ہو وہاں قومی مفاد کو اولیت دینے والے فیصلے یقینی بنانے سے متعلق باتوں پر کون یقین کرے گا؟
سوال وزیر اعظم کی نیت میں پائی جانے والی گرم جوشی کا نہیں‘ معاملات ‘یعنی زمینی حقیقتوں کے اندر پائی جانے والی‘ بلکہ اُن کی جڑوں میں بیٹھی ہوئی یخ بستگی کا ہے۔ یہ سرد مہری دور کرنے پر بھرپور توجہ دی جانی چاہیے۔ وزیر اعظم کو سب سے پہلے تو اہم ترین معاملات میں یوں بے خبر رکھے جانے کی روش کا کچھ نہ کچھ تدارک کرنا چاہیے۔
سردی جب اپنی حد کو چھوتی ہے‘ انتہا سے گزرتی ہے‘ تب خزاں کا موسم شروع ہوتا ہے۔ یہ فطرت کا دائرہ ہے‘ جس میں سبھی کچھ اپنے اپنے مقام پر ہے۔ خزاں کی بھی اپنی دل کشی ہے۔ یہ دل کشی تب دکھائی دیتی ہے جب دیکھنے والی آنکھ ہو اور دیکھے بھی۔ اس کے بعد بہار کا موسم آتا ہے۔ ہمیں من حیث القوم امید رکھنی چاہیے کہ قوم پر طاری سردی کی لہر جلد ختم ہوکر خزاں کو راہ دے گی اور خزاں کے گزرنے پر وہ بہار آئے گی‘ جو سب کے لیے ہوگی اور جس کا مدت سے انتظار ہے۔