"MIK" (space) message & send to 7575

یہ ’’کاندھا‘‘ کب جاگے گا؟

امریکا اور چین کے درمیان برف پگھلنے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ کشیدگی کا گراف نیچے آرہا ہے۔ آنا ہی تھا۔ ایسا کب تک چل سکتا تھا؟ ایک نام نہاد سپر پاور ہے اور دوسری ابھرتی ہوئی ممکنہ سپر پاور۔ ایسے میں اختلافات کا ابھرنا کسی بھی اعتبار سے اچھا شگون نہیں۔ تجارت کے حوالے سے پیدا ہونے والے اختلافات نے امریکا اور چین کے تعلقات کو تھوڑا سا گہنا دیا تھا۔ امریکا چاہتا تھا کہ چین پر اپنی ''پوزیشن‘‘ کا دباؤ اتنا ڈالے کہ وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقدور بھر کوشش کرکے دیکھ لیا۔ دال نہ گلی تو اب یو ٹرن لے لیا ہے۔ ملک چھوٹا ہو یا بڑا‘ یو ٹرن لینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ بات اگر قومی مفاد کی ہو تو یو ٹرن لینے میں کچھ ہرج نہیں۔ امریکا دیکھنا چاہتا تھا کہ چین اُس کی بات کس حد تک مانتا ہے اور کس حد تک اُسے جھکایا جاسکتا ہے۔ چین نہ جھکا تو پانی اپنی پنسال میں آگیا! 
چینی قیادت کو اس وقت قدم قدم پر کسی نہ کسی چھوٹے بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ وہ ایک چیلنج سے نپٹنے میں کامیاب ہوتی ہے تو دوسرا کھڑا ہو جاتا ہے۔ چین نے دنیا بھر میں سرمایا کاری کر رکھی ہے۔ سرمایا کاری کے ذریعے کئی ممالک کے اندرونی معاملات میں وہ دخیل ہونے کی پوزیشن میں بھی آچکا ہے۔ یہ سب کچھ خلاء کو پُر کرنے کی کوشش ہے۔ یہ خلاء امریکا کا پیدا کردہ ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سات عشروں کے دوران امریکا دنیا کو چلاتا آیا ہے۔ اس معاملے میں وہ اُستاد کے درجے پر فائز رہا ہے اور یورپ نے اُس کے ''چھوٹے‘‘ کا کردار ادا کیا ہے! چھوٹا تو چھوٹا ہی ہوتا ہے‘ کھل کر کھیل نہیں سکتا اور ہر معاملے میں مداخلت بھی نہیںکرسکتا۔ مشکل یہ ہے کہ اُستاد کی پوزیشن کمزور پڑتے ہی اب ''چھوٹے‘‘ نے بھی منہ پھیر لیا ہے۔ اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ ع 
اِس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں 
یورپ نے راستہ بدلا ہے تو امریکا کے لیے خرابیوں کی ابتداء ہوئی ہے۔ یہ بھی ہونا ہی تھا‘ کیونکہ وہ بہت سے معاملات میں اپنی بندوق کے لیے یورپ کو کاندھے کے طور پر استعمال کرتا تھا۔ اب کاندھے کو ہوش آگیا ہے۔ وہ مزید بے وقوف بننے کو تیار نہیں۔ کاندھے نے امریکا یا کسی اور کا بوجھ نہ اٹھانے کا فیصلہ کرکے عالمی سیاست و معیشت کو نئے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ تین عشروں سے بھی زائد مدت سے چین نے‘ جس راستے پر سفر کیا ہے ‘اب یورپ بھی اُسی راستے پر سفر کرنا چاہتا ہے۔ چین کی پالیسی رہی ہے کہ کسی پر حملہ کرکے‘ کسی علاقے یا ملک پر قبضہ کرکے خرابیاں پیدا کرنے کی بجائے معیشت کو مضبوط کرنے پر توجہ دی جائے۔ سادہ اور معروف اصطلاح میں کہیے تو قصہ یوں ہے کہ یورپ نے بھی اب چین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے (ہارڈ پاور استعمال کرکے خرابیاں پیدا کرنے والی امریکی پالیسیوں کو نظر انداز کرکے) سوفٹ پاور کے ذریعے آگے بڑھنے کا سوچا ہے۔ چین اور یورپ علوم و فنون کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے کر‘ دنیا بھر میں سرمایا کاری کرکے ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں جس میں اُن کیلئے فتح یقینی ہو اور کسی کیلئے عبرت ناک شکست بھی نہ ہو۔ امریکا صرف جیتنا چاہتا ہے‘ جبکہ یورپ اور چین جیتنے کی صورت میں بھی کسی کو شکست و ذلت کے احساس سے دوچار کرنے سے احتراز کی راہ پر گامزن ہیں۔ 
عالمی سیاسی حرکیات تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں۔ امریکی قیادت اور پالیسی میکرز بھی اِس بات کو سمجھتے ہیں کہ اُن کیلئے سب کچھ اچھا نہیں رہا۔ اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے اواخر میں بہت کچھ ہے‘ جو اُن کی مرضی کا نہیں۔ اور یہ بدلی ہوئی دنیا اُنہیں قبول کرنی ہے۔ ہٹھ دھرمی سے کام لینا انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔ مشکل یہ ہے کہ واحد نام نہاد سپر پاور کو چلانے والے حالات کو اگر سمجھ بھی رہے ہیں ‘تو پوری قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ وہ بالکل سامنے کی بات کو سمجھنے کے باوجود ''ان سمجھا‘‘ کرنا چاہتے ہیں! یہ عجیب مخمصہ ہے جس میں اس وقت امریکی قیادت پھنسی ہوئی ہے۔ ایک طرف تو وہ ساری دنیا کو چلانے کی دعویدار ہے اور دوسری طرف افغانستان جیسے ذرا سے ملک میں طالبان کے ہاتھوں مزید ہزیمت سے بچنے کے لیے متحدہ عرب امارات میں اُن سے مذاکرات پر بھی مجبور ہے! 
چین تیزی سے ابھر رہا ہے۔ روس‘ ترکی اور پاکستان بھی اُس کے ساتھ ہیں۔ اس وقت امریکا کے لیے بڑا چیلنج مشرق وسطٰی اور بالخصوص اسلامی دنیا کو سنبھالنے کا ہے؛اگر عرب ممالک نے مسلم افریقا‘ ملائیشیا‘ انڈونیشیا‘ برونائی‘ بنگلہ دیش اور دیگر مسلم ممالک کے ساتھ مل کر چین کی طرف جھکنے کا فیصلہ کرلیا تو کیا ہوگا؟ یورپ نے اس ممکنہ حقیقت کا ادراک کرلیا ہے اور اب ہٹھ دھرمی کی روش ترک کے حقیقت پسندی کی راہ پر گامزن ہے۔ 
امریکا نے چین سے تجارتی جنگ کے معاملے میں اور افغانستان میں مزید ذلت سے بچنے کے لیے طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے جو یو ٹرن لیے ہیں ‘وہ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ قومی مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی خاطر اور مزید ذلت و رسوائی سے بچنے کے لیے یو ٹرن لینے میں کچھ ہرج نہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی اشارے دینے لگے ہیں کہ وہ امریکا کو ہر حال میں اولیت دینے کی روش ترک کرسکتے ہیں۔ سعودی عرب نے جمال خشوگی کے معاملے میں امریکا کے بدلے ہوئے تیور دیکھ کر بہت کچھ سیکھا ہے۔ اور اس بات کو امریکا بھی بھانپ چکا ہے۔ اِسی لیے اب سعودی عرب کی طاقتور ترین شخصیت ولی عہد محمد بن سلمان کو رِجھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 
ایسے میں سوال یہ ہے کہ ہم کیا کریں؟ یورپ پہلے ہی روش تبدیل کرچکا ہے۔ وہ چین کی طرح معیشتی استحکام کے ذریعے اور سوفٹ پاور کے ذریعے اپنے لیے عالمی سیاسی نظام میں جگہ بنانا چاہتا ہے۔ امریکا بھی چند ایک بنیادی معاملات میں واضح یو ٹرن لے کر سب پر ظاہر کرچکا ہے کسی کے لیے کبھی سب کچھ حتمی نہیں ہوتا۔ انسان ہو یا ریاست‘ بدلتے ہوئے معاملات کے ساتھ بدلنا لازم ہے۔ یہی بقاء کا نسخہ ہے۔ 
پاکستان کے لیے بھی بڑے یو ٹرن لینے کا وقت آچکا ہے۔ معیشت کو مضبوط کرنے کی خاطر حکومت نے ڈیڑھ دو ماہ کے دوران جو کچھ کیا ہے‘ وہ ہر اعتبار سے اطمینان بخش نہیں۔ چین‘ ترکی اور سعودی عرب کی طرف سے بھرپور تعاون کی یقین دہانی اور اس یقین دہانی پر عمل کے باوجود ہم نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے آگے سجدہ ریز ہونے سے گریز نہیں کیا۔ اب حکومتی سطح پر یہ بھی تسلیم کرلیا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے کہنے سے پہلے ہی بجلی اور گیس مہنگی کردی گئی! 
یہ بھرپور پژمردگی کب تک اور کیوں؟ دنیا بدل رہی ہے‘ ہم نہیں بدل رہے۔ یو ٹرن لینے میں کیا ہرج ہے؟ اب تو امریکا بھی یو ٹرن لینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کر رہا۔ عالمی سیاست و معیشت کا سارا گورکھ دھندا امریکا اور یورپ کے ہاتھوں سے نکلتا جارہا ہے۔ دنیا اُُن سے دور ہٹتی رہی ہے اور ہم اب تک اِسی خِرمن کی خوشہ چینی کر رہے ہیں۔ یورپ کو ہوش آچکا ہے۔ وہ امریکی بندوق کے لیے کاندھے کی حیثیت سے مزید خدمات انجام دینے کو تیار نہیں۔ ہم کب جاگیں گے اور مزید کاندھا بننے سے انکار کریں گے؟ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں