اسلام آباد کے عالی شان ایوانوں میں بیٹھے ہوئے اختیار یافتہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں اور کیا کرنے والے ہیں اِس سے عام آدمی کو کیا غرض؟ وہ تو اپنے مسائل کا حل چاہتا ہے۔ ٹی وی کے ٹاک شو میں بیٹھ کر ایک دوسرے کے خلاف بولتے وقت منہ سے جھاگ اڑانے والے کیا سوچتے ہیں‘ اس سے بھی عام آدمی کا کیا لینا دینا؟ وہ بے چارہ دو وقت کی روٹی کے انتظام و اہتمام کی مساعی سے بلند نہیں ہو پاتا۔ اس حقیقت کے تناظر میں کتنا ہی مثبت ہوکر سوچئے‘ زندگی جیسے کوئی منحوس چکر ہوکر رہ گئی ہے۔
وزیر اعظم نے فی گھرانہ پانچ مرغیاں تقسیم کرنے کا جس پروگرام کا اعلان کیا ہے‘ اُس کے حوالے سے اب تک صرف تضحیک و استہزاء کا بازار گرم ہے۔ عمران خان نے چاہا ہے کہ عام آدمی کی مشکلات میں تھوڑی بہت کمی ضرور واقع ہو۔ یہ کمی کس طور واقع ہوسکتی ہے ‘یہ سوچنا اُن کا کام ہے جنہیں عوام کی مشکلات دور کرنے کا مینڈیٹ ملا ہے۔ عوام نے جنہیں بخوشی یہ مینڈیٹ دیا ہے اُن کے کاندھوں پر اچھا خاصا بوجھ آ پڑا ہے۔ بوجھ کیوں نہ ہو؟ توقعات زیادہ ہیں اور صلاحیت و سکت کم‘ بلکہ بہت کم۔ مسائل ہیں کہ بڑھتے ہی جارہے ہیں اور عوام منتظر ہیں کہ اُن کے بنیادی مسائل حل کرنے کی کوششوں کا باضابطہ آغاز ہو۔
پاکستانی معاشی اعتبار سے ایک ایسے معاشرے میں تبدیل ہوچکا ہے‘ جس میں تضادات انتہائی سنگین شکل اختیار کرچکے ہیں۔ دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوکر رہ گئی ہے۔ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ متوسط طبقہ بھی اب معاملات پر گرفت سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ یہ طبقہ کسی زمانے میں اتنا مضبوط تھا کہ حکومت بدلنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آگیا تھا! اہلِ سیاست کے لیے متوسط طبقہ ہی کام کا ہے‘ جو کسی بھی صورتِ حال کا بوجھ برداشت کرسکتا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ متوسط طبقہ کمزور سے کمزور تر ہوتا جارہا ہے۔ اس طبقے کی منڈیر سے پھسلنے والے افلاس کے گڑھے میں گر رہے ہیں۔
عام آدمی کے بنیادی مسائل حل کرنے پر متوجہ ہونا کسی بھی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوا کرتا ہے۔ تحریکِ انصاف کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ حکومت محض مسائل حل کرنے کے لیے نہیں ‘بلکہ تبدیلی یقینی بنانے کے نام پر قائم ہوئی ہے۔ تحریکِ انصاف نے پوری انتخابی مہم ہی تبدیلی کے نعرے پر چلائی۔ یہ تبدیلی کس نوعیت کی ہوگی‘ اس کے بارے میں تو پورے یقین سے کچھ کہا نہیں جاسکتا ‘تاہم اتنا ضرور ہے کہ کسی حقیقی تبدیلی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت نے معیشت کی ساخت بدلنے کا جو عمل شروع کیا ہے‘ اُس کے نتیجے میں عوام کو ابتدائی مرحلے میں غیر معمولی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہت کچھ ہے جو ٹھکانے پر نہیں۔ جب تمام معاملات کو ٹھکانے پر لانے کی کوشش کی جائے گی‘ تب بہت سوں کو‘ قلیل مدت ہی کے لیے سہی‘ بہت کچھ قربان کرنا پڑے گا۔
آج کا پاکستان معیشت اور معاشرت دونوں ہی کے حوالے سے گوناگوں مسائل سے نبرد آزما ہے۔ کئی حکومتیں عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہر شعبے میں مافیا کا عروج ہے۔ کچھ لوگ صورتِ حال سے اس قدر فائدہ اٹھاتے ہیں کہ پھر معاملات کو درست کرنے کے درست اور قانونی طریق کو اپنانے میں غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ویسے تو خیر ملک کے ہر حصے میں مافیا راج قائم ہے‘ مگر کراچی میں اس حوالے سے زیادہ پریشان کن صورتِ حال ہے‘ جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ واٹر مافیا نے شہریوں کو بوند بوند کے لیے ترسادیا ہے۔ شہر میں بجلی کے بحران کو بظاہر جنریٹر اور یو پی ایس مافیا کی ایماء پر سنگین سے سنگین تر کیا گیا۔ یہی حال دوسرے بہت سے شعبوں اور معاملات کا ہے۔
پی ٹی آئی کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومت کو جن چند بڑے مسائل کا سامنا ہے‘ اُن میں مافیا راج کا خاتمہ بھی نمایاں ہے۔ مافیا راج نے عام آدمی کی مشکلات بڑھانے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ کراچی جیسے بڑے اور بہت حد تک بین الاقوامی نوعیت کے شہر میں پانی جیسی انتہائی بنیادی ضرورت کو عوام کی دسترس سے دور کرنے میں واٹر مافیا کا ہاتھ رہا ہے۔ بجلی کا بحران بھی متعلقہ مافیا کا پیدا کردہ ہے؛ اگر پانی‘ بجلی‘ گیس اور صحتِ عامہ جیسے بنیادی نوعیت کے شعبوں کی اصلاح ہو جائے ‘تو عام آدمی کا جینا آسان ہو جائے۔
ملک کے بڑے معاملات کے بارے میں اُنہیں سوچنا ہے‘ جن کے ہاتھ میں اقتدار و اختیار ہے۔ عام آدمی کو اپنے گھر کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اُس کے مسائل مختلف بھی ہیں اور حل کرنے کے طریق کے حوالے سے مشکل تر بھی۔ انفرادی معیشت کا تقاضا ہے کہ بنیادی سہولتوں کا حصول ہر حال میں یقینی بنایا جائے۔ اس منزل سے آسان گزرنے ہی پر زندگی کا معیار بلند کرنے کی تحریک مل پاتی ہے؛ اگر انسان پانی‘ بجلی‘ گیس وغیرہ ہی میں الجھ کر رہ جائے تو سمجھ لیجیے گئی بھینس پانی میں۔
آج کے پاکستان میں انفرادی معیشت کو متوازن کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اب تک کم و بیش ہر حکومت نے اس معاملے کو نظر انداز کیا ہے اور پھر اس کی سزا بھی بھگتی ہے۔ عوامی مسائل سے صرفِ نظر نے ملک کو ہمیشہ خرابیوں سے دوچار کیا ہے۔ قومی معیشت کا استحکام اپنی جگہ اہم سہی ‘مگر انفرادی معیشت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا‘ جس کے گھر کا چولھا ٹھنڈا ہوچکا ہو ‘اُس کے لیے پورے ملک کی بھرپور ترقی اور جگمگاہٹ بھی کسی کام کی نہیں ہوتی۔ عام آدمی صرف اتنا ہی تو چاہتا ہے کہ پانی‘ بجلی اور گیس جیسی بنیادی گھریلو ضرورتیں پوری ہوجائیں اور اس کے ساتھ ساتھ صحتِ عامہ اور تعلیم ِ عامہ سے متعلق سہولتیں بھی ‘اس حد تک فراہم کردی جائیں کہ آنسو پونچھ جائیں۔ یہی عام آدمی کی کل کائنات ہے۔ جسم و جاں کا رشتہ ڈھنگ سے برقرار رکھنے کی سبیل ہوجائے تو اور کیا چاہیے۔
عمران خان نے لائیو سٹاک کی معرفت ملک کے غرباء کو لائیو سٹاک بننے سے بچانے کا جو طریق سوچا ہے ‘وہ ہر اعتبار سے قابلِ ستائش ہے۔ ملک کو ایسے منصوبوں کی اشد ضرورت ہے‘ جن سے افلاس کی چکی میں پسنے والا ہر گھرانہ جسم و جاں کا رشتہ آسانی اور وقار کے ساتھ برقرار رکھنے میں کامیاب ہو۔ پاکستان کے ہر غریب گھرانے کو حکومت سے ایسے ہی اقدامات کی توقع ہے۔ لائیو سٹاک کے شعبے کو ؛اگر ملک بھر میں غیر معمولی وسعت دی جائے‘ تو مجموعی طور پر پوری معیشت کی بہتری ممکن بنانا توقع سے زیادہ آسان ثابت ہوگا۔ اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ حکمرانوں کی نیت میں اخلاص ہو۔ یہ اخلاص ہی ملک بھر کے غریبوں کے بھلے دن واپس لائے گا۔ ملک کے بھلے دن واپس لانے کا ایک اچھا طریق یہ بھی ہے کہ عوام کو ڈھنگ سے جینے کا موقع فراہم کیا جائے‘ اُن کے پنپنے کی گنجائش پیدا کی جائے!۔