کوئی بھی نیا خیال اگرچہ خوش نما ہوتا ہے مگر مطلوب حد تک ٹھوس عمل کے بغیر نئے خیال کی اپنی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ نئے خیالات بہت معمولی قیمت پر دستیاب ہیں۔ نیا سوچنے والے بہت ہوتے ہیں‘ مگر احترام اور رشک کی نظر سے انہیں دیکھا جاتا ہے‘ جو اپنے یا کسی اور کے نئے خیالات پر محنت کرکے اُنہیں حقیقت کی دنیا کا حصہ بناتے ہیں۔
دنیا میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے‘ وہ نئے خیالات ہی کی بدولت ممکن ہو پائی ہے۔ ہر نیا خیال ایک نئی دنیا کی طرح ہوتا ہے۔ اس نئی دنیا میں بہت کچھ ہوتا ہے ‘جو ہماری حقیقی دنیا کی رونق اور زینت میں اضافے کا وسیلہ بنتا ہے۔ ہر نیا خیال ‘اس دنیا کے لیے ایک نعمت کی طرح ہوتا ہے ‘مگر معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں رہتا۔ نئے خیال کو عمل کی کسوٹی پر کھرا ثابت کرنا پڑتا ہے۔ یہ عمل محنت بھی مانگتا ہے اور مشق و مہارت بھی۔
ہر انسان کے ذہن میں نئے خیالات ابھرتے ہیں اور پروان بھی چڑھتے ہیں‘ مگر جب عمل کی دنیا سے دوری اختیار کی جاتی ہے تب کوئی بھی نیا خیال حقیقت کا روپ دھارنے سے پہلے اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ سوچنا آسان ہے۔ معیاری سوچنا تھوڑا مشکل ہے‘ مگر بہت زیادہ مشکل ہرگز نہیں۔ انسان کسی نہ کسی طور کچھ نہ کچھ نیا سوچ ہی لیتا ہے۔ مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب کسی بھی نئے خیال کو عمل کی دنیا میں آزمائش کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے‘ جو انسان کی صلاحیتوں کے لیے حقیقی آزمائش کا درجہ رکھتا ہے۔
آئیے‘ فلم سے شروع کرتے ہیں۔ ہر فلم کسی نہ کسی خیال کے پنپنے سے جنم لیتی ہے۔ مصنف جب کسی بھی معاملے کے کسی نئے پہلو کے بارے میں سوچتا ہے تب ذہن کے پردے پر کہانی کا خاکہ ابھرتا ہے‘ مثلاً: کسی ایسے نوجوان کا تصور کیا کیجیے‘ جو باصلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ ایمان دار بھی ہے۔ وہ چھوٹے قصبے کو چھوڑ کر بڑے شہر میں قدم رکھتا ہے‘ جہاں اُس کی صلاحیتوں کے اظہار کے بہت سے مواقع ہیں‘ مگر اُسے قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ‘کیونکہ وہ ایمان دار بھی ہے۔ بڑے شہروں میں مسابقت بھی ''گلا کاٹ‘‘ قسم کی ہوتی ہے۔ سب ایک دوسرے کو پچھاڑ کر آگے نکلنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی اخلاقی اصولوں کی بات کرے‘ بلند کردار کا راگ الاپے تو لوگ بجا طور پر حیرت سے دیکھتے ہیں۔ جہاں مسابقت جان لیوا قسم کی ہو وہاں دیانت کے ساتھ آگے بڑھنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ اس بنیادی خیال کے گرد کہانی کا تانا بانا بُنا جائے گا تو ایک اچھی فلم لکھی جاسکے گی۔ ہر اچھی فلم کسی نہ کسی نئے خیال کا نتیجہ ہوتی ہے۔
ہم نے باصلاحیت اور دیانت دار نوجوان سے کے حوالے سے جس بنیادی خیال کا ذکر کیا ویسے نئے بنیادی خیالات بہت سوں کے ذہنوں میں ابھرتے ہیں۔ محض بنیادی خیال کے آجانے سے پوری کہانی ذہن میں پروان نہیں چڑھتی۔ کسی بھی نئے اور بنیادی خیال کو سامنے رکھ کر دن رات سوچا جاتا ہے‘ سوچے جانے والے نکات کو کاغذ پر اتار کر اُس کی نوک پلک سنواری جاتی ہے تب ایک کہانی کا خاکہ تیار ہوتا ہے اور یہ خاکہ جب سکرین پلے میں تبدیل ہوتا ہے‘ تب فلم بنتی ہے۔
ہمیں آج دنیا میں زندگی آسان بنانے والی جتنی بھی اشیاء دکھائی دے رہی ہیں اُن کی ایجاد دراصل نئے خیال کی مرہون مِنّت ہے۔ کسی کے ذہن میں کوئی خیال ابھرا‘ اُس نے محنت کی‘ خیال کو پروان چڑھایا اور خوب محنت کے ذریعے اُس خیال کو عمل کی کسوٹی پر پرکھا تب کہیں جاکر وہ نیا خیال ایجاد میں تبدیل ہوا ‘یعنی حقیقت کی دنیا کا حصہ بنا۔ کسی بھی نئے خیال کی بنیاد پر محنت کرکے کسی ایجاد کو ممکن بنانا انتہائی دشوار مرحلہ ہوتا ہے۔ ہر دور میں چند سر پھروں نے نفع و نقصان کی پروا کیے بغیر ان تھک محنت کی ہے اور دنیا کو بہت کچھ دیا ہے۔ یہ کام ''نہ ستائش کی تمنا‘ نہ صِلے کی پروا‘‘ کے اصول کی بنیاد پر انجام کو پہنچتا رہا ہے۔
سیاست ہو یا معیشت‘ اداکاری ہو یا صداکاری‘ لکھنے کی دنیا ہو یا مصوّری کی‘ کھیل کا میدان ہو یا جسمانی طاقت کی آزمائش کا ... ہر شعبے میں اہمیت اس بات کی ہے کہ کون کس حد تک نیا سوچ سکتا ہے۔ فلموں کی طرح ڈراموں میں بھی نئی بات نہ ہو تو لوگ دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ وہی اداکار کامیاب ہوتے ہیں‘ جو اپنے فن کو نئے خیالات کی مدد سے نئے زاویوں سے آراستہ کرتے ہیں۔ گلوکاری میں بھی وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو نئے خیالات کی مدد سے اپنی آواز کو زیادہ جاندار بناتے ہیں اور فن میں گہرائی و گیرائی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لکھنا تو خیر کام ہی نئے خیالات کا ہے۔ کوئی بھی ایسا مصنف کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا ‘جو نیا نہیں سوچ سکتا۔ تصنیف و تالیف کی طرح میڈیا کی دنیا میں بھی اہمیت اِس بات کی ہے کہ نئی بات کس حد تک سوچی جاسکتی ہے۔ تجزیہ نئے خیالات کا حامل نہ ہو تو لاحاصل ٹھہرتا ہے۔ اخبارات میں خبریں تو روزانہ ایک سی ہوتی ہیں۔ ہاں‘ انہیں پیش کرنے کا انداز نیا اور مختلف ہو تو بات بنتی ہے۔ کھیلوں کی دنیا میں بھی وہی کامیاب ہوتے ہیں‘ جو اپنی کارکردگی کا گراف بلند کرنے کے لیے نئے خیالات کو پروان چڑھاتے ہیں اور اپنے کھیل کو نیا رنگ دیتے ہیں۔
غور کیجیے تو زندگی جِدّت سے عبارت ہے۔ جب تک جِدّت ہے تب تک کامیابی ہے۔ زندگی کے دریا میں روانی ہے تو جِدّت سے‘ اِس میلے کی رونق ہے تو جِدّت کے رنگوں سے۔ نیا خیال سامنے آتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ ہم زندہ ہیں۔ ہم دن رات جِدّت ہی کے لیے تو ترس رہے ہوتے ہیں۔
نئی بات یا نئے خیال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر معاملہ بالکل ہی الگ اور نیا ہو۔ سیف الدین سیفؔ نے خوب کہا ہے ؎
سیفؔ! اندازِ بیاں بات بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
غور کیجیے تو کوئی بھی بات نئی بات نہیں۔ سارا کھیل جِدّت طرازی کا ہے۔ جو شخص کچھ نیا پیش کرنا چاہتا ہے وہ پہلے سے موجود کسی چیز کو نیا زاویہ‘ نیا انداز‘ نیا رنگ دے کر دنیا کے سامنے لاتا ہے۔ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ اب حقیقی معنوں میں کچھ نیا تو آنے والا نہیں اس لیے جِدّت طرازی ہی پر گزارا کیا جائے اور داد دی جائے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کہانی کو چند نئے ٹوئسٹ دے کر فلم کی شکل میں دوبارہ مارکیٹ میں لایا جاتا ہے تو لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ سوال صرف عصری تقاضوں کو ذہن نشین رکھنے کا ہے۔ لوگ ہر حال میں جِدّت کو پسند کرتے ہیں‘ جس چیز میں انہیں کچھ نیا دکھائی دیتا ہے ‘اُسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں‘ پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ بہت سوں کی فنکاری یہ ہے کہ معمولی سی بات کو بھی خوب سجا‘ سنوارکر یوں پیش کرتے ہیں کہ ایک نئی بات پیدا ہو جاتی ہے اور لوگ داد و تحسین کے ڈونگرے برساکر خیر مقدم کیے بغیر نہیں رہتے۔
کچھ نیا کرنے کا ایک ہی مطلب ہے ... عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا۔ اگر آپ عصری تقاضوں کو سمجھنے کے اہل ہیں تو اپنے ہنر میں جِدّت لاسکتے ہیں‘ کچھ نہ کچھ نیا کرکے دکھاسکتے ہیں۔ لوگ جو کچھ چاہتے ہیں وہ کیجیے اور پھر دیکھیے کہ آپ کو کس قدر قبول کیا جاتا ہے۔ ہاں‘ ہنر مندی کا کمال یہ ہے کہ آپ جو کچھ کہیں یا کریں وہ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ بھی ہو‘ لوگوں کی پسند کا خیال بھی رکھا جائے اور مجموعی طور پر سَودا آپ کی مرضی کا بھی ہو!