دماغ کو تیز کرنے کے لیے لوگ سَو جتن کرتے ہیں۔ دماغ کا تعلق عقل سے ہے۔ حافظہ بھی دماغ ہی کا حصہ ہے۔ عقل کو بروئے کار لانے میں حافظہ بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عقل کا معیار بلند کرنے کی خاطر حافظے کو تیز کرنے کے لیے بادام کھائے جاتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ عقل بادام کھانے سے نہیں‘ دَھکّے کھانے سے آتی ہے! ٹھیک ہی تو ہے۔ جب تک انسان ناکامیوں سے دوچار نہیں ہوتا تب تک کامیابی سے ہم کنار ہونے کی راہ ہموار نہیں ہوتی۔
کامیابی یقینی بنانے کے لیے انسان کو بہت سے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ سب سے سخت مرحلہ ہے واضح ناکامی کا۔ ناکام ہوئے بغیر انسان بھرپور کامیابی کے گُر ڈھنگ سے نہیں سیکھ پاتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی یہ سوچ کر خواہ مخواہ ناکام ہوتا پھرے کہ ایسا کیے بغیر کچھ سیکھنا ممکن ہی نہیں! پورے اخلاص کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی کوشش اگر حالات کے باعث ناکامی سے دوچار ہو تو ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ہمارے اپنے تساہل اور حماقت کی کوکھ سے پیدا ہونے والی ناکامی محض مایوسی میں مبتلا کرتی ہے۔
ناکام کون ہوتے ہیں؟ وہی لوگ جو کچھ کرتے ہیں۔ ناکامی اس بات کا واضح پیغام ہوتی ہے کہ کسی نے محنت کی ہے‘ اپنی صلاحیت اور سکت کو بروئے کار لانے کی کسی نہ کسی حد تک کوشش کی ہے۔ ع
گرتے ہی شہسوار ہی میدانِ جنگ میں
جو لوگ اپنے آپ کو منوانا چاہتے ہیں وہ میدانِ عمل میں نکلتے ہیں۔ انسان جب تک دوسروں پر اپنا ہر جوہر عیاں کرنے کی کوشش نہیں کرتا تب تک ایسا ہوتا نہیں۔ ہم کیا جانتے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں یہ سب کچھ اُسی وقت سامنے آتا ہے جب ہم کچھ کرتے ہیں‘ عمل کے حوالے سے خود کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ محض باتوں اور ارادوں سے کسی کو ہمارے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکتا۔
دنیا میں پہلا سانس لینے سے دم نکلنے تک انسان کو عمل کے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ عمل پسند رویہ ہی انسان کو ممتاز اور نمایاں کرتا ہے۔ سیکھنے کا عمل بھی اُسی وقت کارگر ثابت ہوتا ہے جب انسان شعوری سطح پر عمل پسند رویہ اختیار کرتا ہے۔ انسان کوئی بھی فن یا ہنر بہتر انداز سے اُسی وقت سیکھ سکتا ہے ‘جب وہ اس حوالے سے خود کو شعوری طور پر تیار کرے اور مشق و محنت کے کسی بھی جاں گُسل مرحلے سے گزرنے کے لیے بھی آمادہ ہو۔
کسی خاص شعبے میں بھرپور کامیابی تقریباً ہر انسان کی آنکھوں میں بسا ہوا خواب ہے۔ ہم زندگی بھر کسی نہ کسی بڑے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے بے تاب و بے قرار رہتے ہیں۔ خواہش کسی بھی حوالے سے کامیابی کی طرف بڑھنے کے لیے پہلا اور واضح قدم ہے۔ جب ہم کسی خواہش کے تحت کام کرتے ہیں تو کام کرنے کی رفتار بھی بڑھ جاتی ہے اور معیار بھی بلند ہوتا جاتا ہے۔
کسی بھی واضح اور بڑے مقصد کے حصول کے لیے کی جانے والی کوششوں کی بدولت ہی ہم اپنی الگ اور نمایاں شناخت قائم کر پاتے ہیں۔ یہ شناخت ہمارے وجود کو معنویت عطا کرتی ہے۔ جب ہم عمل کے حوالے سے کسی خاص سمت سفر کرتے ہیں تب دنیا کو معلوم ہو پاتا ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں‘ کہاں تک جاسکتے ہیں۔
دنیا ہمیں کب جان پاتی ہے؟ صرف اُس وقت جب ہم بھرپور کامیابی سے ہم کنار ہو پاتے ہیں۔ ہماری کامیابی ہی دنیا کو ہمارے بارے میں زیادہ سے زیادہ بتاتی ہے۔ جب تک ہم کچھ نہیں کرتے تب تک ہم پر گم نامی کا پردہ پڑا رہتا ہے۔ جب ہم کامیابی کے لیے ان تھک محنت کر رہے ہوتے ہیں‘ تب بھی کم ہی لوگوں کو ہمارے بارے میں کچھ معلوم ہو پاتا ہے اور ہمیں تسلیم کرنے والے تو خیر اور بھی کم ہوتے ہیں۔
جب ہم بھرپور کامیابی کا حصول یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تب دنیا کو ہمارے بارے میں کچھ زیادہ تو معلوم نہیں ہو پاتا‘ تاہم اتنا ضرور ہے کہ اہلِ جہاں کے طرزِ فکر و عمل کی بنیاد پر ہم دنیا کو اچھی طرح جان پاتے ہیں۔ ہماری ہر ناکامی ہمیں دنیا کو بہتر طور پر جاننے‘ پہچاننے اور سمجھنے کا موقع عطا کرتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کامیاب ہو جانے کے بعد بیشتر افراد خاصے سَرکش‘ مغرور‘ بدمزاج اور سَنکی ہو جاتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ کامیابی کے لیے اپنے پورے وجود کو بروئے کار لانے کے عمل میں انہیں بظاہر کسی بھی گوشے سے حوصلہ افزاء باتیں سُنائی نہیں دیتیں۔ اس کے برعکس بہت سے لوگ اُن کی کوششوں کا تمسخر اُڑا رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کا یہی دستور ہے۔ جب تک انسان کسی بھی حوالے سے بھرپور جدوجہد کر رہا ہوتا ہے‘ تب تک اُس کی صلاحیتوں اور محنت کا اعتراف نہیں کیا جاتا۔ کوئی اُس کی لگن بھی نہیں دیکھتا۔ ہاں! کامیاب ہو جانے پر اُسی شخص پر سب توصیف و ستائش کے ڈونگرے برسانے لگتے ہیں۔ کامیابی پر مبارک باد دینے کے حوالے سے سب ایسے پرجوش دکھائی دیتے ہیں گویا یہ کارنامہ اُنہوں نے خود انجام دیا ہو!
انسان کو اس دنیا کی اصلیت کا درست علم کشمکش اور جدوجہد کے زمانے ہی میں ہوسکتا ہے۔ ایسی حالت میں لوگ کم ہی کسی کی صلاحیت اور سکت کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ عمومی رجحان ہے ‘اس لیے ہم اس پر زیادہ حیران بھی نہیں ہوتے۔ ذہن پر زور دیجیے تو آپ کو یاد آئے گا کہ اس معاملے میں آپ بھی دنیا کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں ‘یعنی کسی کو اُس کی جدوجہد کے زمانے میں زیادہ پہچانتے ہیں ‘نہ سراہتے ہیں اور جب وہ بھرپور کامیابی کے ساتھ نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے‘ تب آپ بھی ستائش کے ڈونگرے برسانے والے گروہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔
آب آپ ضرور سمجھ گئے ہوں گے کہ عقل بادام کھانے سے نہیں‘ دَھکّے کھانے سے آتی ہے۔ جب انسان حالات کے تھپیڑے برداشت کرتا ہے اور اپنے آپ کو منوانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہوتا ہے تب اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا میں جس کسی نے بھی بھرپور کامیابی اور شہرت پائی ہے‘ وہ کن کن مراحل سے گزرا ہوگا۔ یہ دنیا کسی کو بھی اگر تسلیم کرتی ہے‘ تو صرف اُس وقت جب وہ بھرپور کامیابی سے ہم کنار ہوچُکتا ہے۔
کامیابی انسان کو کچھ نہیں سکھاتی۔ سیکھنے اور سکھانے کا عمل کامیابی کی طرف گامزن رہنے کے دوران جاری رہتا ہے۔ انسان اپنی ناکامیوں سے سیکھتا ہے۔ دنیا کے ہر انسان کو اپنے نمایاں ترین مقصد کے حصول میں غیر معمولی دشواریوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ اس راہ میں قدم قدم پر مسابقت ہے۔ دنیا پل پل بدل رہی ہے اور یہ بدلتی ہوئی دنیا کامیابی کے خواہش مند ہر انسان کے لیے مشکلات پیدا کرتی جاتی ہے۔ دَھکّے کھانے کا عمل ہی انسان کی تشکیل و تہذیب کرتا ہے۔ دُنیا کی بے رخی انسان کی محض حوصلہ شکنی نہیں کرتی ‘بلکہ کبھی کبھی اُس کی آتشِ شوق کو اور بھڑکاتی ہے اور وہ مضبوط تر ارادے کے ساتھ‘ زیادہ دم خم کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ ہر مشکل کے دامن میں ہمارے لیے تھوڑی بہت آسانی بھی پائی جاتی ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم اُس آسانی کو شناخت کرکے بروئے کار لاتے ہیں یا نہیں‘ جس نے بیشتر مشکلات کو وسعتِ قلب کے ساتھ قبول کرکے اُن سے کچھ سیکھا وہی حقیقی مفہوم میں کامیاب ہا۔ تو جناب‘ بادام کھاکر بھی دماغ کو تیز کیا جاسکتا ہے‘ مگر اچھا یہ ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لیے آپ بادام کم اور دَھکّے زیادہ کھائیں‘ کیونکہ دَھکّے ہر صورتِ حال میں زیادہ مقوّی ثابت ہوتے آئے ہیں۔