"MIK" (space) message & send to 7575

پسپائی اور جَست

کوئی بھی یہ بات پسند نہیں کرتا کہ کسی بھی معاملے میں پسپائی اختیار کی جائے‘ پیچھے ہٹنے کی ذِلّت سے دوچار ہونا پڑے۔ آپ بھی پسپائی کو کسی حالت میں پسند نہیں کرتے ہوں گے‘ مگر کیا کیجیے کہ بہت سے معاملات میں انسان کو پسپائی اختیار کرنا ہی پڑتی ہے۔ فوجیوں کو تعلیم و تربیت کے دوران یہ بات بھرپور توجہ کے ساتھ سکھائی جاتی ہے کہ جہاں آگے بڑھنا انتہائی خطرناک ہو اور اپنی جگہ کھڑے رہنے میں بھی نقصان کا احتمال ہو وہاں تھوڑی سی پسپائی اختیار کرکے زیادہ تیاری کے ساتھ دشمن کے سامنے آنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اس طور پسپائی اختیار کرنے کو کسی بھی اعتبار سے شرم ناک اور مُضِر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ 
پسپائی اور حکمتِ عملی کے حوالے سے جو کچھ فوجیوں کو سکھایا جاتا ہے ‘وہی کچھ عام آدمی کی تعلیم و تربیت کے عمل کا بھی حصہ ہونا چاہیے۔ پسپائی اگر شعوری سطح پر ہو اور حکمتِ عملی کے اہم ترین جُز کے طور پر اختیار کی گئی ہو تو انسان کو کسی نہ کسی حد تک کچھ فائدہ پہنچا ہی جاتی ہے۔ زندگی ہمیں بار بار ایسے موڑ پر لاتی ہے‘ جہاں سے کئی راستے نکل رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں درست ترین راستے کا تعین بھی کرنا پڑتا ہے اور کبھی کبھی تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر تحمل کے ساتھ انتظار بھی کرنا پڑتا ہے؛ اگر صورتِ حال پوری کی کی پوری خلاف جارہی ہو تو آگے بڑھنے کی کوشش فطری طور پر صریح نقصان کا باعث ہی بنے گی۔ 
حالات کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ ماحول کم و بیش پورا کا پورا آپ کے خلاف جارہا ہو اور آپ کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں۔ ایسے میں خواہ مخواہ ہاتھ پاؤں مارنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ صورتِ حال کی نزاکت کا تقاضا اگر یہ ہو کہ آپ تحمل سے کام لیں ‘یعنی کچھ نہ کریں تو ایسا ہی کرنے میں خیر ہے۔ اگر آپ حق پر ہوں اور تمام معاملات آپ کے خلاف جارہے ہوں تو کچھ بھی ثابت کرنے کی کوشش مت کیجیے۔ ایسے میں حق پر یعنی اپنے موقف پر ڈٹے رہنے ہی میں خیر مضمر ہے؛ اگر آپ حق پر ہیں تو اسے ثابت کرنے کی کوشش پر اپنا وقت اور توانائی ضائع کرنے کے بجائے صبر کیجیے اور ایک طرف ہو جائیے۔ آپ کے حق میں گواہی خود وقت دے گا۔
بات ہو رہی ہے پسپائی کی۔ حکمتِ عملی کے تحت پسپائی اختیار کرنے والے بالعموم کامیاب رہتے ہیں۔ بہت سے معاملات میں صلاحیت اور سکت سے کہیں بڑھ کر ٹائمنگ ہوتی ہے۔ اگر ٹائمنگ غلط ہوجائے ‘تو انسان اچھی خاصی موافق صورتِ حال کو بھی ناموافق بنا بیٹھتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں کامیابی کے حوالے سے دی جانے والی تعلیم و تربیت میں اِس نکتے کی بھی غیر معمولی اہمیت ہوتی ہے کہ جہاں آگے بڑھنا ممکن ہو وہاں رکنا لازم ہے اور اگر رکنے میں بھی قباحت ہو تو پسپا ہونے میں کچھ مضائقہ نہیں۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم معاملات کو درست کرنے کے معاملے میں پہلے تو جذباتی ہو اُٹھتے ہیں اور پھر ضِد سی ہو جاتی ہے۔ ایسی حالت میں ہمارے چند ایک فیصلے غلط بھی ثابت ہوسکتے ہیں اور ایسا کس طور ممکن ہے کہ غلط فیصلے منفی اثرات کے حامل نہ ہوں؟ 
شخصی ارتقاء سے متعلق موضوعات پر لکھنے والوں کی اکثریت اس نکتے پر زور دیتی ہے کہ انسان کو ہر طرح کی صورتِ حال کے لیے تیار رہنا چاہیے اور آگے بڑھنے میں در حقیقت کوئی بڑی قباحت درپیش ہو تو پسپائی اختیار کرنے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ 
شکاریات سے متعلق کتب پڑھنے اور ویڈیوز دیکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ شیر چھلانگ یا جَست لگانے کے لیے ایک قدم پیچھے ہٹتا ہے۔ ٹیک آف کے عمل میں زمین چھوڑنے سے قبل طیارہ بھی ایک لمحے کے پچاسویں حصے کے لیے پیچھے ہٹتا ہے! اگر آپ کرکٹ کے شوقین ہیں تو دیکھا ہوگا کہ باؤلرز بھی زیادہ قوت سے گیند کرانے کے لیے اپنے رن اپ مارک پر پہنچنے کے بعد تھوڑا سا پیچھے ہٹتے ہیں۔ 
گویا کسی بھی کام کو ڈھنگ سے کرنے کے لیے لازم ہے کہ تھوڑا سا توقف کیا جائے‘ اپنے آپ کو سمیٹا جائے‘ اپنی صلاحیت اور سکت کا جائزہ لیا جائے اور پوری قوت کو ایک نقطے پر مرکوز کرکے بھرپور سعی کی جائے۔ اب اس حقیقت کے تناظر میں اپنے معاملات کا جائزہ لیجیے؛ اگر حالات نے آپ کو ایک قدم پیچھے دھکیل دیا ہے تو سمجھ لیجیے کہ قسمت آپ کو کسی بڑے کام کے لیے تیار کر رہی ہے! 
زندگی کی جنگ وہی لوگ بہتر انداز سے لڑ پاتے ہیں جو تمام معاملات کا باریکی اور حقیقت پسندی سے جائزہ لیتے ہیں۔ بہت سے معاملات میں سب کچھ ہمارے حق میں نہیں ہوتا۔ متعدد معاملات اپنی نوعیت کے اعتبار سے ہمیں سخت ناگوار گزرتے ہیں‘ مگر ناگوار محسوس ہونے پر بھی کسی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جو معاملات ہمارے خلاف جارہے ہوں ‘انہیں محض نظر انداز کردینے سے بات نہیں بنتی‘ دال نہیں گلتی۔ سنجیدگی اختیار کرنا پڑتی ہے‘ حکمتِ عملی بدلنے کی شعوری کوشش کرنا پڑتی ہے۔ ایسا کیے بغیر پیش رفت کی گنجائش پیدا نہیں ہوتی‘ معاملات کے درست ہونے کی سبیل نہیں نکلتی۔ 
حقیقی کامیابی اُنہی کے حصے میں آتی ہے‘ جو زندگی کو اس طور بسر کرتے ہیں گویا ہر لمحہ محاذ پر ہوں اور دشمن کے ایک ایک وار کا ڈٹ کر جواب دے رہے ہوں۔ جنگ کے محاذ پر کوئی بھی وار خوشی خوشی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا کرنا دشمن کے لیے دلی طمانیت و تقویت کا وسیلہ ثابت ہوسکتا ہے۔ بالکل اسی طور عمومی سطح پر بھی زندگی ہم سے بار بار جنگی حکمتِ عملی کی سی سوچ اپنانے کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ سب کچھ اِس لیے ناگزیر ہے کہ جس طور جنگ میں کوئی ایک غلط وار اچھے خاصے جیتے ہوئے معرکے کو شکست کی طرف دھکیل دیتا ہے ‘بالکل اُسی طرح کسی بھی شعبے میں کوئی ایک غلط فیصلہ انسان کو کامیابی سے خاصا دور لے جاسکتا ہے۔ آنکھیں دیکھتے رہنے اور کان سُنتے رہنے کے لیے ہیں۔ یہ عمل جاری رہنا چاہیے۔ ذرا سی توجہ ہٹی اور بات بگڑی۔ عمومی‘ یعنی پست ترین سطح پر جینے کے لیے انسان کو کچھ زیادہ نہیں کرنا پڑتا۔ ہاں‘ ڈھنگ سے جینے اور کامیابی سے ہم کنار ہوکر قابلِ رشک سہولتوں سے مستفید ہونے کی خاطر انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اہمیت اسی بات کی ہے کہ انسان اپنے وجود کو دنیا سے منوانے کی خاطر ہر وقت تیاری کرتا رہے‘ مصروفِ عمل رہے۔ 
یاد رکھیے‘ اگر آپ کو شیر کی طرح اپنے شکار پر جھپٹنا ہے تو جَست لگانے کے لیے تھوڑا سا پیچھے ہٹنا ہی پڑے گا۔ ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ یومیہ بنیاد پر کچھ دیر کے لیے کسی گوشے میں بیٹھ کر اپنی کارکردگی کا جائزہ لیں‘ تاکہ کچھ نیا کرنے کی تحریک ملے۔ جو لوگ یومیہ بنیاد پر یعنی باقاعدگی سے سوچتے ہیں‘ وہ اپنی تمام خامیوں اور کوتاہیوں کا تجزیہ کرکے خود کو انتہائی معیاری جَِِست لگانے کے قابل بنا پاتے ہیں۔ بھرپور کامیابی کی راہ میں انا پرستی کا پڑاؤ کہیں آتا۔ محض ضِد یا جھوٹی انا کے ہاتھوں مجبور ہوکر آگے بڑھنا ہر حال میں کسی بھی دلیل کی مدد سے درست ثابت نہیں کیا جاسکتا اور کچھ نہیں تو اِتنا ضرور یاد رہنا چاہیے کہ جہاں پیچھے ہٹنا لازم ہو وہاں پیچھے ہٹنا ہی قرینِ دانش ہوتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں