فطری صلاحیتوں کے حامل افراد کی ہمارے ہاں کسی بھی شعبے میں کمی نہیں۔ پاکستان کا شمار اُن معاشروں میں ہوتا ہے ‘جہاں فطری صلاحیتوں کا سہارا لے کر لوگ زندگی گزار دیتے ہیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ ہمارے ہاں کوئی نظام تو ہے نہیں ‘اس لیے قدرت نے فطری صلاحیتوں سے نوازنے کے معاملے میں غیر معمولی فیاضی کا مظاہرہ کیا ہے! ہمارے جو بھی مسائل ہیں ‘وہ ہمارے خالق اور رب کی نظر اور علم میں ہیں اور ہر اعتبار سے واضح ہیں۔
خیر‘ بات ہو رہی تھی فطری صلاحیتوں کے حامل افراد کی۔ دوسرے بہت سے شعبوں کی طرح کامیڈی کے شعبے کو بھی قدرت نے ہمیں خوب نوازا ہے۔ کامیڈی میں ون مین شو کرنے والوں کی کمی نہیں۔ عمر شریف‘ سلیم آفریدی‘ شکیل صدیقی‘ رؤف لالہ‘ عرفان ملک‘ علی حسن‘ کاشف خان‘ ولی شیخ اور دوسرے بہت سے فنکاروں نے وطن میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد بھارت میں بھی دھوم مچائی۔ ایک دنیا اِن کی گوناگوں صلاحیتوں کو تسلیم کرتی ہے۔ ان تمام فنکاروں کو ہم نہایت خلوص کے ساتھ یہ مشورہ دیں گے کہ فی الحال اپنی کامیڈی کی دکان بند کردیں!
آپ سوچیں گے ہم یہ مشورہ کیوں دے رہے ہیں۔ عرض یہ کرنا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دو روزہ دورے کے بعد اپنی سیاسی قیادت کا اشارہ پاکر بھارتی میڈیا نے ایک بار پھر کامیڈی کا محاذ کھول لیا ہے۔ جب بھی بھارتی قیادت کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تو پاکستان کو لتاڑنے کے نام پر کامیڈی شو شروع کرادیا جاتا ہے اور اشارہ پانے کے بعد بھارتی میڈیا زہر افشانی کے ذریعے ایسا سماں باندھتے ہیں کہ لوگ انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں بھارتی قوم کو مستند کامیڈین بھی یاد نہیں رہتے۔ فلموں یا ٹی وی ڈراموں میں وہ کامیڈی ممکن ہی نہیں‘ جو بھارتی میڈیا پیش کرتے ہیں! یہی سبب ہے کہ آج کل فلموں اور ڈراموں کی ریٹنگ خاصی گِری ہوئی ہے اور نیوز چینلز کی گڈی خاصی اونچی اڑ رہی ہے۔ ایک زمانے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان باضابطہ تجارت کا بازار گرم ہے۔ یہ تجارت اب تک پاکستان کے لیے موافق نہیں ہو پائی۔ بھارتی تاجر فائدے میں رہتے ہیں۔ تجارتی توازن بھی بھارت کے حق میں رہتا ہے۔ اس کے باوجود کسی بھی پریشان کن صورتِ حال میں پہلا چُھرا تجارت پر چلتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ شُنید ہے کہ بھارتی تاجروں نے متعدد آرڈر منسوخ کردیئے ہیں۔ یہ بات حیرت انگیز نہیں ‘مگر ہاں بھارتی میڈیا نے اس حوالے سے جو کچھ کہنا شروع کیا ہے ‘وہ ایسا ہے کہ سُنتا جا‘ ہنستا جا‘ شرماتا جا۔ ؎
کلامِ میرؔ سمجھے اور زبانِ میرزا سمجھے
مگر اُن کا کہا وہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
''کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘ بھان متی نے کنبہ جوڑا ‘‘کے مصداق بھارتی میڈیا زمانے بھر کے الٹے سیدھے‘ متعلق و غیر متعلق دلائل جمع کرکے ایک ملغوبہ تیار کرتے ہیں اور ناظرین و سامعین پر دے مارتے ہیں۔ بھارت کے ایک ہندی ٹی وی چینل اے بی پی نے کامیڈی کے محاذ پر ابتداء ہی میں انتہاء کردی ہے۔ ایک رپورٹ میں نیوز اینکر نے بتایا کہ اب پاکستانی بھارت کے لال ٹماٹروں کو ترسیں گے اور ٹماٹر کھاکر ہمارے دشمن پیدا نہیں کرسکیں گے! محترمہ کا کہنا تھا کہ مدھیہ پردیش کے کسانوں نے طے کیا ہے کہ وہ اپنی ٹماٹر کی فصل تلف تو کردیں گے‘ خسارہ برداشت کرلیں گے ‘مگر کسی بھی حال میں ٹماٹر پاکستان کو برآمد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جب اس عزم کا سبب پوچھا گیا تو احتجاج کرنے والے کسانوں کے رہنما نے شِکوہ کیا کہ ہمارے ٹماٹر کھاکر پاکستانی فوجی ہمارے جوانوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں!
بھارتی نیوز چینل کے اس کامیڈی آئٹم سے دو باتوں کا پتا چلا؛ ایک تو یہ کہ بھارتی ٹماٹر خاصے مغلّظ و مقوّیٰ ہیں کہ اُنہیں کھاکر ہم اپنی آبادی‘ یعنی بھارت کے دشمنوں کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ بھارتی ٹماٹر لڑنے کا جذبہ بھی پروان چڑھاتے ہیں ‘یعنی اُنہیں کھانے سے ہمارے فوجیوں میں اتنا دم خم پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ بھارتی جوانوں کو آسانی سے ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ تو ایک تیر میں دو نشانے لینے والی بات ہوئی۔ پاکستان کو ٹماٹر فراہم نہ کیے جانے کی صورت میں ایک طرف تو پاکستان کو بھارت کے دشمن پیدا کرنے سے روکا جاسکے گا اور دوسری طرف بھارتی جوانوں کو ٹھکانے لگانے کی صلاحیت سے پاکستان کو محروم رکھا جاسکے گا!
لوگ ہنستے ہنستے پاگل ہوجائیں ‘تو چینلز یا اخبارات ذمہ دار نہیں۔ بہت دور کی کوڑیاں لائی جارہی ہیں۔ ہر بات میں سو باتیں سمونے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس وقت پاکستانی قوم قدرے تناؤ کی حالت میں ہے؛ اگر حقیقی تفریحِ طبع کا اہتمام کرنا ہے تو ہم پوری سنجیدگی کے ساتھ یہ دل نواز مشورہ دیں گے کہ اِدھر اُدھر کے فضول ڈرامے دیکھنے کی بجائے چند بھارتی نیوز چینلز دیکھنے شروع کر دیجیے!
مرزا تنقید بیگ ‘خیر سے خود بھی کسی کامیڈین سے کم نہیں (واضح رہے کہ اُن کے کامیڈین ہونے کا ہمارے دوست ہونے سے کوئی تعلق نہیں) اُن کی بہت سی‘ بظاہر بے ضرر سی‘ باتیں بھی ایسا ''کامیڈیانا‘‘ ماحول پیدا کرتی ہیں کہ اللہ دے اور بندہ لے ‘مگر جب وہ ذرا فرصت سے ہوتے ہیں تو بھارتی چینلز کا چکّر لگاتے ہیں اور ایسے ایسے موتی چُن کر لاتے ہیں کہ لوگ کئی دن تک محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ تین چار دن سے یہ عالم ہے کہ وہ دن رات بھارتی چینلز دیکھتے رہتے ہیں اور بیک وقت محظوظ و پریشان ہوتے رہتے ہیں۔ اُن سے زیادہ پریشان اُن کے اہلِ خانہ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ مرزا جب بھی کئی دن تک بھارتی چینل دیکھتے ہیں تو اُنہیں بدہضمی ہو جاتی ہے۔ ایسی حالت میں وہ کسی بھی معاملے کا روشن پہلو دیکھیں یا نہ دیکھیں‘ مزاحیہ پہلو ضرور تلاش کرتے ہیں۔ کوئی سلام بھی کرے تو پہلے وہ اُسے متجسس ہوکر دیکھتے ہیں اور پھر باچھیں کِھل جاتی ہیں۔ سلام کا جواب بھی وہ اس طور دیتے ہیں‘ گویا ہنسانے کی کوشش کر رہے ہوں!
ٹماٹر والے معاملے پر مرزا کا کہنا ہے ''ایسا لگتا ہے‘ بھارت میں ٹماٹر کی فصل اچھی ہوئی ہے اور سیاسی قیادت ٹماٹر خوب کھارہی ہے۔ اپنے ملک کے ٹماٹر کھانے ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ ایک بار پھر جنگی جُنون کا عِفریت انگڑائیاں لیتا ہوا گہری نیند سے بیدار ہوا ہے۔ اچھا ہے کہ بھارتی ٹماٹر ہم سے دور رہیں ورنہ ہم بھی کِھسکے ہوئے دماغ کے ساتھ جینے لگیں گے!‘‘ بھارتی چینلز پر پاکستان مخالف پروپیگنڈا دیکھتے رہنے کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ اب مرزا کسی بھی حوالے سے سنجیدہ نہیں ہو پاتے۔ ہمیں تو یہ ڈر ہے کہ ہمہ وقت انتہائی غیر سنجیدہ پاکر کہیں کوئی اُنہیں کسی کابینہ میں شامل نہ کرادے! آج کل مارکیٹ میں جس قسم کے وزراء دستیاب ہیں‘ اُنہیں دیکھتے ہوئے مرزا کا بھی وزیر بن جانا ہم سمیت کسی کے لیے حیرت کا باعث نہ ہوگا۔
بھارتی قیادت حملے کی دھمکی دے رہی ہے۔ پلواما میں فوجی قافلے پر حملے کو جواز بناکر پاکستان کو سبق سِکھانے کا ڈھول پیٹا جارہا ہے۔ جنگ نواز ماحول بنایا جارہا ہے۔ سرحدی ریاست راجستھان سے تمام پاکستانیوں کو نکل جانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ اس اقدام کے ذریعے دنیا کو یہ بتانا مقصود ہے کہ سرحدی ریاست میں صورتِ حال انتہائی کشیدہ ہے۔ یہ اقدام دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خطے میں رونما ہونے والی سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کو فراخ دِلی سے قبول کیا جائے‘ مگر بھارتی قیادت روایتی تنگ نظری برقرار رکھتے ہوئے فل ٹائم کامیڈی کے تسلسل پر ڈٹی ہوئی ہے!