معاملہ انفرادی ہو یا اجتماعی ... یومیہ بنیاد پر فیصلے کرنا ہی پڑتے ہیں۔ بعض فیصلے انتہائی عمومی نوعیت کے ہوتے ہیں ‘جنہیں حقیقی مفہوم میں فیصلے قرار نہیں دیا جاسکتا ‘مگر ہاں چند ایک فیصلے ایسے ہوتے ہیں جن کے غلط ثابت ہونے سے بہت کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے اور لگتا ہے۔ ایسے ہی فیصلوں کے حوالے سے ہمیں زیادہ فکرمند رہنا چاہیے۔
آج پھر فیصلے کی گھڑی آ پہنچی ہے۔ پاکستانی چونکہ بہت سے معاملات میں انتہائی پس ماندہ اور مشکلات سے گِھری ہوئی قوم ہیں‘ اس لیے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جارہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دو قدم چلتے ہیں اور فیصلے کی گھڑی آ جاتی ہے۔ ہم جیسی ہر قوم کے لیے ذرا ذرا سے فاصلے پر اندھا موڑ آ ہی جاتا ہے۔ فیصلے کی گھڑی سر پر آپہنچے تو کوئی نہ کوئی معقول فیصلہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ وقت بھی کم ہوتا ہے اور فیصلے پر عمل نہ کرنے کی گنجائش بھی نہیں ہوتی۔
شخصی ارتقاء کے ماہرین جن صلاحیتوں کو انسان کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں‘ اُن میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی شامل ہے۔ جو شخص جس قدر جلد ہر اعتبار سے موزوں‘ متوازن اور معقول فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے ‘وہ زندگی کے بیشتر معاملات میں اُسی قدر کامیابی سے ہم کنار ہوتا ہے‘ جس لمحے میں ہمیں فیصلہ کرنا ہوتا ہے‘ اُس سے کسی صورت مَفر ممکن نہیں ہوتا۔ فیصلہ نہ کرنے کا آپشن موجود ضرور ہوتا ہے‘ مگر اس آپشن کو اپنانا حماقت کے سِوا کچھ نہیں؛ اگر ہمارے سامنے کوئی درندہ آجائے‘ تو مقابلہ کرنا ہوتا ہے یا پھر بھاگ کر جان بچانا پڑتی ہے۔ خود کو آسانی‘ یعنی کسی بھی طرح کی کوشش کیے بغیر درندے کے حوالے کرنا کسی بھی اعتبار سے آپشن ہے ہی نہیں۔ یہی معاملہ پوری زندگی کا ہے۔ جب بھی کوئی بحران سر اٹھاتا ہے تب ہمیں ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ہم میں اُس سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت اور سکت پائی جاتی ہے۔ معقول ترین طریقہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی بحران سے نمٹنے کے لیے پوری ذہنی تیاری کے ساتھ میدان میں آئیں اور صورتِ حال کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں۔ یہ طرزِ عمل ہی ہمیں کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اور اُن کے رفقاء عجیب مخمصے میں ہیں۔ معقول و متوازن فیصلے کرنے کے حوالے سے اُن پر غیر معمولی دباؤ ہے۔ مثل مشہور ہے کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ وزیر اعظم اور اُن کی ٹیم کا بھی ہے۔ ابھی اننگز ڈھنگ سے شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ بارش ہوگئی ‘یعنی حکومت سنبھالتے ہی معیشتی بحران ابھرا اور سامنے آکر کھڑا ہوگیا‘پھر وہی فیصلے کی‘ بلکہ فیصلوں کی گھڑی! حکومت کے قیام کو 6 ماہ ہوچکے ہیں ‘مگر اب تک واضح نہیں کہ قوم کے بنیادی مسائل حل کرنے کی کوششوں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ حکومت کے لیے فیصلے کرنا لازم تھا اور وہ فیصلے کر بھی رہی ہے ‘مگر سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے حقیقی دانش مندی کا مظاہرہ بھی کیا جارہا ہے یا نہیں۔ اب تک تو ایسا لگتا ہے کہ صرف قرضے لیتے رہنے کو مسائل کے حل سے تعبیر کرلیا گیا ہے۔
پہلے مرحلے میں سعودی عرب اور چین سے بات کی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ روس اور ترکی بھی پاکستان کی مدد کے لیے تیاریوں کی ابتداء کرتے دکھائی دیئے۔ اس پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا ماتھا ٹھنکا۔ اُسے بائی پاس کرکے معاملات درست کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ یہ تو صریح ''غدّاری‘‘ ہوئی! پاکستان آئی ایم ایف کے جال سے نکلنے کی اپنی سی کوشش کر رہا تھا۔ یہ کیسے ہوسکتا تھا؟ عالمی مالیاتی ادارے میں کھلبلی مچی اور امریکا سمیت کئی مغربی قوتیں خاصی بے چینی کے ساتھ متحرک ہوگئیں۔
یہ تھی فیصلے کی گھڑی‘ وزیر اعظم عمران خان اور اُن کی ٹیم کے اعصاب کا حقیقی امتحان یہ تھا کہ قومی معیشت کو آئی ایم کے تحت ملنے والے قرضوں کے جال میں مزید پھنسنے نہ دیا جائے۔ آئی ایم ایف سے جس قدر ''امدادی قرضہ‘‘ مل رہا ہے اُس سے کہیں زیادہ مالی وسائل تو دوست ممالک فراہم کرنے کو تیار ہیں‘ مگر امریکا اور یورپ ہمیں اُس طرف جانے نہیں دیتے۔ ماہرین ایک زمانے سے سمجھارہے ہیں کہ ع
جس کو ہوں جان و دل عزیز اُس کی گلی میں جائے کیوں
یعنی عالمی مالیاتی اداروں سے بچ بچ کر چلنے کی ضرورت ہے ‘مگر ہم ہیں کہ ایک ہی سوراخ سے خود کو بار بار ڈسوا رہے ہیں۔
معروف دانشور اور مصنف گیری کلائن نے اپنی ایک کتاب میں ''پری مارٹم‘‘ کی اصطلاح بہت عمدگی سے استعمال کی ہے۔ کلیدی خیال یہ ہے کہ کوئی بھی اہم اور دور رس نتائج کا حامل فیصلہ کرنے سے قبل انسان تصور کرے کہ وہ مستقبل میں کھڑا ہے اور بہت پہلے جو فیصلہ کیا تھا (یعنی جو اس وقت کر رہا ہے) اُس کے نتائج بھی دیکھ رہا ہے۔ ایسی صورت میں وہ اچھی طرح اندازہ لگاسکتا ہے کہ غلطی کہاں ہوئی‘ خرابی کس طور پیدا ہوئی۔ ''پری مارٹم‘‘ کا طریقِ کار کسی بھی اہم فیصلے کے حوالے سے ذہن سازی میں غیر معمولی حد تک حد تک مدد دے سکتا ہے۔ جب ہم کسی فیصلے کے ممکنہ نتائج کے بارے میں سوچتے ہیں تب تمام امکانات بھی ذہن کے پردے پر روشن ہوتے ہیں۔ ہم ہر آپشن کے حوالے سے خوب سوچ سمجھ کر ہی کوئی متوازن فیصلہ کرسکتے ہیں۔
گیری کلائن نے لکھا ہے کہ بیشتر معاملات میں کسی فیصلے تک پہنچنے کے لیے سوچنے کے دوران ہم پر جذبات غالب آجاتے ہیں اور فیصلہ کرتے وقت ہم جذبات سے مغلوب ہوکر اپنا مفاد بھی نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔ جب معاملات کو محض جذبات کی مدد سے طے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تب معقولیت کا دامن ہاتھ سے چُھوٹ ہی جاتا ہے۔
آج ہمیں پھر وہی اعصاب شکن چیلنج درپیش ہے ‘یعنی دانش سے کام لینا ہے۔ علاقائی اور عالمی صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ کوئی بھی فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا جائے۔ معیشت کے حوالے سے کیا جانے والا کوئی ایک غلط فیصلہ ہمیں زندگی کی دوڑ میں پھر بہت پیچھے کرسکتا ہے۔
ایک طرف امریکا اور یورپ ہیں اور دوسری طرف مشق کی ابھرتی ہوئی قوتیں۔ چین اور روس ہم سے ہم آہنگ ہوکر چلنے کے موڈ میں ہیں۔ ہمارا ڈُھل مُل رویہ چین کو کسی حد تک تذبذب میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ بھارت اتنا بڑا ملک ہے کہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ‘مگر مشکل یہ ہے کہ وہ جذبات کے ہاتھوں انتہائی مغلوبیت کی حالت میں ہے۔ پاکستانی معیشت کی بحالی اور استحکام اُسے قبول نہیں۔ پاکستانی معاشرے کی خرابیوں کو ہوا دیتے ہوئے ‘وہ معاشی ابتری برقرار رکھنے کے موڈ میں ہے۔ جنگی جنون کو ہوا دینے کا عمل بھی اسی سوچ کا شاخسانہ ہے۔ واشنگٹن‘ بیجنگ اور ماسکو نے نئی دہلی کو باور کرادیا ہے کہ پاکستان کو دبوچنے کا عمل ترک کیا جائے۔ ایسی پیچیدہ کیفیت میں پاکستان کو ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانا ہے‘ ہر اہم فیصلہ اس طور کرنا ہے کہ دانش کا مظہر ہو۔ بُرا چاہنے والے بہت زیادہ اور بھلا چاہنے والے خال خال ہیں۔ فیصلے کی اس گھڑی میں ہمیں حقیقی دوست اور خیر خواہ کی طرف متوجہ ہونا‘ انکسار کے ساتھ جُھکنا ہے‘ تاکہ دیرپا بین الریاستی تعلقات کی راہ ہموار ہو اور اکیسویں کے آنے والے انتہائی اہم عشروں میں ملک حقیقی استحکام کی طرف رواں رہے۔