"MIK" (space) message & send to 7575

معاملہ دکان داری کا ہے

قائدانہ کردار کے لیے غیر معمولی ذہن درکار ہوا کرتا ہے۔ غیر معمولی ذہن ہی میں وہ دانش پیدا ہوتی ہے جو قوم کو راستہ دکھاتی ہے۔ قیادت کا وصف اس امر کا متقاضی ہے کہ انسان بلند‘ بلکہ بہت بلند سوچے۔ بلند سوچنے کا واضح مطلب ہے کہ صرف اپنا اور اپنی قوم کا بھلا نہ سوچا جائے بلکہ مجموعی طور پر تمام انسانوں کے لیے خیر کی خواہش کی جائے۔ 
معمولی ذہنیت کے حامل ایک شخص کو قیادت کے منصب پر فائز کرنے کے نتیجے میں جو کچھ ہوا کرتا ہے وہی کچھ آج کل جنوبی ایشیا میں ہو رہا ہے۔ نریندر مودی نے دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کے حکومتی سربراہ کی حیثیت سے جو کچھ کیا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے اس منصب کے شایانِ شان نہیں۔ بھارت اور پاکستان میں انتہائی عمومی ذہنی اُپچ رکھنے والے بھی سمجھ چکے ہیں کہ جو کچھ نریندر مودی کر رہے ہیں وہ خالص ذاتی مفاد کے لیے ہے یعنی کسی نہ کسی طور وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہنا ہے۔ بھارت بھر میں عوام کے اعصاب پر انتخابی بخار سوار ہے۔ اس بخار کی شدت میں اضافہ کرنے کی ذمہ داری نریندر مودی نے اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھی ہے۔ اسی میں ان کا فائدہ ہے۔ مودی سرکار کو تسلسل چاہیے اور یہ تسلسل یقینی بنانے کے لیے وہ بہت سے معاملات کو منقطع کرنا چاہتے ہیں۔ جنگی جنون کا گراف بلند کرنا اسی سلسلے کی مرکزی کڑی ہے۔ 
اس وقت بھارتی قیادت جو کچھ کر رہی ہے وہ اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اقتدار کے لیے ریاست کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ بھارت کی سیاست کا کلیدی نکتہ پاکستان کے خلاف ماحول کو برقرار رکھنا رہا ہے۔ جب بھی بھرپور مقبولیت درکار ہوتی ہے‘ انتہا پسند ہندو سیاست دان پاکستان مخالف راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان سے شدید نفرت انتہا پسند ہندوؤں کی نفسی ساخت میں شامل ہے۔ اگر امن کی باتیں کرنے والے کچھ مدت تک کوشش کرکے عوام کے ذہنوں سے تھوڑا بہت کچرا نکالنے کی کوشش کر بھی لیں تو موقع ملتے ہی انتہا پسند ہندو ذہنوں میں پھر کچرا بھر دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ عشروں سے جاری ہے۔ بھارت میں بہت کچھ ہے جو درست ہے۔ ادارے مستحکم ہیں۔ اہلِ دانش کی بھی کمی نہیں۔ تعلیمی نظام مضبوط ہونے کی بدولت ڈھنگ سے تربیت دینا بھی ممکن ہے مگر اس کے باوجود سیاست کا ڈھانچا تبدیل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ بھی پاکستان کے خلاف جانے کے رجحان کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ پاکستان اُن کے لیے روزی روٹی کا معاملہ ہے۔ بہت سوں کو اندازہ ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر آنے سے اُن کی دکان داری ختم ہوجائے گی۔ دکان داری جاری رکھنے کے لیے وہ پاکستان کو نشانے پر رکھنے پر مجبور ہیں۔ 
بھارت میں اعتدال پسند شخصیات بھی ہیں جو پورے خطے کے مفاد کو ذہن نشیں رکھتے ہوئے سوچتی ہیں۔ اندر کمار گجرال ایسی ہی شخصیت
تھے مگر قوم نے انہیں جائز مقام نہیں دیا۔ وی پی سنگھ بھی بہتر دو طرفہ تعلقات کے حق میں رہے ہیں۔ اہلِ قلم میں کلدیپ نیّر‘ خشونت سنگھ اور انہی کے درجے کی اور بہت سی شخصیات بھی پاکستان سے حقیقی اور مضبوط دوستی کی خواہش مند رہی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ عام بھارتی باشندہ بہت تیزی سے جذبات کے ریلے میں بہہ جاتا ہے۔ اور جب ہوش آتا ہے تب تک بہت کچھ ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ بدطینت اور چالاک سیاست دان جب چاہتے ہیں پاکستان کا نام لے کر ذہن و دل میں آگ لگادیتے ہیں۔ جب پاکستان کے خلاف ماحول بن جاتا ہے تب چند ہفتوں تک کوئی بھی مفاہمت اور مصالحت کی بات نہیں سننا چاہتا۔ جو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں احمق اور بزدل گردانا جاتا ہے۔ یہی بھارتی معاشرے کا عمومی رجحان اور مزاج ہے۔ 
نئی دہلی میں بیٹھے ہوئے بزرجمہروں نے ایک بار پھر خطے کو جنگ کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔ اس بار یہ کام مودی سرکار کے ہاتھوں ہوا ہے۔ نریندر مودی نے فیصلے کی گھڑی میں خود کو گھامڑ ثابت کیا ہے۔ خطے کو تبدیل کرنے اور ترقی کی راہ ہموار کرنے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں ان کے تناظر میں یہ سب کچھ دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کے پالیسی میکرز کسی بھی حال میں مجموعی طور پر پورے خطے کی اور بالخصوص پاکستان کی بہتری نہیں چاہتے۔ پاکستان کا مستحکم اور پرامن رہنا انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ 
اب بنیادی سوال یہ ہے کہ بھارتی قیادت کو پورے خطے کی سلامتی داؤ پر لگانے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ یا دی جانی چاہیے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں بھرپور تبدیلیوں کا بازار گرم ہے۔ بُری طرح الجھے ہوئے معاملات کو درست کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ بڑی طاقتوں کے لیے اپنی پالیسیوں میں توازن پیدا کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ جب پوری دنیا تبدیلیوں کی زد میں ہے تو پاکستان‘ بھارت یا جنوبی ایشیا کیونکر الگ تھلگ رہ سکتا ہے؟ پاکستان بہت نازک موڑ پر ہے۔ ایک طرف اُسے معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ سرمایہ کاری کی جارہی ہے مگر اِس سے کہیں بڑھ کر امن درکار ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بھارتی قیادت پاکستان کو سکون کا سانس لینے کا موقع نہیں دینا چاہتی۔ 
کل تک جو کچھ دبی زبان میں کہا جارہا تھا وہ اب کھل کر بیان کیا جارہا ہے۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ بھارت میں جب بھی انتخابات ہوتے ہیں‘ پورے خطے کی سلامتی کو داؤ پر لگادیا جاتا ہے۔ کسی نہ کسی طور پاکستان کو تنازعات میں گھسیٹ کر‘ الزامات عائد کرکے بھارتی قیادت اپنا اُلّو سیدھا کرنے پر تُلی رہتی ہے۔ مودی سرکار نے بھی یہی کیا ہے۔ جنوبی ایشیا کو ترقی اور استحکام سے ہم کنار کرنے کی جو کوششیں پاکستان نے چین‘ روس اور ترکی کے تعاون سے کی ہیں وہ داؤ پر لگتی دکھائی دے رہی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے سچ کہا ہے کہ اگر جنگ کا ماحول بن گیا تو معاملات کسی کے بس میں نہیں رہیں گے۔ یہ حقیقت بھی کسی طور نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ دونوں ممالک جوہری طاقت ہیں۔ دونوں طرف جوہری ہتھیار اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ ایسے میں عمومی سطح سے بلند ہوتی ہوئی کوئی بھی لغزش ایک ایسی جنگ کو جنم دے سکتی ہے جو خطے تک ہرگز محدود نہ رہے گی۔ نوبت جوہری ہتھیاروں کے استعمال تک پہنچ گئی تو بڑی طاقتوں کے لیے اس معاملے میں کودنے کے سوا چارہ نہ رہے گا۔ مودی سرکار اپنے مفاد کے لیے علاقائی ہی نہیں‘ عالمی امن کو بھی داؤ پر لگانے پر تُلی ہے۔ یہ جنگی جنون کسی بھی طور کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں۔ لازم ہے کہ عالمی برادری محض تماشائی بنی رہنے کے بجائے عملاً آگے بڑھ کر معاملات کو درست کرنے کی سعی کرے۔ سیاسی دکان داری جاری رکھنے کے نام پر پورے خطے کا امن داؤ پر لگانے کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔ اقوام متحدہ کو بھی اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بھارتی سیاست کی نہج تبدیل نہ ہوئی تو جلد یا بدیر کوئی ایسی جنگ چھڑے گی جس کے نتیجے میں رونما ہونے والی تباہی صرف اس خطے تک محدود نہ رہے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں