"MIK" (space) message & send to 7575

’’چودھری صاحب‘‘ کے زخم

ایک زمانہ ہوگیا ہے کہ چودھری صاحب کا ناک میں دم ہے۔ ناک میں دم بھلا کیوں نہ ہو کہ اُنہیں گاؤں کے چھوٹوں نے پریشان کر رکھا ہے‘ جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ سامنے آکر پلکیں بھی اٹھاسکیں گے وہ سینہ تان کر کھڑے ہوگئے ہیں اور ایسا بھی نہیں ہے کہ سینہ تان کر کھڑے ہونے کا عمل کسی کی پُشت پناہی کی بنیاد پر ہو۔ دوسروں کے کاندھوں پر سوار ہوکر میلے کی سیر کی تو کیا کمال کیا؟ مزا تو جب ہے کہ آدمی ٹکٹ خریدے اور اپنے پیروں پر چلتے ہوئے میلے کی سیر کرے۔ 
پاکستان میلے کی سیر کر رہا ہے۔ بھارتی قیادت کو پہلے ہی قدم پر منہ کی کھانا پڑی ہے۔ بہت چاہنے اور کوشش کرنے پر بھی وہ ''اپر ہینڈ‘‘ لینے میں ناکام رہی ہے۔ پاکستان نے موقع غنیمت جان کر وہ کر ڈالا جس کی کسی بھی طور توقع نہیں کی جارہی تھی۔ 
بھارتی میڈیا کا لہجہ صاف بتارہا ہے کہ آج کل اُسے انسانوں والے بسکٹس پر نہیں پالا جارہا۔ معقولیت پر مبنی کوئی ایک بات بھی سُنائی دے رہی ہے‘ نہ پڑھنے ہی کو مل رہی ہے۔ میڈیا نے جھوٹ بول بول کر ایسا سِحر طاری کر رکھا ہے کہ بھارتی عوام ہر بات پر آنکھ بند کرکے یقین کرلیتے ہیں اور قومی قیادت بھی لطیفے بیان کرنے پر تُلی رہتی ہے۔ ونگ کمانڈر ابھینندن کی گرفتاری اور پاکستان کی جاری کردہ ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہو جانے کے بعد بھارتی وزارتِ خارجہ کی باضابطہ میڈیا بریفنگ بھی لطیفوں سے بھری تھی۔ سب سے بڑا لطیفہ ونگ کمانڈر ابھینندن کی گرفتاری سے واضح انکار کی صورت میں سامنے آیا۔ بھارتی پائلٹ کے بیان پر مبنی ویڈیو کو وائرل ہوئے کئی گھنٹے گزر چکے تھے ‘مگر وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ایک پائلٹ لاپتا ہے اور پاکستان نے اُسے حراست میں لینے کا دعویٰ کیا ہے! 
یہ تو ہوا بھارتی قیادت کا معاملہ۔ اب آئیے میڈیا کی طرف۔ ایک ہندی چینل پر اینکر مزے لے لے کر اُس ویڈیو کا تجزیہ کر رہا تھا جس میں ونگ کمانڈر ابھینندن نے چائے پیتے ہوئے سوالوں کے جواب دیئے ہیں۔ اینکر اہلِ وطن کو بتارہا تھا کہ ویڈیو میں دیکھیے ہمارا بہادر جوان کتنے اعتماد کے ساتھ ہر سوال کا جواب دے رہا ہے! اس ویڈیو کے تجزیے کے ذریعے قوم بتایا گیا کہ بھارتی فضائیہ کا ونگ کمانڈر دشمن کے قبضے میں ہوتے ہوئے بھی انتہائی بے فکری سے چائے پیتا رہا اور ٹھوس لہجے میں ہر سوال کا جواب دیتا رہا۔ ساتھ ہی اینکر نے قوم کو یہ ''نوید‘‘ بھی سُنائی کہ وایو سینا (فضائیہ) کے ہر جوان میں ایسا ہی ''ججبہ‘‘ پایا جاتا ہے! وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران ونگ کمانڈر ابھینندن کو چھوڑنے کے اعلان کو بھی بھارتی میڈیا نے بھارت ماتا کی فتح سے تعبیر کیا! یہ تک کہا گیا کہ عالمی برادری کے دباؤ پر آخر پاکستان کو ابھینندن کی رہائی پر مجبور ہونا پڑا ہے! ایک ونگ کمانڈر کی گرفتاری جیسی ذِلّت سے دوچار ہونے پر بھی بھارتی میڈیا پرسنز جو کچھ بَک رہے ہیں‘ اُس کے لیے انسان کو محض اندھا‘ گونگا اور بہرا ہی نہیں‘ بلکہ اچھا خاصا بے ضمیر بھی ہونا چاہیے! 
بادلوں نے تو تھک ہار کر بساط لپیٹ لی ہے۔ برف باری بھی خال خال رہ گئی ہے۔ ایسے میں بھارتی میڈیا کی مہربانی سے لطیفوں کا موسم چل رہا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ دشمن کے ہاتھ آجانے والے ابھینندن کو بھی قوم کا ہیرو قرار دیا جارہا ہے! چلئے‘ دنیا کو معلوم تو ہوا کہ کن کن حالات میں کسے کسے ہیرو قرار دیا جاسکتا ہے؛ اب‘ جبکہ ونگ کمانڈر ابھینندن کو بھارت کے حوالے کیا جاچکا ہے‘ کچھ بعید نہیں کہ بھارتی چینلز یہ دعویٰ بھی کر بیٹھیں کہ ہمارا ''ہیرو‘‘ پاکستان سے ایسے ہی واپس نہیں آگیا۔ اُسے ''کلیکشن مشن‘‘ پر بھیجا گیا تھا‘ یعنی دشمن کے بہت سے راز بھی ساتھ لایا ہے! 
بدھ کی صبح جب ابھینندن کو حراست میں لیا گیا تھا تب دن بھر کی جگت آزمائی کے بعد بھارتی میڈیا نے شام ہوتے ہوتے جنیوا کنونشن کی دہائی دینا شروع کیا تھا اور اس معاملے میں بھی قصور وار پاکستان ہی کو ٹھہرایا گیا تھا۔ لہجہ کچھ یوں تھا کہ پاکستان نے بھارتی پائلٹ پکڑا ہی کیوں اور یہ کہ اب جنیوا کنونشن کے provisions پر عمل کرنا پڑے گا تو لگ پتا جائے گا! انگریزی کی ایک بھارتی ویب سائٹ نے سرخی جمائی : 
Why Geneva Convention should guide Pakistan? 
یہ ایک جملہ بھارت کی اجتماعی بے ضمیری بیان کرنے کیلئے کافی ہے۔ پائلٹ کی گرفتاری پر شرمندہ ہونے کی بجائے اس بات پر بغلیں بجائی گئیں کہ جنیوا کنونشن کی شکل میں ایک ایسا نظام موجود ہے جس سے تھوڑی بہت عزت رہ جائے گی‘ یعنی بندہ تو واپس مل ہی جائے گا! بالا کوٹ میں بھارتی فضائیہ کی طرف سے حماقت کے مظاہرے کے بعد پاکستانی فضائیہ نے ‘جو کچھ کیا وہ پیشہ ورانہ مہارت ہی نہیں‘ حکمت ِ عملی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔ اِس سے بہت کچھ مترشّح ہوگیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بھارت قیادت اِس حقیقت کو بھول جائے کہ پاکستان آبادی اور رقبے کے اعتبار سے چھوٹا ہے۔ سوال حجم کا نہیں‘ طاقت کا ہے۔ 
انتہا پسند ہندوؤں کی سیاست نے بھارت کو اب تک اپنی شدید گرفت میں لے رکھا ہے۔ سیکولر عناصر بھارتی سیاست میں اپنی طاقت کا لوہا منوانے میں ناکام رہے ہیں۔ بھارتی عوام کی نفسیات میں پاکستان کو کھونٹے کی طرح گاڑ دیا گیا ہے۔ تمام تہذیبی اور اخلاقی اقدار کو ایک طرف ہٹاکر طے کرلیا گیا ہے کہ زندگی پاکستان سے بغض کی بنیاد پر گزاری جائے گی۔ کوئی بھی ریاست بغض کی بنیاد پر ترقی تو خیر کیا کرے گی‘ ڈھنگ سے جی بھی نہیں سکتی۔ ونگ کمانڈر ابھینندن کے معاملے میں بڑی طاقتوں نے فوری اور خاطر خواہ دلچسپی لے کر جنگی جنون کی آگ پر پانی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ چین‘ روس اور امریکا میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ پاکستان اور بھارت کوئی ایسی جنگ شروع کریں جس کی لپیٹ میں پورا خطہ آئے۔ امریکا کو افغانستان سے جان چھڑانے کی فکر لاحق ہے۔ ایسے میں وہ جنوبی ایشیا میں پھنسے رہنے کو قابلِ قبول آپشن کی حیثیت سے قبول نہیں کرسکتا۔ چین‘ روس اور سعودی عرب کا بھی بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے اور خود بھارت بھی تو جنگ کے سٹال سے صرف نقصان خرید سکے گا! 
ڈھٹائی اور بے شرمی کی ایک اور مثال۔ جمعرات کو بھارتی فضائیہ کے ایئر وائس مارشل آر جی کے کپور نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ونگ کمانڈر ابھینندن کو رہا کرنے کا پاکستانی وزیر اعظم کا اعلان خوش آئند ہے‘ مگر اسے خیر سگالی کا اقدام نہ سمجھاجائے‘ کیونکہ جنیوا کنونشن کے تحت پاکستان کو یہ کام تو کرنا ہی تھا! مزید یہ کہ جمعرات کو نئی دہلی میں سائنس دانوں سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ ذہن کی کجی آسانی سے نہیں جاتی۔ بھارت کے بڑھک باز وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جو کچھ بالا کوٹ میں کیا گیا وہ تو محض ''پائلٹ پراجیکٹ‘‘ تھا‘ اصل اور باضابطہ ایکشن کا انتظار کیجیے! اس کا مطلب یہ ہے کہ face-saving کیلئے مودی سرکار کوئی بھی ایسا اقدام کرسکتی ہے‘ جس سے تھوڑا بہت فائدہ بٹورا جاسکے۔ 
تو جناب‘ گھوم پھر کر ثابت یہ ہوا کہ جنوبی ایشیا کے چودھری صاحب یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ اُن کی دم پر پاؤں رکھا جائے۔ اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ ہمیں خوفزدہ ہوئے بغیر جیسے کو تیسا کے اصول پر عمل کرنا ہے۔ امن اور احترام سے بقاء یقینی بنانے کی یہی ایک صورت ہے۔ ع 
ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے‘ جو تم کروگے وہ ہم کریں گے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں