"MIK" (space) message & send to 7575

کیسے رات میں دِن سمجھوں …

صورتِ حال ہے ہی کچھ ایسی کہ 1974ء میں ریلیز ہونے والی ندیم اور نشو کی فلم ''نادان‘‘ یاد آئے بغیر نہ رہ سکی۔ یہ فلم 1970ء میں ریلیز ہونے والی دلیپ کمار اور سائرہ بانو کی فلم ''گوپی‘‘ کی نقل تھی۔ ''نادان‘‘ کی کہانی کچھ یوں ہے کہ بھولا (ندیم) واقعی بھولا بھالا ہے۔ اُسے دنیا داری کا کچھ پتا نہیں۔ قدم قدم پر لوگ اُسے بے وقوف بناتے رہتے ہیں اور وہ جب بھی دھوکا کھاتا ہے‘ دنیا کے چلن کی دہائی دیتا ہے۔ ''نادان‘‘ میں ندیم کیلئے احمد رشدی مرحوم کا گایا ہوا ایک گیت ملک بھر میں مقبول ہوا تھا۔ گانے کا مکھڑا تھا ''بھولا بھولا میرا نام‘ ہنسنا گانا میرا کام۔‘‘ اس گیت کے انترے میں خاصے معیاری اور کردار و کہانی سے غیر معمولی مطابقت رکھنے والے اشعار شامل تھے۔ ایک انترے میں بھولا کہتا ہے ؎ 
جو گورکھ دھندا نا جانے وہ بھولا کہلائے 
جو سچ بولے اس کل جُگ میں وہ جھوٹا کہلائے 
کیسے رات کو میں دِن سمجھوں‘ صبح کو سمجھوں شام 
اس وقت بھارت میں میڈیا میں رہتے ہوئے میڈیا کے گورکھ دھندے کو سمجھنے والے جتنے بھی بھولے ہیں وہ سچ بولنے کی پاداش میں جُھوٹے کہلا رہے ہیں۔ نریندر مودی اینڈ کمپنی کی لگائی ہوئی جنگی جنون کی آگ کے شعلوں کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنے والے ہر ''دانائے راز‘‘ کو سقراط قرار دے کر زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ سر پر سورج روشنی اور آگ برسا رہا ہے اور ریاستی فرمائش یہ ہے کہ روشنی اور تپش دونوں کا انکار کرتے ہوئے کہا جائے کہ ہر طرف تاریکی اور ٹھنڈک ہے۔ مودی اینڈ کمپنی کا فرمان ہے کہ سورج کی طرف دیکھ کر اُجالے کا انکار کیا جائے اور جو ایسا نہ کرے اُسے ''دیش دروہی‘‘ ٹھہرایا جائے۔ ابِھسار شرما‘ رویش کمار‘ برکھا دت‘ راج دیپ سردیسائی اور دوسرے بہت سے سرکردہ بھارتی میڈیا پرسنز کو صرف اس بات پر لعن طعن کا سامنا ہے کہ اُنہوں نے مسلسل جھوٹ بولنے اور جذبات کی رَو میں بہنے کی روش ترک کرتے ہوئے سچ کو سامنے لانے اور اہلِ وطن کو جنگی جنون پروان چڑھانے والوں کے اصلی چہرے دکھانے کی ٹھان لی ہے۔ 
ابِھسار شرما نے اپنے پرسنل ویب چینل پر بتایا ہے کہ جب سے اُنہوں نے قوم کو دھوکا دینے والے سیاست دانوں کو بے نقاب کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے‘ تب سے اُنہیں فون پر گالیاں ہی نہیں‘ قتل کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔ ذاتی فون نمبر پر گالیاں دینے والے یہ بھی نہیں جانتے کہ اُنہیں شکایت کس بات سے ہے۔ کسی کے کہنے پر کالز کی جارہی ہیں اور جو لوگ کالز کروا رہے ہیں‘ وہ اتنا بتانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کر رہے کہ بات کیا کرنی ہے۔ حکم ہے کہ گالیاں دی جائیں یا پھر دھمکی۔ برکھا دت کو بھی کچھ ایسے ہی سلوک کا سامنا ہے۔ اُنہیں تو انتہائی نازیبا تصاویر تک بھیجی گئی ہیں۔ اور جب انہوں نے یہ تصاویر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری کیں تو ٹوئٹر کی انتظامیہ کی طرف سے انتباہ آگیا کہ شائستگی کا خیال رکھیں‘ فحاشی نہ پھیلائیں! 
مودی اینڈ کمپنی نے طے کر رکھا ہے کہ کسی بھی بات سے سبق سیکھنا ہے‘ نہ اصلاح کی طرف مائل ہونا ہے۔ حد یہ ہے کہ ونگ کمانڈر ابھینندن ابھی پاکستان کی حراست ہی میں تھا کہ نئی دہلی میں سائنس دانوں کے لیے ایوارڈز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نے ''انتہائے ڈِھٹائی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو پائلٹ پراجیکٹ تھا‘ حقیقی کارروائی باقی ہے۔ اُنہوں نے وضاحت نہیں کی کہ کون سا معاملہ پائلٹ پراجیکٹ تھا ... بالا کوٹ میں ناکام فضائی حملہ یا پھر ڈاگ فائٹ کے نتیجے میں دو طیاروں کی تباہی اور ابھینندن کی گرفتاری! اگر مودی نے بالا کوٹ پر ناکام فضائی حملے کو پائلٹ پراجیکٹ قرار دیا ہے تو کیا حقیقی کارروائی میں صحرائے تھر کی ریت اڑائیں گے! اور اگر پائلٹ پراجیکٹ سے مراد ونگ کمانڈر ابھینندن کی گرفتاری تھا تو کیا اب مودی کا ارادہ پورے کے پورے ونگز کو گرفتار کرانے کا ہے! 
گفتگو اور بحث کے نام پر پاکستان کو لتاڑتے ہوئے تھوک اڑانے والے بھارتی ٹی وی اینکرز کو اب شدید الجھن کا سامنا ہے۔ سیاست دانوں نے اُنہیں لتاڑنا شروع کردیا ہے۔ جنگی جنون کو ہوا دینے والے اینکرز کو ہر طرف سے تنقید کا سامنا ہے۔ سوشل میڈیا پر امن کی پاکستانی پیشکش کا خیر مقدم کرنے والے نمایاں ہوتے جارہے ہیں۔ مودی اینڈ کمپنی کا لہجہ اب تک جارحانہ ہے ‘مگر میڈیا میں اچھی خاصی تبدیلی رونما ہوچکی ہے۔ پاکستان کی طرف سے دوستی اور امن کی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہوئے مودی سرکار کو آئینہ دکھانے والوں کو غدار قرار دیتے ہوئے وزارتِ اطلاعات نشریات کی طرف سے اظہارِ وجوہ کے نوٹس جاری کیے جانے سے معاملہ مزید بگڑ گیا ہے۔ جسٹس (ر) مرکنڈے کاٹجو‘ پروفیسر رام پُنیانی اور دیگر انصاف پسند دانشوروں نے حق کا ساتھ دینے والوں سے ایسے گندے سلوک پر شدید تنقید کی ہے۔ مرکنڈے کاٹجو نے تو جنگی جنون کی دھجیاں اڑانے والی منظوم پیروڈی بھی تیار کی ہے۔ 
تین دن قبل بھارت کی تینوں مسلح افواج کے سربراہوں نے مذاکرات برائے امن کی پاکستانی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ غیر ضروری جنگ سے حتی الوسع اجتناب برتا جائے گا۔ یہ بیانیہ مودی اینڈ کمپنی کے سَروں پر کھولتا ہوا پانی اُنڈیلنے کے مترادف ہے‘ جو لوگ ہر حال میں جنگ چاہتے ہیں وہ بھلا کیوں یہ چاہیں گے کہ مسلح افواج کے سربراہ امن کی بات کریں! جام نگر میں اجتماع سے خطاب کے دوران نریندر مودی نے بھارتی فضائیہ کی ناکامی کو پُرانے‘ ناکارہ مِگ 21 طیاروں کے کھاتے میں ڈال کر پوری فضائیہ کی پیشہ ورانہ مہارت پر سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کی۔ 
مودی اینڈ کمپنی کے لیے اِس وقت سب سے بڑا چیلنج تمام بنیادی ریاستی قوتوں کو ایک پیج پر رکھنا ہے۔ انتظامی مشینری جنگ کا راگ الاپ رہی ہے‘ مگر مسلح افواج اس بیانیے سے مکمل اتفاقِ رائے کے لیے تیار نہیں۔ سوال یہ نہیں کہ فوج جنگ کے لیے تیار ہے یا نہیں‘ بلکہ یہ ہے کہ غیر ضروری جنگ کیوں لڑی جائے اور وہ بھی محض اس لیے کہ وزیر اعظم کو اپنی پارٹی کی انتخابی فتح یقینی بنانی ہے! یہی سبب ہے کہ بھارتی فضائیہ نے بالا کوٹ میں جبہ کے مقام پر رات کی تاریکی میں کی جانے والی کارروائی کا ''کریڈٹ‘‘ لینے کی کوشش نہیں کی اور کالعدم جیش محمد کے 350 نام نہاد آتنک وادیوں کی ہلاکت سے متعلق دعووں سے بھی خود کو دور‘ بلکہ لاتعلق رکھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلح افواج جنگی جنون کے معاملے میں مودی اینڈ کمپنی کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں۔ ایسے میں کوئی فُل فلیجڈ یا آل آؤٹ جنگ‘ کیونکر چھیڑی جاسکتی ہے؟ 
بھارت بھر میں اب وہ لوگ نمایاں ہو رہے ہیں‘ جو یہ کہتے ہیں کہ رات کو دن یا دن کو رات کیسے سمجھ لیا جائے۔ زمینی حقیقت کو جُھٹلاکر یا اُس سے سراسر چشم پوشی برت کر کوئی کس طور ٹھوس لہجے میں بات کرسکتا ہے؟ یہ بات بھارت کے طول و عرض میں محسوس کی جارہی ہے‘ مگر مودی اینڈ کمپنی کے دماغوں کے تالے پڑے ہوئے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم اور اُن کے حاشیہ بردار اپنے دماغوں کو activate کریں اور ہر انتہائی زمینی حقیقت کے تقاضے نبھاتے ہوئے خالص دانش اور عاقبت اندیشی کا مظاہرہ کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں