"MIK" (space) message & send to 7575

اندرونی محاذ نظر انداز نہ کیا جائے

ایک بار پھر تھوڑی بہت ہلچل پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ ہلچل اندرونی بھی ہے اور بیرونی بھی۔ بیرونی معاملات پر تو ہمارا زیادہ بس نہیں چل سکتا۔ اندرونی معاملات کو البتہ کسی نہ کسی طور روکا یا قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔ اپوزیشن کسی بڑی مہم جوئی کے لیے پَر تول رہی ہے۔ پارلیمنٹ کی پیالی میں طوفان اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میثاق جمہوریت اچانک یاد آرہا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ حکومت نے احتساب کا بازار گرم کرنے کی تیاری کر رکھی ہے۔ جو اربوں روپے ڈکار کر پُرسکون بیٹھے ہوئے ہیں اُنہیں انصاف کے کٹہرے تک لانا حکومت اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے ٹھوس اور جامع پالیسی بنائی جانی چاہیے ‘تاکہ شکایات کا موقع رہے‘ نہ گنجائش۔ 
پاکستان کی مشکلات کم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ بھارت میں انتخابی شیڈول کا اعلان کردیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا کے انتخابات سات مراحل میں مکمل ہوں گے۔ مشکل یہ ہے کہ جب بھی بھارت میں انتخابات ہوتے ہیں‘ انتہا پسند ہندو جماعتیں پاکستان سے معاملات بگاڑ کر اُس بگاڑ کو انتخابی فوائد کے لیے استعمال کرنے پر تُل جاتی ہیں۔ اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ سیدھی سی بات ہے‘ انتخابی فوائد کے لیے ایک بار پھر پاکستان کو کسی نہ کسی حوالے سے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ محدود جنگ کی کوشش تو ناکام ہوچکی۔ مسلمانوں کو‘ آزمودہ حربے کے طور پر‘ البتہ پانچ سال سے پریشان کیا جارہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی طرف سے قدرے مایوس ہوکر اب انتہا پسند ہندو مسلمانوں کو مزید نشانے پر لیں گے اور اُن کے خلاف نفرت ابھار کر ووٹ بینک کو مستحکم تر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ گائے کی حفاظت کا معاملہ پھر اٹھادیا جائے۔ 
ایک بڑا مخمصہ یہ ہے کہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی دونوں ہی محاذوں پر کسی نہ کسی حوالے سے لڑنا پڑ رہا ہے اور دوسری طرف اپنی ہی صفوں میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو وقت اور حالات کی کسی بھی نزاکت کو سمجھنے اور درخورِ اعتناء سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ سیدھی سی بات ہے‘ جس نے برسوں انتہائی درجے کی کرپشن کے ذریعے اربوں بٹورے ہوں اور بیرون ملک جائیدادیں بنائی ہوں وہ بھلا کیسے برداشت کرے گا کہ اُس کی گردن میں احتساب کا پھندا ڈالا جائے۔ ایسے ہر انسان کی پوری کوشش ہوگی کہ اپنی جان بچانے کے لیے باقی پورے سماج کو جھوٹا اور ڈھونگی قرار دیا جائے اور ہر الزام کو مکمل طور پر مسترد کردیا جائے۔ یہی اس وقت وطن ِ عزیز میں ہو رہا ہے۔ 
جو کچھ خطے میں ہو رہا ہے‘ وہ پاکستان کو بھی مشکلات سے دوچار کر رہا ہے‘ ایک خاص حد تک گھیرے میں لے رہا ہے۔ خیر‘ یہ کیفیت خطے کے کم و بیش ہر ملک کی ہے۔ خارجی اثرات سے بچنا ایک خاص حد تک ہی ممکن ہے۔ کبھی کبھی حالات ایسا پلٹا کھاتے ہیں کہ پورے معاشرے یہ منظر دیکھ کر پلکیں جھپکانا بھول جاتے ہیں۔ ہم ایک بار پھر اُس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں سے کئی رستے نکلتے ہیں۔ جس راستے پر بھی ہم چلیں گے وہ ہمیں دوسرے تمام راستوں سے دور لے جائے گا؛ اگر منزل کے تعین میں غلطی ہوگئی تو بھٹک جانے کا احتمال ہے۔ خوب سوچنا ہے اور معاملات کو اچھی طرح سمجھ کر کوئی فیصلہ کرنا ہے۔ ایک بار پھر معاملات ''ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ کی منزل میں اٹک گئے ہیں۔ ہمارے پالیسی میکرز کو درست فیصلے کرنے ہیں اور تیزی سے کرنے ہیں۔ وقت کم اور مقابلہ سخت کی یہ کیفیت ہمارے حواس اور اعصاب دونوں کا امتحان لے رہی ہے۔ 
پاکستان میں بھی نئی حکومت ہے اور بھارت میں بھی انتخابات کے نتیجے میں یا تو نئی حکومت قائم ہوگی یا پھر بھارتیہ جنتا پارٹی زیادہ طاقتور ہوکر ابھرے گی؛ اگر بھارت واسیوں نے اپنا بھلا نہ چاہا ‘یعنی ایک بار پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار سونپا تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خطے میں کتنے بڑے پیمانے پر خرابیاں پھیلیں گی اور پھیلائی جائیں گی۔ ایسے میں ہمارے پاس صرف ایک آپشن رہ گیا ہے ... یہ کہ اندرونی سطح پر استحکام غیر معمولی ہو۔ تمام ریاستی اداروں اور سیاسی قیادت کا ایک پیج پر رہنا لازم ہے۔ اس حوالے سے برتا جانے والا تساہل قومی سطح پر مزید خلفشار کا سبب بنے گا۔ 
اب کے یومِ پاکستان انتہائی شاندار انداز سے منانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتر محمد کو مرکزی تقریب کے مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آخری لمحات میں ترک صدر رجب طیب اردوان بھی تشریف لائیں۔ ویسے ترکی کے ایف 16 طیاروں کی شرکت کی انٹری طے شدہ ہے۔ یہ سب لازم ہے تاکہ بھارت کو یہ پیغام جائے کہ ہم نا صرف یہ کہ پُرعزم ہیں‘ بلکہ دوسروں کو بھی اس خطے کے حقیقی استحکام کے حوالے سے ہم پر اعتبار و اعتماد ہے۔ 
جب خطے کے معاملات اس نہج تک پہنچ گئے ہوں تو درونِ خانہ اختلافات کو ہوا دینے اور سیاسی سطح پر مہم جوئی کی زیادہ گنجائش باقی نہیں رہتی۔ حکومت ہو یا اپوزیشن ... دونوں ہی کو منہ کے فائر کرنے والوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ میڈیا کے محاذ پر خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا کرنے سے یکسر گریز کی صورت ہی میں قومی استحکام کا یقینی بنایا جانا ممکن ہے‘ جو کچھ پاکستان کے حوالے سے سوچا جارہا ہے ‘وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ بھارت نے مولانا مسعود اظہر کے معاملے کو اب تک ڈھیلا نہیں چھوڑا ہے۔ اُس کی پوری کوشش ہے کہ بڑی طاقتوں کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرلیا جائے۔ یہ تو چین ہے جو اب تک ساتھ نبھا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سے چین کے مفادات وابستہ ہیں ‘مگر پھر اس بات کی داد تو دینا ہی پڑے گی کہ عالمی برادری کی رائے کو ایک طرف ہٹاکر چین ہمارے معاملے میں کسی حد تک ''آؤٹ آف دی وے‘‘ جارہا ہے۔ 
سعودی عرب اور یو اے ای دونوں ہماری طرف متوجہ ہوئے ہیں تو اُن کے بھی مفادات ہیں ‘جن کا حصول یقینی بنانے میں ہم معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ وقت بہت اہم ہے‘ کیونکہ مسلم دنیا ہی نہیں‘ بلکہ باہر کے لوگ بھی ہماری طرح دیکھ رہے ہیں۔ یہ وقت روس سے دوستی مستحکم تر کرنے کا تو ہے۔ وسطی ایشیا کے حوالے سے بھارت کو اب تک زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔ ایسے میں ہمیں اِس غیر معمولی ''سفارتی منڈی‘‘ میں اپنے مفادات کو تقویت بہم پہنچانے والے سودے تیزی سے طے کرنے پر خاطر خواہ توجہ دینا ہوگی۔ 
پاکستان کو محض آلہ بنے رہنے کی بجائے مشین یا مشینری بننے کو ترجیح دینا ہوگی۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ملک میں تمام سیاسی کھلاڑی کھیل کو جاری رکھنے پر متوجہ رہیں۔ معاملات کو بگاڑنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ میڈیا کو نئے انداز اور نئی ترجیحات کے ساتھ بروئے کار لانے کی بھی ضرورت ہے۔ دو عشروں کے دوران میڈیا کو استعمال کرنے کے نام پر محض رگڑا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کو مذموم مقاصد کے لیے بروئے کار لانے کا جو نتیجہ برآمد ہوا کرتا ہے‘ وہی نتیجہ ہمارے ہاں میڈیا کے حوالے سے بھی برآمد ہوا ہے۔ یہ کھیل اب بند ہونا چاہیے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ سیاست کی ڈگر بھی تبدیل کی جائے۔ سیاست کے نام پر محض تماشے لگانے اور ذاتی مفادات کا حصول یقینی بنانے کی روش کسی بھی طور قومی مفاد میں نہیں۔ بات یہ نہیں ہے کہ اندرونی محاذ بھی توجہ چاہتا ہے‘ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اندرونی محاذ زیادہ توجہ کا طالب ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں