"MIK" (space) message & send to 7575

نیا جُنون‘ نیا محاذ

گھاس اب تک جانوروں کیلئے ہے۔ انسان بھی کہیں گھاس کھاتے ہیں؟ آپ نے کسی کو گھاس کھاتے دیکھا ہے؟ یقینا نہیں‘ مگر یہ بھی ایک حیرت انگیز و تلخ حقیقت ہے کہ بہت سے لوگ کسی کو بتائے بغیر گھاس کھاتے ہیں۔ یہ عمل لاشعوری نوعیت کا ہے‘ یعنی اُن کی طرزِ فکر و عمل ایسی ہوتی ہے‘ گویا گندم نہیں‘ گھاس کھاتے ہیں! 
کسی بھی ناپسندیدہ صورتِ حال سے نمٹنے کیلئے انسان کو دانش سے کام لینا پڑتا ہے۔ دانش سے کام لینے کی صورت ہی میں معاملات سے بااحسن و خوبی نمٹا جاسکتا ہے۔ ہمارا کوئی بھی فیصلہ حالات اور تناظر کے تابع ہوتا ہے۔ ہم بہت کچھ سوچتے ہیں ‘مگر وہ سب کچھ بیان نہیں کردیتے۔ اسی طور ہم بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں ‘مگر لازمی طور پر کر گزریں‘ ایسا نہیں ہوتا۔ 
ہماری بات چاہے کسی بھی راستے پر چل رہی ہو‘ پاک بھارت تعلقات کا دو راہا‘ تِراہا یا چو راہا بیچ میں آہی جاتا ہے۔ خطے کی صورتِ حال کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ اپنے بارے میں سوچتے وقت پڑوسیوں کے حوالے سے بھی سوچنا‘ بلکہ متفکر ہونا ہی پڑتا ہے۔ یہی نہیں‘ سب سے بڑے پڑوسی کے بارے میں تو مسلسل سوچنا پڑتا ہے۔ فروری کے آخری دنوں میں آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ ہم نے تو پڑھا ہی بھارت کو ہے۔ سب سے بڑے دشمن کی حیثیت سے بھارت کو ہر زاویے سے پڑھنا اور پرکھنا فوج کے لیے تو لازم ہے ہی‘ عام پاکستان بھی بھارت کو نظر انداز کرکے جی نہیں سکتا۔ گویا بقول فرید جاوید مرحوم ع
گفتگو کسی سے ہو تیرا دھیان رہتا ہے 
اور یہ ٹریفک ون وے نہیں۔ بھارت میں بھی اگر کسی کو پڑھا جاتا ہے‘ تو وہ ہم ہیں۔ وہ بھی بات چاہے کہیں سے چلی ہو‘ تان ٹوٹتی ہے پاکستان پر۔ بھارت کی قیادت یا ہو یا عوام‘ سب کا ایک ہی رونا ہے ... یہ کہ پاکستان کسی بھی معاملے میں کسی حد تک بھی امن و سکون سے رہے تو کیوں رہے! جب بھی پاکستان کے لیے کسی بھی اعتبار سے امن و استحکام کی راہ ہموار ہونے لگتی ہے‘ نئی دہلی کے فیصلہ ساز راشن پانی اور بوریا بستر لے کر چڑھ دوڑتے ہیں۔ 
کالم شروع ہوا تھا گھاس کھانے کے ذکر سے۔ ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران بھارت میں جو کچھ ہوا ہے اور بھارتی قیادت کے ساتھ ساتھ میڈیا نے بھی جو رویہ اختیار کیا ہے‘ اُس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ گندم سے پیٹ بھرنے اور گھاس چَرنے میں کتنا کم فرق ہے! انسان جب صورتِ حال کے تقاضوں کو یکسر نظر انداز کر بیٹھے اور سوچے سمجھے بغیر فیصلے کرنے پر تُل جائے تو کہا جاتا ہے کہ متعلقہ فرد کی عقل گھاس چَرنے گئی ہوئی ہے۔ فیصلوں کی نوعیت ہی بتاتی ہے کہ وہ گھاس چرنے کا نتیجہ ہیں یا گندم کھانے کا۔ 
خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال ؛چونکہ بھارت کے خلاف جارہی ہے ‘اس لیے بھارتی قیادت‘ فوج‘ میڈیا اور عوام کا غیر معمولی حد تک بے حواس ہو جانا اور انتہائی نامعقول حرکتوں پر اُتر آنا کسی بھی اعتبار سے حیرت انگیز نہیں۔ اسٹریٹیجک سطح پر بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے‘ مگر بھارتی ذہن اب تک بیس تیس سال پہلے کی دنیا میں الجھا ہوا ہے۔ دنیا بدل چکی ہے۔ معاملات کچھ کے کچھ ہوچکے ہیں۔ مفادات کی نوعیت اور حجم دونوں میں ہوش رُبا تبدیلی واقع ہوچکی ہے‘ پھر بھی بھارت کے عالی دماغ کچھ سوچنے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ تین ہفتے پہلے ہی کی بات ہے کہ سوچے سمجھے بغیر جنگی جنون کو پروان چڑھایا گیا اور پھر پاکستان کے ہاتھوں منہ توڑ جواب ملنے پر چُپ سادھ لی گئی۔ اب چین کے معاملے پر پیالی میں طوفان اٹھایا جارہا ہے۔ 
مولانا مسعود اظہر کے معاملے پر چین کا پاکستان کے ساتھ کھڑے رہنا‘ اب بھارت کیلئے ناقابلِ برداشت ہوتا جارہا ہے۔ نئی دہلی کے پالیسی میکرز اچھی طرح جانتے ہیں کہ چین کو دبایا جاسکتا ہے‘ نہ پاکستان کی حمایت سے باز رہنے پر مجبور ہی کیا جاسکتا ہے۔ خطے میں اسٹریٹجی کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ کسی بھی ذی ہوش کو پریشان کرنے کیلئے کافی ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دیا جائے۔ اس حوالے سے سلامتی کونسل کی قرارداد کا چین کی جانب سے ویٹو کیا جانا بھارت کیلئے افسوس ناک ضرور ہے‘ حیرت انگیز نہیں۔ اس کے باوجود دیدہ و دانستہ گھاس چَرنے کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ چین کو پاکستان کی حمایت سے باز رہنے پر تو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں‘ پیالی میں طوفان ضرور اٹھایا جاسکتا ہے اور اٹھایا جارہا ہے۔ 
کنفیڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈرز کے صدر وپن آہوجا کی کال پر بھارت بھر میں چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع کی گئی ہے۔ منگل 19 مارچ کو بھارت کے طول و عرض میں 1500 مقامات پر چینی مصنوعات کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ متعدد مقامات پر چینی مصنوعات کو نذرِ آتش بھی کیا گیا۔ 
چھوٹے تاجر بہت پریشان ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی کی دکان میں لاکھوں روپے مالیت کے چینی آئٹم بھرے ہوئے ہیں تو وہ کیا کرے؟ چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی صورت میں ہونے والا خسارہ کون پورا کرے گا؟ عام دکانداروں کا کہنا ہے کہ چین کی مصنوعات اتنی سستی ہیں کہ بھارتی صنعت کار اُن سے مقابلہ کر ہی نہیں سکتے؛ اگر درآمدی ڈیوٹی میں اضافہ کردیا جائے تب بھی مقابلے کی صلاحیت کا پیدا ہونا دشوار ہے۔ اس وقت بھارت کی مارکیٹس میں پایا جانے والا 90 فیصد مال چینی ساخت کا ہے۔ گویا بھارت چینی مال کے لیے ڈمپنگ گراؤنڈ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ 
کنفیڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈرز نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ چینی درآمدات پر ڈیوٹی میں 350 تا 500 فیصد اضافہ کیا جائے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چین اپنا مال کتنی کم قیمت پر فراہم کر رہا ہے! یہ سب کچھ ٹیکنالوجی اور حجم کی بنیاد پر ممکن ہوسکا ہے؛ اگر بھارت یا کسی بھی اور ملک کو چین سے لڑنا ہے تو ٹیکنالوجی اور نظم و نسق کی سطح پر لڑنا ہوگا۔ پابندی اور بائیکاٹ سے وقتی طور پر تو کچھ ریلیف کا حصول ممکن ہے‘ مگر حتمی طور پر دال نہیں گلے گی‘ جنہیں اپنی محنت کی کمائی کے عوض اچھا مال بہت کم قیمت پر ملے گا ‘وہ بھلا کیوں دست بردار ہوں گے؟ 
بھارت اور چین کے درمیان تجارت اتنے چھوٹے پیمانے کی نہیں کہ راستے ہی میں چھوڑ دی جائے‘ نظر انداز کی جائے۔ 2018ء میں بھارت کے چھوٹے بڑے تاجروں نے چین سے 53 ارب 87 کروڑ ڈالر کا مال درآمد کیا! بھارت بھر میں کروڑوں افراد چین کے سستے مال سے اپنی زندگی آسان بنائے ہوئے ہیں۔ محض سرسری طور پر سوچ لینے سے چین کو ایک طرف ہٹانا کس طور ممکن ہے؟ بھارتی قیادت کو ایسی کسی بھی حماقت سے قبل ممکنہ عواقب و نتائج کے بارے میں سوچنا ہی چاہیے۔ لڑنے کی طاقت نہ ہو تو محاذ کھولتے جانے کو حماقت ہی قرار دیا جائے گا۔ مولانا مسعود اظہر کے معاملے پر چین سے اس قدر خار کھانا بے عقلی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے‘ جبکہ بھارتی قیادت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ چین سے ترکِ تعلق سیاسی‘ معاشی اور اسٹریٹیجک تینوں سطحوں پر خود کشی کے سوا کچھ نہیں۔ نئی دہلی کے دانا نظر رکھیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹی وی سٹوڈیوز کے جنگجو سردار‘ چین کے خلاف بھی جنگی جنون بھڑکانے کی طرف نکل جائیں اور پھر یہ معاملہ فوج کے حلق میں ہڈی بن کر پھنس جائے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں