"MIK" (space) message & send to 7575

چیخیں‘ لات اور کڑوے گھونٹ

چینلز ایسی خبریں چلا رہے ہیں کہ پڑھ اور سُن کر دل دہل جاتے ہیں‘ ذہن تشویش کے دریا میں غوطے کھانے لگتے ہیں۔ ایک آدھ گھنٹے کے لیے ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھیے تو ایسا لگتا ہے کہ کہیں کچھ بھی اچھا نہیں چل رہا‘ ہر معاملہ اپنی جگہ چھوڑ چکا ہے۔ سیاست ہو یا سفارت‘ معیشت ہو یا معاشرت ... ہر طرف سے اور ہر معاملے میں دل دہلا دینے والی ہی خبریں آرہی ہیں‘ جنہیں قدرت نے ذرا فیّاضی کے ساتھ حسّاسیت سے نوازا ہے‘ وہ بے چارے پریشان ہیں ‘کیونکہ رہ رہ کر دِل میں ہَول اٹھتے ہیں۔ ع 
کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ویسا نہ ہو جائے 
وفاقی وزیر خزانہ نے (شاید وزیر اعظم کی نقل کرتے ہوئے!) بولنے کے معاملے میں احتیاط نہ برتتے ہوئے چند ایسی باتیں کہہ دی ہیں کہ اب اُن باتوں کے حوالے سے مُوشِگافیوں کا سلسلہ جاری ہے‘ مثلاً :اسد عمر کا یہ کہنا غضب ڈھاگیا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ سے پیکیج نہ لیا گیا تو ملک کے دیوالیہ ہو جانے کا خدشہ ہے۔ لوگ حیران ہیں کہ اس اہم منصب پر ایسے نازک حالات میں اس نوع کی ڈھیلی ڈھالی بات کہنے کی ضرورت کیا تھی؟ ناقدین کہتے ہیں کہ اس بیان سے پاکستان کے دشمن ضرور خوش ہوئے ہوں گے۔ بات کچھ غلط بھی نہیں۔ معیشت کی جو کچھ بھی کیفیت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی ہرگز نہیں۔ ایسے میں دیوالیہ پن سے متعلق غیر ذمہ دارانہ بیان پر دشمن بغلیں نہیں بجائیں گے ‘تو کیا اپنے سَر پر خاک ڈالیں گے! 
چینلز پر معیشت کی خرابیوں سے متعلق اتنی اور ایسی خبریں آرہی ہیں کہ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے وعدوں اور دعووں پر سے بھروسہ اٹھتا جاتا ہے۔ ملک کے عمومی معاشی حالات پر نظر ڈالیے تو مختلف حلقوں کے خدشات درست ثابت ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ مہنگائی کا جن بوتل میں واپس جانے کو تیار نہیں۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث روزمرہ استعمال کی اشیاء عوام کی دسترس سے اُسی طور باہر ہوتی جارہی ہیں‘ جس طور ہاتھوں سے طوطے اڑ جاتے ہیں۔ ضرورت کی تمام اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ قیمتیں آسمان سے کیا باتیں کر رہی ہیں‘ اس کا علم حکومت کو ہے‘ نہ ماہرین کو۔ ہاں!ان باتوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کا پوچھنا ہے ‘تو عوام سے پوچھئے کہ جھیل تو وہی رہے ہیں۔ ایک طرف معیشت کو مضبوط تر بنانے کے دعوے ہیں اور دوسری طرف اپوزیشن طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ گڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو کی چالیسویں برسی کے موقع پر خطاب میں پی پی پی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے دو ٹوک لہجے میں کہہ دیا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم سے کِھلواڑ کی گئی تو وہ لات مار کر حکومت گِرادیں گے۔ اس مرحلے پر ''لات‘‘ کا مطلب حکومت اچھی طرح جانتی ہے‘ تب ہی تو وزیر اعظم نے معاملے کی حسّاسیت کو بھانپتے ہوئے آن کی آن میں ایم کیو ایم سے ''نظریاتی ہم آہنگی‘‘ کا انکشاف انگیز اعتراف کیا ہے! اور معاملہ محض ''نظریاتی ہم آہنگی‘‘ کی منزل میں نہیں رُکا ‘بلکہ وزیر اعظم عمران خان نے آئندہ الیکشن میں ایم کیو ایم کے ساتھ میدان میں اُترنے کا عندیہ بھی دیا ہے! ع 
تھا جو ناخوب‘ بس اِک آن میں وہ خوب ہوا! 
یہ تو ہوا بات کو ذرا شائستگی سے بیان کرنے کا معاملہ۔ ایک زمانہ تھا جب ہم شاعری کے حوالے سے کچھ زیادہ شعور نہیں رکھتے تھے اور کسی بھی بات کو عامیانہ انداز سے بیان کرنے والے اشعار بڑی تعداد میں ازبر تھے۔ تب کا ایک شعر یاد آرہا ہے ‘جو کچھ یوں تھا: ؎ 
کون کہتا ہے کہ محبوب مِرا گنجا ہے 
چاند کے سَر پہ کہیں بال ہوا کرتے ہیں
خیر‘ یہ شعر تو جملۂ معترضہ کے کھاتے میں تھا۔ بات کتنی عجیب ہے کہ کل تک جن سے شدید اختلافات تھے اب وزیر اعظم عمران خان کو اُن کے معاملے میں اس حد تک ملائمت کا اظہار کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے! ؎ 
اُس نقشِ پا کے سجدے نے کیا کیا کِیا ذلیل 
میں کوچۂ رقیب میں بھی سَر کے بل گیا
ٹھیک ہے‘ سیاست میں دوستی حتمی ہوتی ہے نہ دشمنی۔ حریف کسی بھی لمحے حلیف ہوسکتا ہے مگر پھر بھی ماضی تو باقی ہی رہتا ہے اور لوگ ہر معاملے پر سوالیہ نشان لگا ہوا دیکھتے ہیں۔ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے اجتماع سے خطاب میں قوم کو دلاسا دیا کہ اب زیادہ دن انتظار نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ حکومت کو رخصت کرنے کے لیے میدان میں آنے کا وقت آگیا ہے۔ بات عجیب سی ہے۔ ابھی تو پارٹی شروع بھی نہیں ہوئی۔ حکومت نے ابھی تو سارے پوٹلے بھی نہیں کھولے ہیں۔ ایسے میں اپوزیشن کو کس بات کی جلدی ہے کہ حکومت کے لیے ۔ع 
آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے 
والی کیفیت پیدا کرنا چاہتی ہے؟ کیا ملک ایسی کسی سیاسی مہم جُوئی کا متحمل ہوسکتا ہے؟ اور اگر ایسا کچھ کرنے کی کوشش کی گئی تو علاقائی و عالمی برادری میں ملک کی بچی کھچی ساکھ کا کیا بنے گا؟ حکومت کو بوریا بستر گول کرنے پر مجبور کرنے کے شوقین تو اپنا شوق پورا کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے پر تُل سکتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے کے عواقب کیا ہوں گے اور اُن کے نتیجے میں ملک کہاں کھڑا رہ جائے گا۔ 
کہا جارہا ہے کہ قوم کو ابھی ڈیڑھ دو سال تک کڑوے گھونٹ پینے پڑیں گے۔ ٹھیک ہے‘ حکمرانی کا گراف بلند کرنے کے نام پر جو کچھ کیا جارہا ہے اُس کے نتیجے میں ایسا تو ہونا ہی ہے۔ اور ویسے بھی کڑوے گھونٹ پینا ہمارے لیے کون سی نئی بات ہے؟ سات عشروں سے ہم یہی تو کر رہے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ دلاسے دے دے کر دھوکا دیا جاتا رہا ہے۔ اگر نیت کے اِخلاص کے ساتھ کچھ کرنا ہے تو کیجیے۔ اِس کے نتیجے میں جو بھی مصیبت آئے گی وہ قوم جھیل ہی لے گی۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ نیت کا اِخلاص نظر آتا ہے نہ سنجیدگی۔ ہوا میں تیر چلائے جارہے ہیں۔ کسی نکتے پر وضاحت طلب کیجیے تو آئیں بائیں شائیں کرنے سے کام چلایا جارہا ہے۔ میڈیا کے ڈھابے پر بیٹھ کر چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ملک کسی بھی نوع کی سیاسی محاذ آرائی یا مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ حکومت کو گِرانے سے کئی قدم آگے جاکر ملک کو اُس کے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ 
آج کل اچانک چیخوں کا بھی فیشن آگیا ہے۔ چیخوں کے حوالے سے طرح طرح کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ فیصلہ کن اقدامات سے مافیا کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ اپوزیشن کہتی ہے حکومتی اقدامات سے عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چیخیں تو معیشت کی نکل رہی ہیں۔ وہ بے چاری چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ میرے لیے کچھ کرو۔ جو کچھ معیشت کے لیے کیا جارہا ہے وہ دِکھنے میں تو بہت ہے مگر عملی سطح پر نتائج کے حوالے سے خاصا کم ہے۔ ہوش کے ناخن لینے کا وقت آگیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ایک دوسرے کی چیخیں نکلوانے کا بازار تھوڑا ٹھنڈا کرکے معیشت کی چیخوں پر توجہ دینی چاہیے تاکہ قوم کے نصیب میں آنے والے کڑوے گھونٹ کم کچھ ہوسکیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں