"MIK" (space) message & send to 7575

The Unpaid Extra

بر صغیر میں فلمی اداکاری کے حوالے سے اگر چند نمایاں ترین شخصیات کی فہرست بنائی جائے تو ٹاپ ٹین میں پرتھوی راج کپور بھی شامل ہوں گے۔ پشاور کے دیوان وشویشور (بشیشر) ناتھ سنگھ کپور کے ہاں پیدا ہونے والے پرتھوی راج کپور نے اپنی گرج دار آواز کی مدد سے متعدد فلموں میں ایسی لاجواب اداکاری کی کہ دنیا آج تک نہیں بھولی۔ 1942ء کی فلم ''سکندر‘‘ اور 1958ء میں ریلیز ہونے والی ''مغلِ اعظم‘‘ کے حوالے سے انہیں خصوصی طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ''سکندر‘‘ میں وہ یونانی شہنشاہ بنے اور لوگوں نے سوچا کہ اصل سکندر بھی کچھ ایسا ہی ہوگا! پرتھوی راج کپور نے ''مغلِ اعظم‘‘ میں شہنشاہِ ہند جلال الدین محمد اکبر کا کردار ایسے منفرد انداز سے ادا کیا کہ اُن کی ڈائیلاگ ڈلیوری کو آج بھی ایکٹنگ انسٹی ٹیوٹس میں نمونے کے طور پر پیش کیا اور پڑھایا جاتا ہے۔ 
پرتھوی راج کپور کے والد دیوان وشویشور ناتھ سنگھ کپور اور یوسف خان (دلیپ کمار) کے والد لالہ سرور خان پشاور میں ''ہم علاقہ‘‘ تھے۔ جب پرتھوی راج کپور نے فلموں میں کام کیا تو سرور خان نے وشویشور ناتھ کا تمسخر اڑایا۔ کچھ مدت کے بعد جب اُن کا اپنا بیٹا یوسف خان فلموں میں آیا تو تمسخر اڑانے کی باری وشویشور ناتھ کی تھی۔ خیر‘ بات ہو رہی ہے پرتھوی راج کپور کی۔ 1969ء میں ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے بتایا کہ انہوں نے پہلی بار کیمرے کا سامنا یکم اکتوبر 1929 ء کو ممبئی کے امپیریل سٹوڈیوز میں کیا تھا۔ فلموں میں کام کرنے کا شوق لیے وہ سٹوڈیو پہنچے تو وہاں ایک خاموش فلم کی شوٹنگ ہو رہی تھی۔ پرتھوی راج کپور کو بھی کیمرے کے سامنے کھڑے ہونے والوں میں شامل کرلیا گیا۔ اور محنتانہ؟ پرتھوی راج کپور نے بتایا کہ پہلی بار میک اپ تھوپ کر کیمرے کے سامنے کھڑے ہونے کا معاوضہ صفر تھا! انہیں ''ان پیڈ ایکسٹرا‘‘ کے طور پر سکرین کی زینت بننے کا موقع ملا۔ یعنی یہ کہ صرف شوق پورا کیا گیا۔ 
کیمرے کے سامنے‘ آمدنی کے اعتبار سے‘ اپنی کارکردگی صفر سے شروع کرنے والے پرتھوی راج کپور نے فلمی دنیا میں اس طور قدم جمائے کہ دنیا دیکھ کر حیران رہ گئی۔ ان سے تحریک پاکر ان کے چھوٹے بھائی ترلوک کپور نے بھی فلموں میں کام کیا۔ 1946ء میں وہ (ترلوک کپور) ملکۂ ترنم نور جہاں کے ساتھ ''مرزا صاحباں‘‘ میں سلور سکرین پر نمودار ہوئے۔ پھر پرتھوی راج کپور کے بیٹوں راج کپور‘ شمی کپور اور ششی کپور نے فلموں میں انٹری دی۔ راج کپور کے بیٹوں رندھیر کپور‘ رشی کپور اور راجیو کپور نے بھی فلموں میں اداکاری کی۔ رشی کپور زیادہ کامیاب رہے۔ راج کپور کی بیٹی ریما نے بھی اداکاری کے شعبے میں اپنی سی کوشش کی۔ رندھیر کپور کی بیٹیوں کرشمہ اور کرینا نے بھی سلور سکرین کی زینت بننے کو ترجیح دی اور خوب نام کمایا ہے۔ رشی کپور کا بیٹا رنبیر کپور بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑتا جارہا ہے۔ ''ان پیڈ ایکسٹرا‘‘ کی حیثیت سے فلمی دنیا میں قدم رکھنے والے پرتھوی راج کپور کے فن کا سفر پڑپوتیوں اور پڑپوتے تک پہنچا ہے۔ ؎ 
دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوئے 
دور تک نگاہوں میں ہیں گل کھلے ہوئے 
پرتھوی راج کپور نے اپنے سفر کی ابتدا کے حوالے سے جو کچھ بتایا تھا اسے بیان کرنے کا مقصد صرف یہ دکھانا ہے کہ کامیابی کا سفر چاہے جتنا بھی شاندار ہو‘ شروع تو وہ ایک قدم ہی سے ہوتا ہے۔ پرتھوی راج کپور اگر پہلے ہی قدم پر شرماگئے ہوتے یا یہ سوچتے کہ ایسے کام کا کیا فائدہ جس میں سے کچھ ملنے والا ہی نہیں تو برصغیر کی فلم انڈسٹری ایک عظیم اداکار سے محروم رہ جاتی۔ محض ایکسٹرا کی حیثیت سے‘ اور وہ بھی کسی معاوضے کے بغیر‘ فلمی دنیا میں قدم رکھنے والے پرتھوی راج کپور کو پہلی کامیابی تک پہنچنے کے لیے خاصی محنت کرنا پڑی۔ انہوں نے خاموش فلموں کے بعد بولتی فلموں (ٹاکیز) میں کام کیا ‘تب کہیں جاکر ان کے جوہر کو پہچانا گیا۔ انہیں خطے کی پہلی بولتی فلم ''عالم آرا‘‘ میں کام کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اس فلم میں نغمات بھی تھے۔ برصغیر کا پہلا فلمی گیت ''دے دے خدا کے نام پہ‘‘ تھا جو اداکار وزیر محمد نے گایا تھا۔ اس نے فلم میں فقیر کا کردار ادا کیا تھا۔ تو جناب‘ پرتھوی راج کپور بھرپور کامیابی کے حصول تک ذرا بھی مایوس نہیں ہوئے اور پوری دل جمعی کے ساتھ کام کرتے رہے۔ 
ہر دور میں جب نوجوان عملی زندگی کا آغاز کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں چند خواب ہوتے ہیں۔ ان خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے غیر معمولی محنت کرنا پڑتی ہے۔ اور یہ بھی طے ہے کہ ابتداہی میں غیر معمولی کامیابی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ کبھی کبھی کسی کو محض اتفاق سے اپنی پہلی ہی کاوش سے غیر معمولی کامیابی مل جاتی ہے‘ مگر خیر اسے کلیے کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔ 
سفر چھوٹا ہو یا بڑا‘ پہلے قدم سے شروع ہوتا ہے۔ سفر شروع کرنے سے پہلے ہم چاہے جتنی بھی تیاری کریں اور چاہے جتنا سوچیں‘ لوگ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ہم نے ابتدا کیسے کی اور پھر آگے کیسے بڑھے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جن کے دل میں کچھ بننے اور کر گزرنے کی امنگ ہوتی ہے وہ کبھی ابتدائی الجھنوں کی پروا نہیں کرتے اور پوری دل جمعی کے ساتھ کام کرتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ 
اٹھتی ہوئی عمر میں انسان بہت کچھ سوچتا ہے اور بہت کچھ کرنا چاہتا ہے۔ اپنے تمام خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی خواہش کا غلام ہوکر وہ یہ بھول جاتا ہے کہ ہر دن کے بعد رات ہوتی ہے۔ اور ہر رات کے بعد پھر دن نکلتا ہے۔ ہمیں اسی نظام کے ساتھ چلنا ہوتا ہے۔ قدرت نے زندگی کا میلہ اس اہتمام کے ساتھ سجایا ہے کہ کامیابی کے ساتھ کبھی کبھی ناکامی کا بھی منہ دیکھنا پڑے اور ہر شیرینی کے ساتھ تھوڑی سی تلخی بھی ہو۔ مثبت‘ منفی‘ دھوپ چھاؤں‘ اچھا‘ بُرا‘ ٹھنڈا‘ گرم ... یہ کھیل یوں ہی جاری رہتا ہے۔ اور ہمیں یہ سب کچھ قبول کرتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ نہ کسی کے لیے صرف آسانیاں ہوتی ہیں اور نہ کسی کے لیے صرف مشکلات۔ 
کامیابی کی منزل تک پہنچنے کی انتہائی بنیادی شرط ہے سفر کا آغاز کرنا۔ اور سفر کے آغاز سے قبل ذہن کو اچھی طرح تیار رکھنا چاہیے کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ عملی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ ہر ابتدا چند ایک مشکلات سے مزین ہوتی ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ چند ایک مشکلات سے نبرد آزما ہوتے ہوئے ہی آگے بڑھنا ممکن ہوتا ہے۔ کوئی اگر منہ میں سونے کا چمچا لے کر پیدا ہو تب بھی الجھنوں کا سامنا تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ پرتھوی راج کپور نے بہت محنت کی۔ اُن کی اولاد کو یقیناً بہت سی الجھنوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا مگر خیر‘ بھرپور کامیابی کے لیے محنت تو انہیں بھی بہت کرنا پڑی۔ کامیاب ہونے کے لیے صرف اتنا کافی نہیں تھا کہ وہ پرتھوی راج کپور کے بیٹے ہیں۔ کیمرے کی آنکھ کہتی ہے کچھ کرکے دکھاؤ تو میں دنیا کو تمہارا جلوہ دکھاؤں۔ 
عمل کے میدان میں قدم رکھنے والے ہر نوجوان کو یہ نکتہ یاد رکھنا ہے کہ اگر کچھ کر دکھانا ہے تو محنت کا سفر شروع کرنا ہے اور اس بات کے لیے تیار رہنا ہے کہ پہلے ہی قدم پر کامیابی کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا۔ اگر پہلے قدم پر کچھ نہ ملے تب بھی دل برداشتہ یا مایوس ہوئے بغیر بڑھتے جانا ہے‘ پرتھوی راج کپور کی طرح۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں