"MIK" (space) message & send to 7575

یہ وقت ڈائیلاگ بازی کا نہیں

سیاست لفظوں کے اُلٹ پھیر میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ چند الفاظ نے پورے سیاسی ماحول کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ ایک دور تھا کہ سیاست دان جب ایک دوسرے کو لتاڑتے تھے‘ تب بھی شائستگی کا دامن تھامے رہتے تھے۔ زبان کو پھسلنے اور لڑھکنے سے روکنے پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔ 
ایک تو تھی مرزا صاحباں والی صاحباں۔ اس کے بہت عرصے کے بعد آں جہانی راج کپور نے ''رام تیری گنگا میلی‘‘ کے ذریعے منداکنی کو صاحبہ کے کردار میں متعارف کرایا۔ اور اس لفظ کی بنیاد پر تیار کیا جانے والا گیت ''سُن صاحبہ سُن‘ پیار کی دُھن ...‘‘ بہت مقبول ہوا۔ وزیر اعظم نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو صاحبہ کہا تو ہم فلیش بیک میں چلے گئے اور ذہن کے پردے پر منداکنی نمودار ہوگئی‘ جو حُسن و دِل کشی کا مرقّع تھی! 
خیر‘ بات یہ ہو رہی تھی کہ اب سیاست چند الفاظ کی مدد سے تمسخر اڑانے تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ کسی کو‘ اگر موقع کی مناسبت سے کوئی اچھا لفظ سُوجھ جائے‘ تو اُسے بروئے کار لانے میں دیر لگاتا ہے‘ نہ آسرا کرتا ہے۔ اگر کسی کے دل پر بجلی گرتی ہے تو گرتی رہے‘ منہ بنتا ہے تو بنتا رہے‘ جس طور بعض افراد محض اس خوف سے منہ بند نہیں رکھتے کہ کہیں ذہن کے پردے پر ابھرا ہوا جملہ ضائع نہ ہو جائے‘ بالکل اُسی طور اچانک اور بروقت سُوجھا ہوا لفظ بھی ضائع نہیں ہونے دیا جاتا اور نتائج کی پروا کیے بغیر بروئے کار لایا جاتا ہے۔ 
شوخ اور بھڑکتے ہوئے الفاظ کی مدد سے مخالفین کو نشانہ بنانے اور اُنہیں ''کٹ ٹو سائز‘‘ کرنے کے فن میں جتنے یکتا شیخ رشید ہیں اُتنے کم ہی ہوں گے۔ وہ جملے بازی کے ساتھ ساتھ لفظ گری بھی خوب کرتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے منہ سے بلاول بھٹو کیلئے ''صاحبہ‘‘ نکلنے کی دیر تھی کہ تنقید کے ڈونگرے برسائے جانے لگے۔ اس سلسلے نے زور پکڑا تو شیخ رشید نے بھی انٹری دینے کا سوچا اور وزیر اعظم کی مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو ''صاحب‘‘ کہہ گئے! ساتھ ہی ساتھ وزیر ریلوے نے یہ بھی کہا کہ فردوس عاشق اعوان بہت زوردار شخصیت ہیں‘ امید ہے وہ صاحب کہے جانے کا بُرا نہیں مانیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بلاول کی ہمدردی میں بولنے والے دراصل چَسکا لے رہے ہیں‘ جو کچھ عمران خان نے کہا؛ وہ اگر زبان کا پھسلنا نہیں بھی تھا تو کوئی ہرج نہیں! 
صاحب اور صاحبہ تک بات پہنچی تو ہمیں ابرار علوی کی ڈائریکشن میں بننے اور 1962 میں ریلیز ہونے والی مشہور فلم ''صاحب‘ بی بی اور غلام‘‘ یاد آگئی‘ جس میں غلام (بھوت ناتھ) کا کردار گرو دت نے ادا کیا تھا۔ فلم کے پروڈیوسر بھی وہی تھے۔ 
اس وقت بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہماری‘ آپ کی یعنی عوام کی ہے۔ سیاست کا رنگ‘ ڈھنگ عجب ہے۔ کہیں مرد کو صاحبہ کہا جارہا ہے اور کہیں اچھی خاصی خاتون کو صاحب قرار دیا جارہا ہے‘ یعنی جو کچھ جہاں ہونا چاہیے ‘وہ وہاں کے سوا ہر جگہ ہے۔ ہماری سیاست‘ جس بحرانی کیفیت سے گزر رہی ہے‘ اُس نے حواس مختل کردیئے ہیں۔ ایسے میں کچھ کا کچھ دکھائی دینے لگتا ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎ 
وحشت میں ہر اک نقشہ اُلٹا نظر آتا ہے 
مجنوں نظر آتی ہے‘ لیلیٰ نظر آتا ہے 
شیخ رشید زبان کو بار بار دانستہ پھسلنے دیتے ہیں۔ بلاول کو کبھی وہ بلو رانی کہتے ہیں اور کبھی چیکو۔ ایک تماشا لگا ہوا ہے۔ ''مینوفیکچرنگ فالٹ‘‘ کا غلغلہ بلند کرکے بھی اُنہوں نے اپنے مداحوں سے خوب داد پائی ہے۔ 
قوم کے لیے یہ سب کچھ بہت حیرت انگیز ہے۔ ایک زمانے سے یہ سارے تماشے قوم دیکھتی آئی ہے‘ مگر اس کے باوجود حیرت زدہ رہ جانا نہیں جاتا۔ کُل ملاکر اب یہی رہ گیا ہے۔ فریقین سیاسی بیان بازی کے ترکش سے تیر چلا چلاکر عوام کی توجہ اصل مسائل سے یوں ہٹاتے ہیں کہ بہت دیر بعد خیال آتا ہے کہ جس پر توجہ مرکوز کروائی جارہی ہے ‘وہ تو کوئی بات ہی نہیں! 
قوم کو ٹرک کی بتّی کے پیچھے لگانے‘ یعنی میڈیا کی مدد سے عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹانے کا عمل آج تک رُکا نہیں‘ تھما نہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کا میلہ سجایا ہی اس لیے گیا ہے کہ کام کی باتیں کم کم سُنائی دیں اور اِدھر اُدھر کے ہانکے زیادہ لگائے جائیں۔ 
قوم کو اس بات سے کیا غرض کہ کون کس مرد کو صاحبہ کہہ رہا ہے اور کون کس خاتون کو صاحب قرار دے رہا ہے۔ قابلِ غور بات تو یہ ہے کہ معاشرہ کہاں کھڑا ہے‘ معیشت کس حال میں ہے‘ قومی سلامتی کو کس نوعیت کے خطرات لاحق ہیں اور بہبودِ عامہ یقینی بنانے کے حوالے سے کون سے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ نئی نسل حکمرانوں اور ریاستی مشینری کی پوری توجہ چاہتی ہے۔ اُسے بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنے پر بھرپور توجہ دی جانی چاہیے‘ مگر ایسا اب تک ممکن نہیں ہوسکا۔ لوگوں کو مہنگائی سے نجات اور روزگار چاہیے۔ یہ مقصد حاصل کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ سارا دھیان میڈیا کی مدد سے رونق میلہ لگانے پر ہے۔ کام کی ساری باتیں ایک طرف ہٹاکر صاحب اور صاحبہ کا کھیل جاری رکھا گیا ہے اور بے چارے عوام غلام بن کر یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ 
وفاقی کابینہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کو رونما ہوئے ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں۔ یہ تبدیلیاں دیکھ کر عوام سہم گئے ہیں۔ وزیر اعظم کی ٹیم میں کمزوریاں دکھائی دی ہیں۔ یہ کمزوریاں دور کرنے کے نام پر محض رسمی کارروائی کی گئی ہے۔ اسد عمر کا رخصت ہو جانا‘ وزیر اعظم کیلئے کسی بھی اعتبار سے پلس پوائنٹ نہیں۔ انہوں نے وزارتِ خزانہ اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ اچھی بات ہے‘ مگر دیگر وزارتوں کا کیا بنے گا؟ وفاقی کابینہ میں تبدیلی کے نام پر جو کچھ کیا گیا ہے‘ اُسے عوامی زبان میں ''اس کی ٹوپی اُس کے سر‘ اُس کی ٹوپی اس کے سر‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا! محض قلمدان تبدیل کردینے سے کسی کو بہتر کارکردگی کی تحریک کیونکر دی جاسکتی ہے؟ 
قوم دو راہے پر کھڑی ہے۔ غلط سمت منتخب کرنے سے ہم منزل سے بہت دور نکل جائیں گے۔ 1982ء میں ریلیز ہونے والی دلیپ کمار کی فلم ''ودھاتا‘‘ کے کلائمیکس میں مرکزی ولن جگاور چودھری (امریش پوری) جب شوبھ راج (دلیپ کمار) کے پوتے کنال (سنجے دت) کو پکڑنے کے بعد بڑھکیں مار رہا ہوتا ہے تب اُس کا ساتھی (مدن پوری) اُس سے کہتا ہے ''میری بات مانو چودھری ‘ یہ وقت ڈائیلاگ بازی کا نہیں ہے۔ اِس کا دَدّو (دادا) آوے گا تو سب کی چُھٹّی کرکے جاوے گا!‘‘ یہی وہ بات ہے‘ جو ہمیں اچھی طرح سمجھنی ہے اور سمجھے بغیر چارہ بھی نہیں۔ قوم نتائج چاہتی ہے‘ بڑھک نہیں۔ یہ وقت ڈائیلاگ بازی کا نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک بار پھر حالات کا دَدّو آئے اور ہماری چُھٹّی کرکے چلتا بنے۔ نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ کسی بھی معرکے سے قبل خوب سوچیے‘ مگر جب معرکے کا وقت آجائے تو سوچنا چھوڑ کر میدان میں داخل ہو جائیے‘ محاذ پر ڈٹ جائیے۔ مرکزی نکتہ؟ یہ کہ سوچنے کے وقت سوچنا اور کرنے کے وقت کرنا ہے۔ جس وقت ہتھیار اٹھانا لازم ہو‘ اُس وقت لڑنے کی منصوبہ سازی کام نہیں آتی۔ سیاست ہو یا کوئی اور شعبہ ... یا پھر نجی زندگی‘ بھرپور اور قابلِ رشک کامیابی کا یہی ''فنڈا‘‘ ہے۔ باقی جو کچھ ہے وہ صرف زیبِ داستاں کیلئے ہے۔ 
حکومت کو صاحب اور صاحبہ کے چکر سے نکل کر ''صاحبان‘‘ یعنی عوام کے مفاد کا سوچنا ہوگا۔ اسی میں عوام کا اور اُن سے کہیں بڑھ کر خود حکومت کا فائدہ ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں