"MIK" (space) message & send to 7575

… عالم دوبارہ نیست!

دنیا کہاں جارہی ہے؟ کہیں نہیں‘ کہیں بھی نہیں ‘مگر پھر بھی پتا نہیں ‘ایسا تاثر کیوں ہے ‘جیسے دنیا ختم ہو رہی ہے۔ عمومی ذہنیت یہ ہوگئی ہے کہ جو کچھ بھی کرنا ہے کرلو‘ جو لینا ہے لے لو‘ کیونکہ دنیا کا کچھ اعتبار نہیں کب نہ رہے۔ بات عمومی ذہنیت کی ہو رہی ہے۔ ہم اُس مقام پر کھڑے ہیں‘ جہاں سے ہر طرف صرف انسداد یا بندش کا راستہ نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔ خدا ہی جانے کہ یہ ضعفِ نظر ہے یا فریبِ نظر۔ بہر کیف‘ جو کچھ محسوس ہو رہا ہے ‘وہ تو یہی ہے کہ جو جی میں آئے کرلیجیے کہ بساط لپیٹی جانے والی ہے۔ 
معاشرتی تبدیلیاں ہر ملک اور قوم کا حصہ ہوتی ہیں۔ ہم بھی اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں‘ جو کچھ دنیا بھر میں ہو رہا ہے‘ وہی کچھ ہمارے ہاں بھی ہو رہا ہے۔ ہم لاکھ چاہیں‘ معاشرتی تبدیلیوں سے دامن چھڑا سکتے ہیں ‘نہ بچا سکتے ہیں۔ ہاں‘ یہ بات؛ البتہ رنجیدہ کرنے والی ہے کہ دنیا بھر میں رونما ہونے والی ہر معاشرتی تبدیلی ہمارے ہاں اثرات کے حوالے سے کچھ بڑھ جاتی ہے۔ 
معیشت پر بُرا وقت ہے‘ جنہیں بیرونی لین دین کا سامنا ہے ‘وہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوئے جارہے ہیں کہ ملک کی سمت درست کرنے کے لیے کریں تو کیا کریں۔ معیشتی اور مالیاتی امور کے ماہرین سَر جوڑے اور پکڑے بیٹھے ہیں۔ اقتدار پانے والے اقتدار پانے کے بعد بھی پریشان ہیں کہ معاملات کو کیسے چلائیں۔ غرض یہ کہ ایک دل ہے اور سو افسانے ہیں۔ اور دوسری طرف عوام ہیں کہ سو جھمیلوں میں الجھ کر بھی بہت زیادہ پریشان دکھائی نہیں دے رہے۔ ایک دنیا ہے‘ جو ہمارے عوام کو حیران و پریشان نہ دیکھ کر حیران و پریشان ہے! 
ایسا کیوں ہے؟ کسی بھی قوم پر بحرانی کیفیت طاری ہو ‘تب جس نوع کی سنجیدگی لازمہ سمجھی جاتی ہے ‘وہ ہمیں دکھائی کیوں نہیں دے رہی؟ اہلِ پاکستان نے کیا طے کرلیا ہے؟ یہ کہ کسی بھی بات سے پریشان نہیں ہوں گے؟ جب پریشان نہیں ہوں گے تو سنجیدگی کی طرف مائل ہونے کی ضرورت بھی باقی نہ رہے گی۔ دنیا کا ہر پنپتا ہوا معاشرہ عمل اور ردعمل کا مرقع ہے۔ مسائل پیدا ہوتے ہیں تو اُن کے حل کی لگن اور تڑپ بھی پیدا ہوتی ہے۔ یہاں ایسا نہیں ہے۔ پس ماندہ معاشروں میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ افریقا کے پس ماندہ ترین معاشروں کو دیکھ لیجیے۔ وہاں ہلچل دکھائی دیتی ہے‘ نہ لگن۔ دل بجھے بجھے سے ہیں‘ جذبے تھکے تھکے سے۔ 
ہم اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ جذبے تھکے تھکے تو نہیں‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ کام کے جذبے دکھائی نہیں دے رہے۔ جوش اور جذبہ اگر دکھائی دے بھی رہا ہے تو وہاں جہاں صرف خرابیاں پنپ رہی ہیں۔ اور جہاں اصلاح کیلئے کچھ کرنے کی بات ہو وہاں چند افراد کے سوا کوئی بھی بھرپور جوش کا مظاہرہ کرتا ہے‘ نہ جذبے کا۔ 
ایک معاملہ ایسا ہے‘ جس میں جوش ہی جوش دکھائی دے رہا ہے۔ یہ معاملہ ہے ‘دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے کا۔ پاکستانیوں کی انتہائی واضح اکثریت اس وقت اُسی ذہنیت کی حامل دکھائی دے رہی ہے ‘جس کا اس مصرع میں اظہار کیا گیا ہے ع
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست 
یعنی دنیا کے جتنے بھی مزے لینے ہیں لے لو‘ کون جانے کہ کل یہ دنیا رہے نہ رہے۔ بظاہر سب نے طے کرلیا ہے کہ زندگی سے بھرپور لطف اٹھانا ہے اور اس عمل کے دوران کسی پر کچھ گزرتی ہے‘ تو اس کا بالکل خیال نہیں کرنا ہے۔ بے فکری کے ساتھ بے حِسی کو بھی گلے لگالیا گیا ہے۔ کوئی کچھ بھی سوچتا اور کہتا پھرے‘ جسے جو کرنا ہے ‘وہ کرنا ہے۔ جب دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ کر زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہو تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ 
من حیث القوم یہ روش کسی بھی طور مستحسن نہیں۔ دنیا میں گم ہوکر نہیں رہ جانا ہے‘ بلکہ اس دنیا کی رونق میں اضافے کیلئے بھی کچھ کرنا ہے۔ ہم نے ایک قوم کی حیثیت سے بھی زندگی گزاری ہے‘ یعنی متحد ہوکر کام کیا ہے۔ تب جو کچھ ہم کرسکتے تھے ۔وہ دنیا نے دیکھا اور خوب دیکھا۔ وہ عہد ہم بھی بھولے تو نہیں ہیں۔ آج بھی ہمارے حافظے میں بہت کچھ محفوظ ہے۔ گریبان میں جھانکنے کا مرحلہ درپیش ہے۔ اگر ہم اپنے ماضی کا جائزہ لے کر حال پر نظر دوڑائیں تو بہت سے خامیاں تیزی سے نمایاں ہوجائیں گی اور یوں اصلاحِ احوال کی صورت بھی نکل آئے گی۔ 
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہم اپنے حق میں کچھ کرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ اس دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ کر زیادہ سے زیادہ عیش کرنے کی ذہنیت راتوں رات پروان نہیں چڑھی‘ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم راتوں رات تبدیل ہوجائیں؟ کسی بھی صورتِ حال کو تبدیل کرنے میں کچھ وقت تو لگتا ہی ہے۔ آج پاکستان ‘جس حالت میں ہے ‘اُس کے بہت حد تک ہم ہی ذمہ دار ہیں۔ غیروں نے جو کچھ کیا ‘وہ تو اُنہیں کرنا ہی تھا۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے وہ سب کچھ کیوں کیا ‘جو کسی حال میں نہیں کرنا چاہیے تھا! 
زندگی سنجیدگی چاہتی ہے۔ ہمارے لیے سنجیدہ ہونے کا وقت آگیا ہے۔ یہ آپشن کا معاملہ نہیں‘ جو کرنا ہے‘ وہ ہر حال میں کرنا ہے۔ اب ہمارے لیے کوئی ''لائف لائن‘‘ نہیں بچی۔ اب تو ''مارو یا مر جاؤ‘‘ والا مرحلہ درپیش ہے۔ زندگی ہم سے بہت کچھ طلب کر رہی ہے۔ سب کچھ ایک ساتھ دیا یا کیا نہیں جاسکتا ‘مگر ہاں‘ مرحلہ وار بہت کچھ دیا اور کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں یہی کرنا ہے۔ من حیث القوم اپنے مجموعی رویے کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے ہمیں اصلاحِ احوال کی صورت نکالنی ہے۔ یہ کام جس قدر جلد ہو‘ اُسی قدر اچھا ہے۔ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ دنیا سے دل لگانا اور اِس میں دلچسپی لے کر اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ بامقصد‘ بامعنی اور پرلطف بنانا اور بات ہے اور دنیا پرستی کی لعنت میں مبتلا ہوکر رہ جانا کچھ اور بات۔ 
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ یہ دنیا ہمیں ایک بار ہی ملتی ہے۔ یہاں سے جانا ہے تو حساب کتاب کے مرحلے سے گزرنا ہے اور پھر اپنے اعمال کی بنیاد پر جنت یا دوزخ کا حقدار ٹھہرنا ہے۔ دنیا ایک بار ملتی ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اس دنیا کو سب کچھ سمجھ کر اسی میں گم ہو رہیں اور آخرت کا نہ سوچیں۔ کائنات کے خالق نے ہمیں دُنیا کی لذتوں سے دامن کش رہنے کا حکم نہیں دیا‘ مگر یہ حکم ضرور دیا ہے کہ ایک حد تک لذت کش رہیں اور آخرت کو نہ بھولیں‘ یعنی ساری تیاری آنے والی زندگی کیلئے کرنی ہے۔ 
اس دنیا کی کامیابی حقیقی کامیابی ہے‘ نہ ناکامی حقیقی ناکامی۔ جو کچھ ہم اس دنیا میں کرتے آئے ہیں اور کریں گے‘ اُس کا حتمی فیصلہ آخرت میں ہونا ہے‘ جب ہمیں رب کے حضور جانا ہے۔ ذہن میں وہ جہاں رہنا چاہیے۔ یہاں کی رنگینیوں میں گم ہوکر وہاں کی زندگی کو بھلا دینا‘ کسی بھی اعتبار سے دانش مندی نہیں۔ ؎ 
جگہ دل لگانے کی دنیا نہیں ہے 
یہ عبرت کی جا ہے‘ تماشا نہیں ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں