قدرت کا ہر کام نرالا ہے۔ نرالا اس لیے کہ ہماری سمجھ میں آسانی سے نہیں آتا اور کبھی کبھی تو بالکل ہی نہیں آتا۔ قدرت کا ایک نرالا قانون یا طریقہ کسی کو اٹھانا اور کسی کو گرانا بھی ہے‘ جو آج عروج کے مزے لوٹ رہا ہے‘ وہ کل زوال کا ذائقہ بھی ضرور چکھے گا۔ دنیا میں اقوام کے عروج و زوال کا یہی معاملہ رہا ہے۔ اس کا سبب سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ قدرت کے طے کردہ اصولوں کی پاس داری عروج عطا کرتی ہے اور جب ان اصولوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے‘ تب زوال لازم ٹھہرتا ہے۔
اُمّتیں زوال سے اُس وقت دوچار ہوتی ہیں‘ جب وہ زندگی سے منہ موڑ لیتی ہیں۔ زندگی ہم سے ہر قدم پر زندہ دِلی چاہتی ہے۔ دنیا میں عروج اُس کے لیے ہے ‘جو باہر ہی سے نہیں‘ اندر سے بھی زندہ ہو۔ اندر سے زندہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ شعور پختہ ہو‘ جینے کی لگن توانا ہو‘ دنیا میں دلچسپی لے کر اُس کا معیار بلند کرنے کی امنگ مستحکم ہو۔ کسی بھی بھرپور ترقی یافتہ قوم پر نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوگا کہ اُس نے جو کچھ بھی پایا ہے ‘وہ بھرپور زندہ دِلی کی بدولت پایا ہے۔ زندہ دِلی سے مراد محض خوش مزاج اور ہنس مکھ ہونا نہیں‘ بلکہ کچھ پانے اور کچھ کر دکھانے کے حوالے سے بھرپور لگن کا حامل ہونا ہے۔ ہر زندہ دِل انسان اپنے وجود اور ماحول میں بھرپور دلچسپی لیتا ہے اور اپنی ہر ذمہ داری سے کماحقہ سبک دوش ہونے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ یہی ترقی اور عروج کا راز ہے۔
کسی بھی انسان کو زیبا نہیں کہ دنیا میں ہو‘ یعنی زندہ ہو اور رہے مُردوں کی طرح۔ دل کی زندگی ہی زندگی ہے۔ دل زندہ ہو تو انسان زندگی سے پیار کرتا ہے‘ اُس کا معیار بلند سے بلند تر کرنے کی کوشش میں جُتا رہتا ہے۔ ڈھنگ سے جینے کا یہی طریقہ ہے۔ ہم وہی کچھ پاتے ہیں ‘جو ہم پانا چاہتے ہیں‘ یعنی پانے کی بھرپور لگن رکھتے ہیں اور اُس کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم واقعی کچھ پانا چاہتے ہوں اور نہ پاسکیں۔ جب ہم کسی چیز کو پانے میں ناکام رہتے ہیں تو دنیا کو یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ ہم اُسے پانے کی حقیقی لگن رکھتے ہی نہیں تھے۔
زندہ اقوام کا بنیادی وصف ہے زندگی سے بے انتہا محبت۔ زندگی سے بے انتہا محبت ہی فرد اور قوم دونوں کو ڈھنگ سے جینے کی حقیقی تحریک دیتی ہے۔ سینے میں دھڑکنے والا دل اگر حقیقی مفہوم میں زندہ ہو تو انسان اپنے وجود اور ماحول دونوں کو آپس میں ہم آہنگ کرکے ایسی زندگی بسر کرتا ہے‘ جس میں اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔
دل کے زندہ ہونے سے متعلق بہت کچھ سوچا‘ کہا اور لکھا گیا ہے۔ یہ شعر کس نے نہیں سنا ہوگا؟ ؎
زندگی زندہ دلی کا ہے نام
مُردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
بات برحق ہے۔ دل ہی مُردہ ہوگیا ہو تو کیسا جینا‘ کہاں کا جینا؟ زندہ دلی ہی تو یہ طے کرتی ہے کہ کوئی اس دنیا میں رہنے اور کچھ کر دکھانے کے کس حد تک قابل ہے۔
جس دل میں کوئی امنگ اور لگن نہ پائی جائے وہ کسی کام نہیں ہوتا۔ درد آشنا ہونا لازم ہے‘ جو دل درد آشنا نہ ہو؟ ایسے دل کے لیے سراج الدین ظفرؔ نے خوب کہا ہے ؎
دل جو درد آشنا نہیں ہوتا
وہ کسی کام کا نہیں ہوتا
اِسی بات کو زیادہ واضح انداز سے بیان کرنے کی غرض سے علامہ اقبالؔ نے کہا تھا ۔ ؎
دلِ مُردہ دل نہیں ہے‘ اِسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے اُمّتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
جب دل مُردہ ہو جاتے ہیں تو اُمّتیں مریض ہوجاتی ہیں۔ دل کے مُردہ ہو جانے سے بڑا مرض بھلا کیا ہوسکتا ہے؟ جب دل میں زندگی کے آثار نہ رہیں تو سبھی کچھ تلپٹ ہو جاتا ہے۔ ایسے میں کام کرنے کی لگن سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ پوری کی پوری قوم out of touch ہوکر رہ جاتی ہے۔ ہر قوم پر ایسا وقت آتا ہے۔ یہ قدرت کا عمل اور طریقہ ہے۔ اسی طور کسی کو عروج اور کسی کو زوال نصیب ہوتا ہے۔ ہر قوم کو اس عمل یا مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ قدرت نے کسی کے لیے حتمی عروج یا زوال نہیں لکھا۔ جس طور فرد پنپتا اور پھر کمزور پڑ جاتا ہے بالکل اُسی طور قوم بھی پنپنے کے عمل سے گزرتی ہے اور پھر اُس کے قوٰی کمزور پڑ جاتے ہیں۔ اخلاقی زوال سے حقیقی انحطاط کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ دلوں کے مُردہ ہوجانے کا اور کیا مطلب ہوسکتا ہے؟ جب دلوں میں زندگی نہ رہے تو زوال لازم ٹھہرتا ہے۔
علامہ نے اُمّتوں کے مرضِ کہن کا چارہ یہ بتایا ہے کہ دلوں کو زندہ کیا جائے۔ دلوں کو زندہ کرنے سے فرد اور قوم دونوں کو جینے کا مقصد ملتا ہے۔ دل توانا ہوں تو قوم کو راہ ملتی ہے۔ سوچنا اور سوچے ہوئے پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ علامہ کا یہ پیغام مسلم اُمّہ کیلئے ہے۔ ایک زمانے سے اس اُمت پر پژمردگی طاری ہے۔ دلوں میں جوش و جذبہ ہے نہ کچھ کر دکھانے کی بھرپور خواہش و لگن۔ ایسا لگتا ہے ‘جیسے زندگی سے منہ موڑ لیا گیا ہے۔ کہنے کو بہت کچھ کیا جاتا ہے‘ مگر جس لگن کے ساتھ کیا جانا چاہیے‘ وہ لگن کہیں دکھائی نہیں دیتی اور نیتوں کا فتور بھی ظاہر ہے۔ اُمت کا ہر معاشرہ گروہوں میں بٹا ہوا ہے۔ تمام معاملات صرف مفادات کے گرد گھوم رہے ہیں۔ ہر گروہ اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے فراق میں رہتا ہے۔ تمام آسائشیں اور مراعات سمیت کر دوسروں کو پریشان ہونے کے لیے چھوڑ دینا روایت کا درجہ اختیار کرگیا ہے۔
معاشروں کا ہمہ گیر ارتقاء اُسی وقت ممکن ہے‘ جب وہ گروہوں میں بنٹے ہوئے نہ ہوں اور ہر فرد کے لیے بہترین طرزِ زندگی کی بنیاد فراہم کرنا ممکن بنایا گیا ہو۔ مسلم معاشروں پر نظر دوڑائیے تو ہر طرف تضاد ہی تضاد دکھائی دیتا ہے۔ کوئی ایک معاملہ بھی تضاد سے محفوظ نہیں ملتا۔
ہمیں ‘یعنی پاکستانیوں کو بھی اِس مرضِ کہن کا چارہ تلاش کرنا ہے۔ ایسا کیے بغیر چارہ بھی نہیں۔ قوم کو پنپنے اور آگے بڑھنے کے لیے نیا ولولہ‘ نیا عزم درکار ہے۔ آج ہم دلوں کے پژمُردہ ہو جانے کے بحران سے دوچار ہیں۔ دنیا بہت آگے جاچکی ہے اور ہم اب تک لکیر پیٹنے میں مصروف ہیں۔ اُمتیں جس مرض کا شکار ہوکر برباد ہوتی رہی ہیں‘ ہم اُس مرض کو اب تک مرض تسلیم کرنے کیلئے بھی تیار نہیں۔ ہر معاملہ وقتی نوعیت کا ہوکر رہ گیا ہے۔ اس سطح سے بلند ہونے کی ضرورت ہے۔ زمانۂ حاضر کے ساتھ ساتھ آنے والے دنوں کے لیے بھی تیار ہونا ہے۔ ہر زندہ قوم یہی کرتی ہے۔ زندگی کا بنیادی تقاضا یہی ہے کہ اس سے پیار کیا جائے‘ اسے بھرپور یقین و اعتماد کے ساتھ گلے لگایا جائے۔ دلوں کے زندہ ہونے کا نمایاں ترین ثبوت یہ ہے کہ زندگی سے بھرپور محبت پائی جاتی ہو۔ آج ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہے‘ جائزہ لینا ہے کہ ہم زندگی کا حق ادا کرنے کے لیے دلوں کو زندگی سے ہم کنار کرنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں؛ اگر نہیں تو یقین جانیے دلوں کو زندہ کرنے میں دیر لگانے کی گنجائش نہیں رہی۔