عیدالفطر بھی گزر گئی۔ کسی بھی مخصوص پس ماندہ معاشرے کی طرح ہمارے ہاں بھی بہت کچھ ہفتہ وار تعطیل یا پھر تہواروں پر موقوف رہا کرتا ہے۔ کوئی بھی نیا کام شروع کرنا ہو تو یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ پیر سے دیکھیں گے۔ جب ہفتہ وار تعطیل جمعہ کی ہوا کرتی تھی تب بہت کچھ ''ہفتے سے دیکھیں گے‘‘ کی نذر ہو جایا کرتا تھا۔
جو درجہ کام کے لحاظ سے دنوں میں پیر کا ہے وہی درجہ تہواروں میں عیدالفطر کا ہے۔ شب برأت گزرتی ہے تو ماہِ صیام کا انتظار کیا جاتا ہے اور پھر سوچ بن جاتی ہے کہ رمضان میں تو کچھ کرنا ہی نہیں ہے۔ اب جو کچھ بھی دیکھنا ہے وہ عیدالفطر کے بعد ہی دیکھیں گے۔ اپوزیشن نے بھی طے کیا تھا کہ حکومت کے خلاف جو کچھ بھی کرنا ہے وہ عیدالفطر کے بعد دیکھیں گے۔ اپوزیشن کا معاملہ یہ ہے کہ ع
پَر نہیں‘ طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
باہمی افتراق و انتشار ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا مگر حکومت مخالف تحریک چلانے کا ڈول ڈالا جارہا ہے۔ پی پی پی ہو یا ن لیگ‘ دونوں ہی نے ایک ماہ قبل اعلان کردیا تھا کہ ذرا یہ عید ہولے تو دیکھیں گے حکومت کتنے پانی میں ہے۔ اس سے پہلے اپوزیشن کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ وہ خود کتنے پانی میں ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن بہت خوش ہیں۔ اُن کے بہترین مشغلے کی راہ ہموارہوچکی ہے۔ وہ بظاہر حکومت مخالف تحریک کی تیاری کرچکے ہیں۔ دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ ایک کال پر اسلام آباد کو گھیر لیا جائے گا۔ اور حکومت کا حال یہ ہے کہ پُلوں کے نیچے سے پانی نکلتا جارہا ہے مگر اُسے کچھ پروا نہیں۔ دس ماہ ہونے کو آئے ہیں مگر حکومت کے معاملات ع
وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
کی منزل سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔ کابینہ میں تبدیلی کے نام پر غیر ضروری اور بلا جواز نوعیت کی اکھاڑ پچھاڑ کی جارہی ہے۔ ہر شعبے‘ محکمے اور ادارے کا حال برا ہے۔ کوئی نہ مانے تو اور بات ہے ورنہ حقیقت تو یہی ہے کہ معاملات یوں الجھے ہوئے ہیں کہ سلجھنے کا نام نہیں لے رہے۔ عمران خان اپنے وعدوں اور دعووں کی دلدل میں دھنستے ہی جارہے ہیں۔ معیشت کو سنبھالا دینے کی بیشتر کوششیں اب تک محض عوام پر مزید بوجھ لادنے کا ذریعہ ثابت ہوئی ہیں۔ ع
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
کے مصداق عوام ہی کو تبدیلی کا سارا بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اور کوئی تبدیلی آئی ہو یا نہ آئی ہو‘ عوام کی حالت مزید خراب ہوگئی ہے۔ زمینی حقیقت اور سب سے بڑی تبدیلی تو سرِدست یہی ہے۔ ماہرین اس بات پر حیران ہیں کہ وزیر اعظم اب بھی یہ ''مژدۂ جاں فزا‘‘ سنانے سے گریز نہیں کر رہے کہ بہت جلد پاکستان میں خوش حالی کا ایسا دور شروع ہوگا کہ دنیا بھر سے لوگ ملازمت کے لیے یہاں آیا کریں گے۔ تجزیہ کار اور تجزیہ نگار تمام پہلوؤں سے سوچ چکے ہیں۔ ایسا کوئی دور ڈیڑھ دو سو سال میں تو شروع ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ پھر عمران خان نے مستقبل کو پڑھنے کی صلاحیت کہاں سے سیکھی ہے کہ اب تک قوم کو پُھسلا رہے ہیں؟ ہاں‘ اتنی ''دیانت‘‘ اُن میں ضرور ہے کہ جب بھی بہلانے پُھسلانے والی بات کرتے ہیں تب آخر میں عوام سے کہہ دیتے ہیں کہ وہ کڑوے گھونٹ پینے کے لیے تیار رہیں۔ اس ایک جملے سے پہلے وہ اتنی خوش کن باتیں کرچکے ہوتے ہیں کہ عوام اُن باتوں کے سِحر میں کھوکر آخر کا رحقیقت پسندانہ جملہ سُننے کے روادار نہیں رہتے۔
فیض احمد فیضؔ نے کہا ہے ؎
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم
وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں
محض سوچ لینے سے کچھ نہیں ہو جاتا۔ اور کہنے سے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ سوچنے کے بعد کہنے کی منزل آتی ہے۔ جو کچھ سوچا جاتا ہے اگر وہ بس یونہی روانی میں بیان کردیا جائے تو لوگ عمل کی توقع وابستہ کر بیٹھتے ہیں۔ جہاں عمل چلتا ہے وہاں صرف عمل چلتا ہے‘ کچھ اور نہیں۔ باتیں کرنا کسی بھی درجے میں کون سی کمال کی بات ہے؟ سوال تو عمل کا ہے۔ ہم جس دنیا کا حصہ ہیں اُس میں صرف عمل چلتا ہے۔ جس کے پاس عمل ہے وہی زبان کھولے اور دعوے کرے۔
حکومت کی جڑوں میں بیٹھے ہوئے لوگ اب تک باتوں کے ذریعے عمل کی کمی پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہر معاملے میں تان عوام پر ٹوٹ رہی ہے۔ جب کچھ سمجھ میں نہیں آتا تو مختلف ناگزیر اشیا کے دام بڑھاکر قومی خزانہ بھرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بجلی‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات مہنگی کرکے عوام کی جیب کو ویرانے میں تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ اب ٹیکس نیٹ کو توسیع دینے کے نام پر تنخواہ دار طبقے کی مزید واٹ لگانے کی ٹھان لی گئی ہے۔ چھوٹے دکانداروں پر بجلی گرانے کی تیاری ہے اور جو لوگ یومیہ پندہ بیس ہزار کما رہے ہیں اور انکم ٹیکس کی مد میں ایک ٹکا بھی نہیں دے رہے اُن کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوئی تیاری دکھائی نہیں دے رہی۔ عام آدمی پہلے ہی ہر چیز پر بالواسطہ ٹیکس بھگت رہا ہے۔ ماہانہ بیس تیس ہزار روپے کمانے والے کی زندگی میں پہلے ہی کچھ نہیں ہوتا۔ اُسی کو مزید نچوڑنا تو سراسر ظلم ہے۔ اگر نچوڑنا ہی ہے تو وہ لیموں نچوڑے جائیں جن میں رس بھرا ہو۔ جن کی جیبیں اور تجوریاں بھری پڑی ہیں اُن سے معیشت کی بحالی میںکردار ادا کرنے کو کہا جائے تو کچھ بات بھی ہے۔ جنہیں حالات کی چکی نے پہلے ہی پیس رکھا ہے اُن سے مزید وصولی کو ظلم سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔
اپوزیشن کی خوش نصیبی یہ ہے کہ اُسے زیادہ زور نہیں لگانا پڑ رہا۔ حکومت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے والے عوامل خود بخود پیدا ہی نہیں ہو رہے بلکہ سامنے بھی آتے جارہے ہیں۔ حکومت ایسا بہت کچھ کر رہی ہے جو سیاسی اعتبار سے حماقت ہی کے درجے میں رکھا جائے گا اور اپوزیشن کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ کہلائے گا۔ کوئی بھی حکومت اپوزیشن کے حملوں سے بچنے کے لیے جن غلطیوں کے ارتکاب سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے وہ تمام غلطیاں ہماری ''تبدیلی حکومت‘‘ دھڑلّے سے کر رہی ہے اور بظاہر ذرا سا خوف بھی محسوس نہیں کر رہی۔
معیشت کو مستحکم کرنے کے نام پر کیے جانے والے ناپسندیدہ اقدامات کی تان عوام پر توڑنا کسی بھی درجے میں مستحسن نہیں۔ وہی حکومت قائم رہ پاتی ہے جو کسی نہ کسی طور عوام کے لیے تھوڑے بہت ریلیف کا اہتمام کرنے میں کامیاب ہو پاتی ہے۔ عمران خان اور اُن کی ٹیم فی الحال ایسا کچھ بھی کرتی دکھائی نہیں دے رہی جس کے نتیجے میں عام آدمی کو سکون کا سانس لینے کا موقع مل سکے۔ یہی اس حکومت کے لیے سب سے بڑا مائنس پوائنٹ ہے۔ اگر اُسے برقرار ہی نہیں مستحکم بھی رہنا ہے تو لازم ہے کہ عوام سے مزید وصولی کا اہتمام کرنے کے بجائے انہیں کچھ نہ کچھ ریلیف دینے کی راہ نکالی جائے۔ صحتِ عامہ کے شعبے کو بہتر بنانے جیسے اقدامات بھی عوام کو سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کرسکتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی و گیس کو دھندے کا آئٹم بنانے سے گریز کیا جائے۔ اُن تِلوں پر زیادہ بلکہ خاطر خواہ توجہ دی جائے جن میں واقع تیل ہے!