بڑے پیر صاحب پگارا (شاہ مردان شاہ) اب رہے نہیں اور منظور وسان نے بھی قدرے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ایسے میں قوم کو آنے والے وقت کے بارے میں بتا بتاکر ڈرانے کا منصب شیخ رشید نے سنبھال لیا ہے۔ وہی بتاتے رہتے ہیں کہ بہت جلد یہ ہونے والا ہے‘ وہ ہونے والا ہے۔ اُن کے دل و دماغ پر اب تک وہی دور مسلط ہے ‘جو انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کی حیثیت سے گزارا تھا۔ وزیر اطلاعات و نشریات کی حیثیت سے وہ جو کچھ کہتے تھے اور کرتے تھے‘ وہی سب کچھ وہ اب بھی کہہ اور کر رہے ہیں۔ فواد چودھری جب وزیر اطلاعات و نشریات تھے‘ تب بھی یہی شکایت سامنے آئی تھی کہ اُن کے حصے کا کام تو شیخ رشید کر گزرتے ہیں‘ پھر وہ کیا کریں؟ اور اب ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان وزیر اعظم کی مشیر اطلاعات ہیں‘ تب بھی شیخ رشید ہی عملاً وزیر اطلاعات و نشریات کا سا کام کر رہے ہیں۔
شیخ صاحب کو بھی بڑے پیر صاحب پگارا مرحوم کی طرح حکومت کی رخصتی کی تاریخ دینے کا بڑا شوق ہے۔ انہوں نے دو ڈھائی ماہ قبل کہا تھا کہ جون کا مہینہ کچھ زیادہ گرم گزرے گا اور ایسا ہی ہوا ہے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ 15 دن میں مزید جھاڑو پھرے گی ‘یعنی احتساب کے نام پر مزید گرفتاریاں ہوں گی۔ آصف علی زرداری‘ فریال تالپور اور حمزہ شہباز کی گرفتاری کو ملک کے لیے نیک فال قرار دیتے ہوئے شیخ رشید نے کہا ہے کہ احتساب کا عمل جاری رہے گا اور مزید کرپٹ شخصیات گرفتار کی جائیں گی۔ ہفتے کو ایک پریس کانفرنس میں شیخ رشید نے بلاول بھٹو کو مشورہ دیا کہ وہ اگر کرپشن کے خلاف مہم یا تحریک چلانا چاہتے ہیں تو ابتداء اپنے والد اور پھوپھی سے کریں! شیخ رشید کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیاست میں بلاول بھٹو کے لیے کچھ گنجائش‘ اُسی وقت پیدا ہوسکتی ہے ‘جب وہ یہ کہیں کہ اگر اُن کے والد اور پھوپھی کی کرپشن ثابت ہوجائے ‘تو بے شک اُنہیں بھی ٹِکٹکی پر لٹکادیا جائے! وزیر ریلوے نے مزید کہا کہ شہباز شریف اور فریال تالپور کو ڈھیل تو دی جارہی ہے‘ مگر کوئی ڈیل نہیں ہوگی۔
''جھاڑو پِھرائی‘‘ کی رسم بار بار ادا کرنا‘ کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ ملک کے کم و بیش ہر بڑے معاملے پر جب کرپشن‘ بے ایمانی اور بے حسی کے ذریعے جھاڑو پھیری جاچکی‘ تو پھر الگ سے اس رسم ادا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس رسم کے ادا کرنے سے زیادہ ضروری تو یہ ہے کہ جسے جو کام سونپا گیا ہے‘ وہ اُسی کام کے کرنے میں صلاحیت اور توانائی صرف کرے۔ مشکل یہ ہے کہ لوگ اپنا کام کرتے نہیں اور دوسروں پر جھاڑو پِھرنے کی پیش گوئی کرتے پھرتے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ شیخ صاحب کو ریلوے کی وزارت سونپی گئی ہے۔ اُن کا بنیادی کام تو ہوا‘ ٹرینوں کو ٹریک پر اور ٹائم فریم کے مطابق رواں رکھنا۔ اس حوالے سے اُنہیں اپنی صلاحیت اور سکت دونوں کو بھرپور انداز سے بروئے کار لانا چاہیے۔ ایسا کرنے کی بجائے شیخ صاحب وفاقی وزیر اطلاعات کا سا انداز اختیار کرکے ہر اُس معاملے پر رائے زنی فرما رہے ہیں‘ جس کا اُن کی وزارت سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں اور اِس کے نتیجے میں ‘یعنی عدمِ توجہ کے باعث ریلوے کی وزارت کی حالت پھر بگڑتی جارہی ہے۔
شیخ رشید انوکھے نہیں؛ یہ مثل تو آپ نے بھی سُنی ہوگی کہ جیسی روح ویسے فرشتے۔ جیسا ملک ہے اور ملک کے لوگ ہیں‘ ویسے ہی حکمران بھی نصیب میں لکھے گئے ہیں۔ کابینہ میں صرف شیخ رشید غیر مطلوب نوعیت کے نہیں ‘ اوروں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے‘ بلکہ بعض کا تو بہت ہی بُرا حال ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کی حیثیت سے ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے اور بلا جواز پنگے لینے پر جب فواد چودھری کو ہٹایا گیا تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت سونپ دی گئی۔ اس پر تجزیہ کاروں نے بجا طور پر حیرت کا اظہار کیا۔ اگر ایک وزارت سنبھالی نہ گئی اور کارکردگی خراب رہی تو کوئی اور وزارت سونپنے کی ضرورت کیا تھی؟ یہ بھی کہا گیا کہ مصروف رکھنے اور مایوسی کا شکار ہونے سے بچانے کیلئے نچلی سطح پر کوئی ذمہ داری سونپی جاسکتی تھی۔
خیر‘ جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ کسی بھی اعتبار سے معیار اور توقعات کے مطابق نہیں۔ قوم کو نتائج چاہئیں اور نتائج بھی وہ جو زمینی حقیقتوں اور توقعات دونوں سے مطابقت رکھتے ہوں۔ حکومت کا ہنی مون پیریڈ گزر چکا ہے۔ اب دعوے چلیں گے‘ نہ کوئی بڑھک۔ قوم وعدوں سے بہلنے کو بھی تیار نہیں۔ یہ عمل اور نتیجے کا وقت ہے۔ کہاں کہاں جھاڑو پھیری جاتی ہے اور کہاں نہیں‘ اس سے قوم کو کچھ خاص غرض نہیں۔ سوال باٹم لائن کا ہے‘ یعنی عوام کے ہاتھ کیا آتا ہے یا کیا آئے گا۔ عوام کو ریلیف درکار ہے۔ کرپشن کو ختم کرنے کے نام پر اگر اپوزیشن کی تمام سرکردہ شخصیات کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا جائے تب بھی قوم کا کیا بھلا ہوجانا ہے۔ قوم کا بھلا تو اس صورت میں ہوگا کہ جنہوں نے کرپشن سے سیکڑوں ارب روپے بنائے ہیں ‘اُن سے وصولی کرکے قومی خزانے کو بھرا جائے۔ خزانے میں کچھ آئے گا تو عوام تک بھی کچھ ثمرات ضرور پہنچیں گے۔
ملک کی سیاست میں جھاڑو پھیرے جانے کا عمل ایسی حقیقت نہیں ‘جس کا نام لے کر قوم کو خوش خبری سنائی جائے اور مخالفین کو ڈرایا‘ دھمکایا جائے۔ جھاڑو پھیرنے کے عمل نے آسانیاں کم اور مشکلات زیادہ پیدا کی ہیں۔ پہلے بہت کچھ بگڑنے دیا جاتا ہے اور جب اچھا خاصا بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے‘ تب تمام معاملات راتوں رات درست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسی حالت میں‘ فطری طور پر‘ معاملات مزید الجھتے ہیں۔ یہی ہوتا رہا ہے اور یہی ہو رہا ہے۔
احتساب کا عمل خاصی تیز رفتاری سے جاری ہے۔ وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ معیشت مستحکم ہوچکی ہے‘ اب کرپٹ سیاست دانوں کے پیچھے جارہا ہوں۔ یہ بیان بھی اپنے آپ کو دھوکا دینے ہی کے مترادف ہے۔ معیشت کہاں مستحکم ہوئی ہے؟ مسائل جہاں تھے‘ وہیں ہیں۔ محض بیانات داغنے سے معیشت کیسے بحال یا مستحکم ہوسکتی ہے؟
وزیر اعظم الجھتے جارہے ہیں۔ انہوں نے اب کرپٹ شخصیات کے مواخذے اور احتساب کیلئے خصوصی کمیشن کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے۔ اُنہیں کئی محاذوں پر لڑنا ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کچھ کہہ رہے ہیں اور ان کی کابینہ کے ارکان کچھ اور کہتے پھرتے ہیں۔ فواد چودھری ہی نے کہا ہے کہ حکومت کو ثابت کرنا ہوگا وہ درست راستے پر ہے۔ پہلے بھی وہ حکومتی کارکردگی کے حوالے سے قابلِ اعتراض و قابلِ گرفت باتیں کرتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم کو درونِ خانہ بھی بہت کچھ درست کرنا ہے۔ ایسا کرکے ہی وہ بیرونِ خانہ اپنے معاملات کو درست کرنے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔
گھوم پھر کر سوال باٹم لائن کا ہے۔ عوام نے اِس حکومت کے لیے راہ ہموار کی تھی صرف تبدیلی کے لیے۔ جب تک کوئی بڑی حقیقی تبدیلی رونما نہیں ہوگی‘ تب تک عوام کے دل کو قرار نہ آئے گا۔ عوام کو احتساب سے کچھ خاص غرض نہیں۔ آسائشات کا مرحلہ تو بعد میں آئے گا اور اُس کے بعد تعیشات کی منزل آئے گی۔ فی الحال عوام بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے کی بات کر رہے ہیں۔ یہی اصل باٹم لائن ہے ‘جو حکومت کی نظر میں رہنی چاہیے۔