قدرت کا اپنا نظام ہے اور ہماری اپنی سوچ۔ کائنات ایسے ٹھوس اصولوں کی بنیاد پر قائم ہے اور کام کر رہی ہے‘ جن میں کسی بھی نوع کی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ سب کچھ ایک طے شدہ نظام کے تحت ہوتا ہے۔ ہم پسند کریں یا نہ کریں‘ یہ سب کچھ قبول اور ہضم کرنا پڑتا ہے۔ حقیقی اور بھرپور کامیابی اُنہی کو ملتی ہے‘ جو کائنات کو اُس کے تمام اصولوں کے ساتھ قبول کرتے ہیں اور اپنے وجود میں اُسی حساب سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ بہت تیزی سے الجھتا جارہا ہے‘ پیچیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ فکر و عمل میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ یہ تضاد زندگی کی سادہ سی حقیقتوں کو بھی مزید الجھن میں مبتلا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ بہت سے روزمرہ کے امور اپنی اصل میں بالکل سادہ ہیں‘ مگر اُنہیں بھی ہم نے پیچیدہ تر بنا ڈالا ہے۔ گھر کی طرح گلی بھی صاف ستھری رکھنے کا معاملہ ہی لیجیے۔ لوگ گھر کا سارا کچرا باہر نکال کر گلی میں یوں پھینک دیتے ہیں‘ جیسے گلی نہ ہو‘ کوئی کچرا کنڈی ہو۔ گھر سے کچھ دور‘ یعنی دو تین گلی چھوڑ کر بڑی کچرا کنڈی واقع ہو تب بھی اِتنی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ وہاں جاکر کچرا پھینکا جائے اور گلی صاف ستھری رکھنے کی کوشش کی جائے ‘تاکہ اپنی اور کسی اور طبیعت پر کچھ بھی ناگوار نہ گزرے۔
مسائل دوچند ہوتے جارہے ہیں۔ اُن کا حل تلاش کرنے کی کوششیں دم توڑتی جارہی ہیں۔ اس کی بنیادی طور پر دو ٹھوس وجوہ ہیں۔ پہلی تو یہ کہ مسائل کا بروقت اور منطقی حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہی نہیں جاتی۔ مسائل کو پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہونے دیا جاتا ہے‘ پھر جب تساہل حد سے گزرتا ہے تب مسائل کو حل کرنے کی راہ پر گامزن ہونے کا سوچا جاتا ہے۔ تب تک ؛چونکہ بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے ۔اس لیے مسائل کے حل کی کوشش پہلے مرحلے ہی میں دم توڑ دیتی ہے۔
دوسری ٹھوس وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کا سوچتے ہیں‘ تو اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ سب کچھ پلک جھپکتے میں یا راتوں رات ہو جائے۔ یہی سبب ہے کہ غیر معمولی ذہانت کے ساتھ کی جانے والی بھرپور کوشش بھی مطلوب نتائج پیدا کرنے میں بہت حد تک ناکام ہی رہتی ہے۔
راتوں رات کسی بھی مسئلے کا حل ہو جانا یا کسی کام کا ہو جانا کائنات کا اصول نہیں۔ یہاں سب کچھ طے شدہ حساب سے ہوتا ہے۔ فصل راتوں رات تیار نہیں ہوتی۔ مکان تیار کرنا ہو تو بنیاد تیار کی جاتی ہے۔ اس پر ستون اور بیم لگائے جاتے ہیں‘ پھر دیواریں کھڑی کی جاتی ہیں ستون‘ بیم اور دیواروں کو مضبوط بنائے رکھنے کے لیے پانی بھی پلانا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ اپنے اپنے وقت پر ہوتا ہے۔ یہی حال دوسرے بہت سے معاملات کا بھی ہے؛ اگر مسائل کو غیر منطقی تیزی سے حل کرنے کی کوشش کی جائے تو معاملات مزید الجھتے ہیں اور یوں بنتے کام بھی بگڑ جاتے ہیں۔ ہمارا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم راتوں رات تمام مسائل کو حل کرنے کی ذہنیت کے حامل ہوگئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ کام شروع ہوتے ہی مکمل ہو جائے۔ ایسا ممکن نہیں ‘مگر ہم ممکن بنانا چاہتے ہیں۔
جب مسائل کو راتوں رات حل کرنے کی ذہنیت پروان چڑھتی ہے۔ تب قنوطیت پسندی کا گراف بھی بلند ہونے لگتا ہے۔ لوگ اپنے مسائل کو بہت تیزی سے حل کرنا چاہتے ہیں اور جب ایسا نہیں ہوتا‘ یعنی مسائل جوں کے توں رہتے ہیں تب مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ ایسے میں دل بیٹھ جاتا ہے‘ حوصلہ ہارنے کی منزل قریب آجاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں صرف خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
لوگوں نے مسائل کا ایک حل یہ بھی تلاش کرلیا ہے کہ اس دنیا کو خیرباد کہہ دیا جائے۔ بہت سے لوگ جب دیکھتے ہیں کہ اُن کے مسائل تیزی سے حل نہیں ہوسکتے تو مایوس ہوکر خود کشی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ بہت سی خواتین جب یہ دیکھتی ہیں کہ مسائل حل نہیں ہو پارہے اور مستقبلِ قریب میں اُن کے حل ہونے کی کوئی امید بھی نہیں تو کسی سے تفصیلی مشورہ کرکے کوئی ٹھوس حکمت ِ عملی اپنانے کی بجائے اولاد سمیت خود کشی کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہ عمل لاکھ افسوسناک سہی‘ اسے حماقت اور جہالت کی انتہا کے سوا کچھ اور نہیں کہا جاسکتا۔ ہر انسان کی زندگی میں مسائل ہوتے ہی ہیں۔ کوئی‘ اگر یہ سمجھتا ہے کہ مسائل صرف دولت کے نہ ہونے سے پیدا ہوتے ہیں تو وہ غلطی پر ہے۔ دولت کا نہ ہونا بھی بہت سے مسائل کو راہ دیتا ہے‘ مگر دولت کے ہونے سے بھی ایسی بہت سی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں ‘جن کا اُن لوگوں کو ذرا بھی اندازہ نہیں ہوسکتا ‘جن کی زندگی میں دولت برائے نام ہوتی ہے۔
جب ہم یہ سوچ لیتے ہیں کہ ہمارے تمام مسائل تیزی سے حل ہونے چاہئیں تو مایوسی کے پیدا ہونے کی راہ خود بخود ہموار ہوتی جاتی ہے۔ تمام مسائل کسی نہ کسی خاص سبب کے تحت پیدا ہوتے ہیں اور پیدا ہونے کے بعد پنپنے میں وقت بھی لیتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ جب مسائل پنپنے میں وقت لیتے ہیں تو حل ہونے میں بھی وقت لیں گے۔ کسی بھی مسئلے کو محض سوچ لینے سے حل نہیں کیا جاسکتا‘ اسی طور مسئلے کو حل کرنے کی ابتدائی کوشش ہی میں مکمل اور بھرپور کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری ہر کوشش کچھ وقت چاہتی ہے‘ جس طور کسان زمین تیار کرکے‘ بیج بونے اور پانی کے بعد فصل کے تیار ہونے کا انتظار کرتا ہے۔ بالکل اُسی طور ہمیں بھی کسی مسئلے کے حل سے متعلق اپنی سی کوشش کرنے کے بعد نتیجے کا انتظار کرنا چاہیے‘مگر افسوس کہ یہی ہم سے نہیں ہو پاتا۔
دنیا اتنی تیزی سے تبدیل ہوئی ہے کہ اس تبدیلی کو تواتر سے دیکھنے کے باوجود ہمیں بھی اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ ہم نے بہت کچھ دیکھا ہے ‘مگر اس کے باوجود ایسا لگتا ہے‘ جیسے کچھ بھی نہیں دیکھا۔ تبدیلی کی رفتار اس قدر ہے کہ حواس قابو میں نہیں رہتے اور جو کچھ دیکھ لیا ہو‘ وہ بھی کچھ دنوں میں اَن دیکھا سا ہو جاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اپنے ہی حواس پر ہمیں اختیار نہیں رہا۔ ہم کسی بھی منطقی عمل کا خاصا بڑا حصہ skip کردینا چاہتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں کوشش کرنے کے بعد انتظار کرنے کی بجائے ہم محض جذباتی ہوکر فوری نتائج کے طالب ہوتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ جو کچھ ہم چاہتے ہیں ‘وہ راتوں رات ہوجائے۔ ایسا تو‘ ظاہر ہے کہ‘ ہو نہیں سکتا۔ اس لیے ہم مایوس ہوکر ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور یوں ہمارا بنتا کام بھی بگڑ جاتا ہے۔
زندگی ہم سے قدم قدم پر منطقی تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے؛ اگر ہم ضرورت کے مطابق تحمل کا مظاہرہ نہ کریں تو وہی ہوتا ہے‘ جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ سلجھانے کی کوشش میں معاملات مزید الجھتے چلے جاتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کی عمومی روش یہ ہوگئی ہے کہ مسائل کو برسوں پنپنے دیا جائے اور جب معاملات ہاتھ سے نکل جائیں تب مسائل کے حل کی کوشش کی جائے اور پھر یہ خواہش بھی پروان چڑھائی جائے کہ مسائل راتوں رات حل ہوں۔ اس بے بنیاد رجحان کے نتیجے میں جو کچھ ہو سکتا ہے ‘وہی تو اب ہو رہا ہے۔ ہم اچھی خاصی کوشش کرنے پر بھی کچھ حاصل نہیں کر پاتے۔ یہ سب کچھ سوچ اور میلان میں پائی جانے ایک بنیادی خامی یعنی عجلت پسندی کا نتیجہ ہے۔