"MIK" (space) message & send to 7575

… اے نا اُمیدی! کیا قیامت ہے؟

حالات کی نوعیت تو ایسی ہے کہ ہم اندر سے دروازے کو باہر کی طرف دھکیل رہے ہیں اور باہر کھڑے ہوئے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ دروازہ اندر کی طرف کھلے گا! حکومت چاہتی ہے کہ معیشت کا اونٹ کسی ایسی کروٹ بیٹھ جائے کہ تھوڑی سی لاج رہ جائے‘ دنیا کو یقین ہوجائے کہ موجودہ حکومتی سیٹ اپ میں کچھ دم خم ہے۔ مشکل یہ ہے کہ حکومت اپنی سی کوشش کر رہی ہے اور حالات کی روش ایسی لگی بندھی ہے کہ تبدیل ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ 
عوام کا معاملہ یہ ہے کہ حیرت کی تصویر بنے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ بجٹ سے قبل ہی کیفیت یہ تھی ؎ 
تابِ نظارہ نہیں‘ آئینہ کیا دیکھنے دوں؟ 
اور بن جائیں تصویر جو حیران ہوں گے 
اور بجٹ کے بعد جو کچھ کہ اس قوم کی کیفیت ہے‘ وہ کسی سے ڈھکی چُھپی تو نہیں۔ سٹاک مارکیٹ کا کچھ پتا نہیں کہ کب خاصی لڑھک جائے اور کب ذرا سی سنبھل جائے۔ گولڈ مارکیٹ خوب گولڈن ہوئی جاتی ہے کہ روپے کے ساتھ ساتھ ڈالر پر سے بھی لوگوں کا اعتبار اٹھ گیا ہے۔ لوگ غیر اعلانیہ جائز و ناجائز آمدن کی قدر محفوظ رکھنے کے لیے اب سونے کی کان میں جا گُھسے ہیں۔ صرف سونے کو قابلِ اعتبار سمجھنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ 10 گرام سونے کا بھاؤ 70 ہزار روپے سے جا لگا ہے۔ 
1980 کے عشرے کی ابتداء میں اخلاق احمد مرحوم کا گایا ہوا ''بندش‘‘ کا گانا بے حد مقبول ہوا تھا ‘جس کے بول تھے:
سونا‘ نہ چاندی‘ نہ کوئی محل... 
ہیرو نے حالات کی روش دیکھتے ہوئے تسلیم کرلیا تھا کہ اُس میں زیادہ کمانے کی طاقت نہیں‘ اس لیے اُس سے کچھ زیادہ اُمید وابستہ نہ کی جائے۔ یہ گانا آج کے حالات پر بھی صادق آتا ہے‘ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ گایا ہی آج کے لیے گیا تھا۔ 
سونے کی گُڈی اتنی اونچی اُڑ رہی ہے کہ دیکھنے والوں کی گردنیں اکڑ گئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگوں نے سارا کالا دھن سونے کی شکل میں محفوظ رکھنے کا سوچ لیا ہے۔ پلاٹ یا عمارت خریدنے کی صورت میں دستاویزات کا مسئلہ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ سونے کا معاملہ یہ ہے کہ اچھی خاصی رقم کو سونے میں ڈھال کر کہیں بھی آسانی سے رکھا جاسکتا ہے۔ عام آدمی بھی خواہ مخواہ سونے کی طرف لپک رہا ہے۔ دھن کالا نہ ہو‘ تب بھی لوگ ٹیکس سے بچنے کیلئے سونا خریدنے جیسے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔ ٹیکس نیٹ میں وسعت لانے کی کوششیں شروع کیے جانے کے بعد یہ عمل خاصا تیز ہوگیا ہے۔ 
اس وقت ایک عجیب مسئلہ یہ اُٹھ کھڑا ہوا ہے کہ نا اُمیدی کا گراف پل پل بلند ہوتا جارہا ہے۔ حکومت معاشی اور بالخصوص مالیاتی معاملات کی درستی کے لیے جو کچھ بھی کر رہی ہے‘ اُس کے منطقی اثر یا ردِعمل کے طور پر لوگوں میں قنوطیت بڑھتی جارہی ہے۔ دماغوں کی بَتّی بُجھی ہوئی ہے۔ ایسے میں حکومت کا کام اور بڑھ گیا ہے۔ بہت کوشش کرنے پر بھی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ آلتی پالتی مارے بیٹھی ہوئی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے اور کیا کیا کِیا جائے۔ 
حکومت نے بظاہر بہت کچھ کیا ہے۔ عرب ممالک سے رابطے کیے گئے ہیں۔ اُن سے سرمایہ کاری بھی کرائی گئی ہے۔ اُدھار تیل کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ دوسری طرف بین الاقوامی مالیاتی فنڈز سے اُس کی شرائط پر قرضہ لینے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ سی پیک کے نام پر چین سے بھی سرمایہ آیا ہے۔ اِس کے باوجود کچھ کمی سی ہے۔ ؎ 
کِھلے ہیں پُھول‘ بسی ہے فضاء میں خوشبو بھی 
مگر وہ بات نہیں ہے ہوا کے لہجے میں 
اب سوال یہ ہے کہ جو بات پیدا ہونی چاہیے‘ وہ بات کیسے پیدا کی جائے۔ تجزیہ کار اور تجزیہ نگار آنے والے دنوں کے حوالے سے ڈرا رہے ہیں۔ سیاسی مخالفین نے تو خیر حکومت کے خلاف جانے کے معاملے میں حد ہی کردی ہے۔ ہر پریس کانفرنس فوکل پوائنٹ کا کردار ادا کر رہی ہے۔ فوکل پوائنٹ یہ ہے کہ عوام کے دل دہلانے کا عمل جاری رکھا جائے۔ ڈھکے چُھپے لہجے میں کہا جارہا ہے‘ تبدیلی درکار تھی ناں؟ لو‘ اب تبدیلی لانے کے دعوے داروں کو بھگتو! عوام سے زیادہ یہ بات کون جانے گا کہ تبدیلی کے نام پر مینڈیٹ پانے والوں نے اب تک مایوس ہی کیا ہے۔ مہنگائی کا گراف بھی بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ بہت کوشش کرنے پر بھی حکومت اب تک اشیائے خور و نوش اور روزمرہ استعمال کی عمومی اشیاء کی قیمتیں کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ٹیکس نیٹ کو توسیع دینے کے اقدامات ضرور کیے جارہے ہیں‘ مگر عوام کو مہنگائی کے چُنگل سے نکالنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ تھوڑی ہی سہی‘ لوگ فوری راحت چاہتے ہیں۔ چند ایک معاملات میں ‘اگر فوری‘ محدود راحت کا اہتمام کردیا جائے تو عوام کی تشفّی ہوتے دیر نہیں لگتی۔ معیشت کے اعداد و شمار اور اصطلاحات کی بُھول بُھلیّوں سے عوام کا کچھ لینا دینا نہیں۔ عام آدمی کو معیشتی امور پر تند و تیز اور دھواں دار بحث سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہ تو صرف یہ جاننا چاہتا ہے اُس کے ہاتھ کیا آیا ہے یا آرہا ہے۔ عوام اول و آخر صرف باٹم لائن اپروچ رکھتے ہیں ‘یعنی یہ کہ گھوم پھر کر وہ کہاں کھڑے ہوتے ہیں‘ اُنہیں کیا ملتا ہے اور یوں بھی غریبوں کی آرزوئیں کیا‘ اُمیدیں کیا۔ اُن کی تو چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہوتی ہیں‘ جن کا پورا کیا جانا بھی کچھ دشوار نہیں ہوتا مگر افسوس کہ حکومتی مشینری سے اتنا بھی نہیں ہو پاتا۔ بڑی بڑی باتیں کرنے پر توجہ دی جاتی ہے‘ چھوٹے چھوٹے کام کرتے رہنے کو ترجیحات میں شامل نہیں کیا جاتا۔ 
صورتِ حال ہے ہی کچھ ایسی کہ اُمید کا دامن تھامے رہنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ قوم کی ذہنی حالت وہی ہے ‘جس کی طرف میرزا نوشہ نے اس شعر میں اشارا کیا ہے: ؎ 
سنبھلنے دے مجھے اے نااُمیدی! کیا قیامت ہے؟ 
کہ دامانِ خیالِ یار چُھوٹا جائے ہے مجھ سے 
عوام بے چارے کیا کریں۔ اُن کی ہر اُمید پر بالآخر پانی پِھر جاتا ہے۔ حکومت کرنے کچھ جاتی ہے اور ہو کچھ جاتا ہے! مُلا کی دوڑ مسجد تک۔ ہر بات گھوم پِھر کر سخت فیصلوں اور کڑوی گولیوں تک آ جاتی ہے۔ بار بار عوام ہی کو قربانی کا بکرا بنانا حکومتوں کا وتیرہ جو ٹھہرا۔ جن کی تجوریاں بھری ہوئی ہیں اور جو ریاست کے نظم و نسق میں اپنا مالیاتی کردار ادا کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں‘ اُن کی گردن میں پھندا ڈالنے سے گریز کیا جارہا ہے۔ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کے لیے رعایتوں کا اعلان کرکے اب تک اُن کے لیے انتہائی نرم گوشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ دنیا کا چلن ہے کہ طویلے کی بلا بندر کے سر‘ یعنی جب طاقتور پر زور نہ چلے تو کمزور کو دبایا جائے۔ قومی خزانے کو بھرنے کے لیے بجلی‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھاتے رہنے پر اکتفا کیا جارہا ہے۔ اشیائے خور و نوش کے علاوہ گھریلو استعمال کی بہت سی دوسری اشیاء کے نرخ بھی یومیہ بنیاد پر بڑھ رہے ہیں‘ مگر روک تھام کا کوئی نظام نہیں۔ خان صاحب! ایسا کروگے‘ تو کون آئے گا؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں