"MIK" (space) message & send to 7575

رات ہوگئی جواں

ایک زمانے سے یہ راگ الاپا جارہا ہے کہ کراچی میں راتیں جاگتی ہیں‘اسی مناسبت سے اسے روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا رہا ہے۔ میر ے مطابق یہ باتیں قصۂ پارینہ ہو چکی ہیں۔اب‘ بجلی والوں کی مہربانی سے معاملہ یہ ہے کہ ع
روشنی کے شہر میں ظلمت مقدّر ہو گئی 
بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی مہربانی سے کراچی کا ایک بڑا حصہ رات کو تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ بیشتر بڑی سڑکیں بھی روشنی سے یکسر محروم ہیں۔ ایک تو گڑھوں والی‘ ادھڑی ہوئی سڑکیں اور پھر روشنی بھی ندارد۔ ایسے میں مسافروں کا اللہ ہی حافظ و ناصر۔ 
مگر خیر‘ یہ قصہ پھر کبھی سہی۔ آئیے‘ اصل موضوع کی طرف چلتے ہیں۔ کسی زمانے میں سلیم رضا اور کوثر پروین کا گایا ہوا کورس بہت مقبول ہوا تھا ‘جس کے بول تھے: 
رات ہو گئی جواں 
نغمہ بن کر چھا گئی لب پہ دل کی داستاں 
یاروں نے یہ بول دِلوں پر نقش کرلیے! راتوں کو جاگنے کے حوالے سے کراچی کی اب خاص شناخت بن چکی ہے۔ کیا روشنی اور کیا تاریکی‘ شہر بھر میں ہر طرف زندگی رات بھر متحرک دکھائی دیتی ہے۔ لوگ جیسے رات کی نیند کے مزے لینا بھول گئے ہیں۔ بعض علاقے تو ایسے ہیں کہ دن بھر خوابیدہ رہتے ہیں اور بیدار ہی رات ہونے پر ہوتے ہیں۔ رنچھوڑ لین‘ حسین آباد‘ برنس روڈ‘ کھارادر‘ گارڈن‘ لیاقت آباد ڈاک خانہ‘ نیو کراچی نمبر 5 ‘ناظم آباد (پاپوش نگر)‘ لنڈی کوتل چورنگی فوڈ سٹریٹ‘ دھوراجی کالونی اور دوسرے بہت سے علاقے رات بھر جاگتے رہتے ہیں۔ ان علاقوں میں ایسی چہل پہل رہتی ہے کہ رات پر دن کا گماں ہوتا ہے۔ 
رات پر دن کا گماں؟ بہت خوب! کیا یہ قابلِ فخر بات ہے؟ پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ رات بھر جاگنے کے رجحان کو کسی بھی اعتبار سے قابلِ فخر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دنیا بھر میں متوازن زندگی کے لیے جو کچھ لازم سمجھا جاتا ہے‘ اُس میں جلدی سونا اور جلدی جاگنا بھی شامل اور نمایاں ہے۔ لوگ ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کے لیے رات کی نیند سے محروم ہونا گوارا نہیں کرتے۔ صحتِ عامہ پر نظر رکھنے والے ماہرین اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ انسان رات کی پُرسکون نیند سے لطف اندوز ہونا یقینی بنائے‘ کیونکہ اس سے عمومی طور پر پورا جسم اور خصوصی طور پر ذہن خاصی تقویت پاتا ہے۔ 
ہم نے شاید یہ طے کرلیا ہے کہ خود کو کسی اور دنیا (یا کائنات) کا ثابت کرکے دم لیں گے! کراچی کا عمومی مزاج یہ ہوگیا ہے کہ کام پر سے واپسی کے بعد اہلِ خانہ کے ساتھ ایک آدھ گھنٹہ گزار کر باہر آئیے اور ہوٹل پر پوری رات گزار دیجیے۔ لوگ تیار ہوکر رات کے دس گیارہ بجے گھر سے نکلتے ہیں تو فجر کی اذان سُن کر ہی گھر کا رخ کرتے ہیں۔ 
رات بھر جاگنے میں کیا نشہ ہے‘ کیا جادو ہے‘ یہ سمجھنے کے لیے آپ میں انتہائی اعلیٰ درجے کی دانش کا پایا جانا لازم ہے‘ کیونکہ اگر کسی ''رات کے راہی‘‘ کو سمجھانے بیٹھیے تو اُس کے جوابی ''دلائل‘‘ سُن کر دماغ کی چُولیں ہل جاتی ہیں! یہ ایسا نشہ ہے کہ ایک بار چڑھے تو اُتارنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ نشہ تُرشی سے اُتر جاتا ہے‘ مگر رات کا نشہ ایسا ہے کہ کسی بھی تُرشی سے نہیں اُترتا‘ بلکہ کبھی کبھی تو تُرشی اِس نشے کو دو آتشہ کردیتی ہے! 
عملی ‘یعنی عامل صحافی کی حیثیت سے زندگی بسر کرتے ہوئے ہم نے کم و بیش ربع صدی تک رات کی شفٹ میں کام کیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ دنیا ہمیں بھی رات کا راہی قرار دیتی ہے۔ ہم اس ٹائٹل سے زیادہ خوش نہیں‘ بلکہ ہمارا کیس تو ''مجبوری کا نام شکریہ‘‘ والا ہے! ہم چاہیں کہ نہ چاہیں‘ رات بھر جاگنا ہی پڑتا ہے۔ ڈیوٹی ختم کرکے گھر پہنچتے پہنچتے بھی چار تو بج ہی جاتے ہیں۔ جب ہم سونے کا سوچ رہے ہوتے ہیں تب تک مرغے جاگ چکے ہوتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ رات بھر خبروں سے کشتیاں لڑتے لڑتے ہماری ذہنی حالت بھی ایسی ہوچکی ہوتی ہے کہ مرغے کی طرح بانگ دینے کو جی چاہتا ہے! خیر‘ ہم تو مجبور ہیں۔ شہرِ قائد کے مکین کس خوشی میں رات بھر بیدار رہتے ہیں؟ پروفیسر آل احمد سُرورؔ نے کہا ہے ؎ 
دولتِ درد ملی‘ دیدۂ بیدار ملا 
لوگ کہتے ہیں غمِ عشق میں کیا رکھا ہے 
اہلِ کراچی کی اکثریت بھی شاید یہی سوچ کر جاگتی ہے کہ ''دیدۂ بیدار‘‘ سے بہرہ مند ہونے کا ''شرف‘‘ حاصل ہے! 
تفنّن ِبرطرف‘ رات رات بھر جاگنے کا کلچر شہر ِ قائد کے مکینوں کی اکثریت کو بالعموم اور نئی نسل کو بالخصوص دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ رب العٰلمین نے انسان کے لیے طے کردیا ہے کہ (اگر کوئی واقعی عذر نہ ہو تو) دن کو کام اور رات کو آرام کیا جائے۔ جن میں دانش پائی جاتی ہے اور جو رب کے کہے پر عمل کرنے کو سعادت جانتے ہیں ‘وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ جتنا بھی کام (معاشی سرگرمی) ہے وہ دن کی روشنی میں ختم کیا جائے اور رات کی تاریکی میں پُرسکون نیند کا لطف اُٹھایا جائے۔ ایسے لوگ اب خاصے کم رہ گئے ہیں۔ 
رات بھر جاگنے کا کلچر ویسے تو سبھی کے لیے خسارے کا سَودا ہے‘ مگر نئی نسل کے لیے یہ ہر اعتبار سے زہر ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ 15‘ 16 سال کے لڑکے رات بھر گھر سے باہر رہنے کو اپنے لیے باعثِ افتخار سمجھنے لگے ہیں۔ رات کو گھر سے باہر رہنے سے دراصل تھوڑی سی آزادی کا تصور وابستہ ہے۔ نوجوانوں کو رات گھر سے باہر رہنے میں غیر معمولی آزادی و خود مختاری محسوس ہوتی ہے۔ یہ عجیب نشہ ہے۔ جن نوجوانوں کو رات گھر سے باہر گزارنے کی عادت پڑ جائے‘ اُن کا بہت کچھ بدل جاتا ہے اور بہت کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ تعلیم کا معاملہ بھی رُل جاتا ہے اور کیریئر سے متعلق خواہشات اور عزائم کا بھی تیا پانچا ہو جاتا ہے۔ کسی جواز کے بغیر رات بھر جاگنے والے دن میں اگر‘ تعلیم حاصل کرنے نکلیں تو غنودگی کے عالم میں کچھ بھی نہیں سیکھ پاتے اور اگر کام پر جائیں تو کارکردگی خاصی محدود رہ جاتی ہے۔ رات بھر کا جاگا ہوا ‘جسم دن بھر کسمساتا رہتا ہے۔ ایسے لوگوں کے مزاج میں تساہل در آتا ہے۔ کوئی بھی کام ڈھنگ سے ہو پاتا ہے نہ وقت پر۔ کتنی ہی کوشش کیوں نہ کی جائے‘ رات بھر جاگنے کے بعد دن میں الرٹ رہنا اور صلاحیت و سکت کے مطابق کام کرنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ 
وہی زندگی کام کی ہے‘ جو کائنات کے خالق کے طے کردہ اصولوں اور نظام کے مطابق بسر کی جائے۔ انسان کے لیے بہتر یہی ہے کہ اپنے رب کے طے کردہ راستے پر چلے اور جو صلاحیتیں بخشی گئی ہیں اُنہیں بروئے کار لانے میں کسی بھی سطح پر تساہل سے کام نہ لے۔ دانش کا تقاضا ہے کہ جسم کو بے جا طور پر تھکن سے دوچار نہ کیا جائے۔ رات بھر کسی جواز یا مصرف کے بغیر جاگنا اور محض گپ شپ کرتے رہنا بیک جسمانی اور ذہنی مرض ہے۔ رات بھر جاگنے کی عادت خرابی پیدا کرنے پر آتی ہے تو جسم تک نہیں رکتی ‘بلکہ پوری زندگی کو داؤ پر لگادیتی ہے۔ 
الغرض پاکستان جیسے معاشرے اس بات کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ لوگ راتیں جاگ کر گزاریں اور دن بھر ذہنی تھکن اور بے دِلی کے شکار رہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ قوم سونے اور جاگنے کے معاملے میں بھی وطن کا مفاد ذہن نشین رکھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں