"MIK" (space) message & send to 7575

ہم کہ ٹھہرے … آدمی!

عید الاضحی کی مناسبت سے ہر سال کراچی میں متعدد مقامات پر مویشی منڈیاں لگتی ہیں۔ سب سے بڑی منڈی سپر ہائی وے پر لگتی ہے‘ جہاں سندھ‘ پنجاب اور بلوچستان سے لائے جانور فروخت کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ اب کے بھی یہ منڈی تو سجی ہے‘ مگر معاملات بہت حد تک بارش کے پانی کی نذر ہوگئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہونے والی بارش نے مویشی منڈی میں لائے گئے جانوروں اور اُن کے مالکان کو بھی پریشانی سے دوچار کردیا۔ مختصر مدت کے لیے مویشیوں کی قیمتیں بھی زیر آب آگئیں! ایسا کم ہی ہوتا ہے ‘کیونکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ لوگ قربانی کا جانور خریدنے کے معاملے میں انتہائی بُودے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کبھی کبھی تو کوئی سَودا دیکھ کر محسوس ہوتا ہے ‘کئی گدھے مل کر گائے خرید رہے ہیں! 
ہر سال قربانی کے جانور دیکھ کر ہم دل تھام کر رہ جاتے ہیں۔ اُن کی مثالی نوعیت کی صحت دیکھ کر رشک آتا ہے۔ اور پھر جب اپنی صحت پر نظر پڑتی ہے تو رشک میں سے ''ر‘‘ نکل جاتا ہے! قربانی کے لیے پالے جانے والے جانوروں کی صحت دیکھ کر ایک ہم کیا‘ کراچی کے بیشتر باشندے شدید نوعیت کے احساسِ کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ہونا بھی چاہیے۔ صحت کا ایسا معیار انسانوں کے تو محض خواب و خیال ہی کا حصہ ہوکر رہ گیا ہے۔ اہلِ کراچی ''چشمِ تصور کی آنکھ‘‘ سے بہت کچھ دیکھتے ہیں‘ مگر قربانی کے جانوروں والی صحت کے بارے میں سوچنے سے پھر بھی گریز کرتے ہیں‘ کیونکہ اُنہیں یقین ہے کہ صحت کا ایسا معیار اُنہیں کبھی نصیب نہیں ہوسکتا! ہم محکمہ و وزارتِ صحت سے استدعا کرتے ہیں کہ صحتِ عامہ کے حوالے سے کوئی بھی پالیسی مرتب کرتے وقت قربانی کے جانوروں کی صحت مدِنظر رکھیں‘ تاکہ اِس ملک کے انسانوں کو بھی صحت کی مد میں کچھ تو ملے۔
قربانی کے جانوروں کی ''ٹور‘‘ دیکھ کر دل بیٹھ بیٹھ جاتا ہے۔ ایک طرف تو اُن کی ٹور اور دوسری طرف لوگوں کا اُن کے ناز اٹھانے پر مائل رہنا۔ بس‘ یہ سمجھ لیجیے کہ مویشیوں کی قربانی سے قبل لوگ اُن پر قربان ہوتے رہتے ہیں۔ یہ دونوں حقیقتیں مل کر بہت سوں کے دل و دماغ پر قیامت سی ڈھاتی ہیں۔ قربانی کے جانور کو بالآخر چُھری کے نیچے آنا ہوتا ہے‘ مگر منڈی سے چُھری کے نیچے آنے تک کی درمیانی مدت میں قربانی کا جانور جن مراحل سے گزرتا ہے‘ اُنہیں دیکھ کر فلموں کے ولن یاد آجاتے ہیں۔ ولن کو آخر میں ہیرو کے ہاتھوں پٹائی کے مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے‘ مگر ایسا تو فلم کے آخری سین میں ہوتا ہے۔ تب تک تو وہ مزے ہی لُوٹتا رہتا ہے! منڈی میں فروخت ہونے کے لمحے سے قربانی کے جانور کی ٹور شروع ہوتی ہے‘ تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ قدم قدم پر اُس کے نخرے برداشت کرنے والے موجود ہوتے ہیں۔ قربانی کا جانور بندھا ہوا کھڑا ہو یا گلیوں گلیوں گھمایا پھرایا جارہا ہو‘ لوگ اُسے دیکھتے رہتے ہیں اور اپنی آنکھوں کی قسمت پر رشک کرتے ہیں کہ وہ کیا چیز دیکھ رہی ہیں! قربانی کا جانور ہفتہ دس دن اِس طور رہتا ہے کہ ٹاپ بیورو کریٹس اور بڑی کاروباری شخصیات کا لائف سٹائل آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ کیا چھوٹے اور کیا بڑے ... سبھی قربانی کے جانور کے ناز اٹھانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا تو بس نہیں چلتا‘ ورنہ وہ قربانی کے جانور کو خوش کرنے کے لیے اُس کے آگے ٹھمکے بھی لگائیں! 
عام پاکستانی ‘جس انداز‘ نہج اور معیار کی زندگی بسر کر رہا ہے‘ اُسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کی دوڑ میں وہ اِتنا پیچھے رہ گیا ہے کہ بعض حالات میں جانور بھی اُس پر سبقت لے جاتے دکھائی دیتے ہیں! قربانی کے جانوروں کا تو خیر غیر معمولی حد تک خیال رکھا ہی جاتا ہے‘ عام حالات میں بھی جانور کو جو توجہ ملتی ہے‘ وہ بے چارے عام آدمی کو نہیں مل پاتی۔ گھر کا چولہا جلتا رکھنے کے لیے دن رات ایک کرنے والے کو بالعموم گدھا تصور کیا جاتا ہے۔ اور اِس سے بھی دل خراش حقیقت یہ ہے کہ اُس کا اُتنا خیال بھی نہیں رکھا جاتا جتنا چار ٹانگوں والے اصلی گدھوں کا رکھا جاتا ہے! ہر نوع کے جانوروں کی توقیر اور اپنی مستقل تذلیل دیکھ کر عام آدمی اگر دل مسوس کر نہ رہ جائے تو اور کیا کرے۔ 
طُرفہ تماشا یہ ہے کہ جو خود سال بھر لحظہ لحظہ قربان ہوتا رہتا ہے‘ اُس سے اہلِ خانہ اور بالخصوص بچے قربانی کا جانور لانے کی فرمائش اِس طور کرتے ہیں کہ اُس کا ناک میں دم آ جاتا ہے۔ پُرزور فرمائش کے آگے وہ اتنا کہنے کی ہمت بھی اپنے اندر نہیں پاتا کہ سال بھر قربان ہوتا تو رہتا ہوں‘ اب اور کون سا جانور قربان کرنا ہے! 
قربانی کے جانوروں کی انتہائی قابلِ رشک صحت اپنی جگہ‘ اُن کی قیمت کا معاملہ دلوں پر اضافی قیامت ڈھاتا ہے۔ ایک جانور کی اِتنی توقیر اور اکیسویں صدی کے انسان کی بے توقیری کا یہ عالم کہ حادثے میں موت کے گھاٹ اُترے تو حکومت بہت زور دینے پر محض لاکھ ڈیڑھ روپے کا اعلان کرے ... اور ''اونٹ کے منہ میں زیرے‘‘ جیسی یہ رقم بھی متعلقہ دفاتر کے کئی چکر کاٹنے کے بعد مل پائے! 
بارش کے بعد پائے جانے والے کیچڑ اور دیگر متعلقہ عِلّتوں کے باوجود کراچی میں بھی عید الاضحی کی تیاریاں تیزی سے زور پکڑ رہی ہیں۔ ہر طرف جانوروں کی بہار ہے۔ قربانی کے جانوروں کی ناز برداری کے معاملے میں بچے تو خیر پیش پیش ہیں ہی‘ بڑے بھی بچے بنے ہوئے ہیں۔ لوگ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ضرور ہیں ‘مگر ابراہیم علیہ السلام کی سُنّت پر عمل کرنے میں غفلت و تساہل کا مظاہرہ کسی حال میں گوارا نہیں کرتے۔ اگر‘ پورا جانور نہیں خرید سکتے تو حصہ ڈال لیتے ہیں۔ بچوں کی فرمائش پر بکرا بھی خرید لیا جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بکرے کو دیکھ کر بار بار خیال آتا ہے کہ قربانی کے معاملے میں ہم اُس پر بازی لے گئے ہیں کہ وہ ایک بار ذبح ہوتا ہے اور ہم سال بھر بات بے بات ذبیحے کی منزل سے گزرتے ہیں! 
عید الاضحی میں ابھی ہفتے سے بھی زیادہ وقت پڑا ہے۔ ذبیحے کی تیاریوں میں رنگا رنگی اور تیزی آتی جارہی ہے۔ ملک کے باقی حصوں کی طرح کراچی میں بھی جوش و خروش کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ اللہ یہ رونق سلامت رکھے‘ یہ میلہ یونہی لگا رہے۔ ہاں‘ اِس میلے کی رونق کا اہتمام کرنے والوں کو کسی طور نظر انداز نہ کیا جائے۔ جو سال بھر کسی جواز کے تحت یا جواز کے بغیر حالات کی چُھری کے نیچے آتے رہتے ہیں۔ اُن کے مفادات کو کسی طور پسِ پشت نہ ڈالا جائے۔ جو ہوش سنبھالنے کے بعد سے مرتے دم تک صرف کام کرتے رہتے ہیں ‘اُن کے مقدر میں اضافی تازیانہ یہ ہے کہ اُن کے لیے کسی ایسی سہولت کا اہتمام نہیں کیا جاتا‘ جس سے کچھ دل بستگی کا سامان ہو۔
قربانی کے اِن بکروں کے لیے بھی ‘اگر قربانی کے جانوروں کی سی توقیر کا کسی حد تک اہتمام ہو تو اِن کے آنسو بھی پُنچھ جائیں۔ دیکھیے‘ جن کے گلے پر سال بھر چُھری پھرتی رہتی ہے‘ اُن کے دن کب پھرتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں