ہر لمحہ وہی لمحہ ہے‘ جس کے آپ منتظر تھے۔ ہم زندگی بھر یہ سوچتے ہیں کہ ماضی سے کچھ سیکھیں گے اور مستقبل کو سنواریں گے۔ ہوتا یوں ہے کہ ہم ماضی اور مستقبل کے درمیان دب کر‘ پس کر رہ جاتے ہیں۔ گزرے ہوئے زمانے صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ اُن سے کچھ سیکھا جائے۔ ہر گزری ہوئی بات یاد بن کر ہمارے حافظے کا حصہ بن جاتی ہے۔ اچھی یادیں ہمیں سُکون بخشتی ہیں اور بُری یادیں جینا حرام کرتی رہتی ہیں۔ ماضی اچھا ہو یا بُرا‘ صرف اِس لیے ہوتا ہے کہ ہم اُس سے کچھ نہ کچھ سیکھیں۔ گزرے ہوئے زمانے اِس لیے نہیں ہوتے کہ اُن میں زندگی بسر کی جائے۔ اگر گزرے ہوئے ادوار میں جینا ممکن ہوتا تو دنیا اتنی رنگین اور طرح دار نہ ہوئی ہوتی۔
یہی معاملہ آنے والے زمانوں کا بھی ہے۔ جو زمانے ابھی آئے ہی نہیں اُن کے بارے میں سوچ سوچ کر کچھ لوگ دبلے ہوئے جاتے ہیں۔ اب تو ''مستقبلیات‘‘ باضابطہ موضوع ہے ‘جس کے تحت مستقبلِ قریب و بعید کے ممکنہ رجحانات کا درست اندازہ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آنے والے زمانوں کے بارے میں سوچنے میں بھی کوئی خاص قباحت نہیں‘ مگر اُن زمانوں میں گم ہوکر رہ جانا یقینی طور پر کوئی سود مند سرگرمی نہیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم لمحۂ موجود کو سب سے زیادہ اہمیت دیں۔ اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے کی یہی سب سے زیادہ قابلِ قبول اور قابل ِ ستائش صورت ہے۔ گزرے ہوئے اور آنے والے زمانوں کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہونے یا خوش فہمی کے جام پیتے رہنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ ہم زمانۂ حال کا حصہ بنتے ہوئے اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنائیں۔
ماضی سے سبق سیکھنا تو سمجھ میں آتا ہے‘ مگر معاملہ یہ ہے کہ لوگ مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں کرکے بھی ناک میں دم کرتے رہتے ہیں۔ اِن پیش گوئیوں میں بہت کچھ محض خام خیالی کا شاخسانہ ہوتا ہے۔ چند ایک کتابیں پڑھ کر اور دس بیس انٹرویوز سن کر لوگ پیش گوئیاں کرنے لگتے ہیں۔ مختلف شعبوں کے ممکنہ رجحانات کے بارے میں ایسی ایسی پیش گوئیاں کی جاتی ہیں کہ پڑھنے کے بعد سمجھ میں نہیں آتا کہ غور کریں یا قہقہے لگائیں۔ بیک منسٹر فُلر کہتے ہیں کہ مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کا بہترین طریقہ اُسے ڈیزائن کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ ہم مختلف شعبوں میں اپنی مہارت بڑھائیں‘ مہارت کی بنیاد پر زیادہ کام کریں اور اپنے آپ کو بھرپور انداز سے مفید ثابت کریں۔
مستقبل کے حوالے سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ سب سے اچھا طریقہ تو یہ ہے کہ گزرے ہوئے زمانوں کی بُھول بُھلیّوں سے نکل کر موجودہ زمانے کو کھلے دل سے قبول کیا جائے اور اپنی صلاحیت و سکت کے مطابق ‘بھرپور محنت کی جائے۔ اس دنیا کا معیار اگر کچھ بلند ہوگا تو محض سوچنے سے نہیں ‘بلکہ کرنے سے ہوگا۔ عمل ہی سے تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ مستقبل کے لیے کچھ کرنا ہے تو ابھی کرنا ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنے دل کو یہ کہتے ہوئے بہلاتے رہتے ہیں کہ بھرپور اور ٹھوس انداز سے کچھ کرنے کا وقت ابھی نہیں آیا! کچھ کرنے کا وقت گزرا ہوا ہوتا ہے نہ آیا ہوا۔ یہ تو موجودہ وقت ہے۔ جو لوگ ''پھر کبھی‘‘ کے ذریعے اپنے دل کو بہلاتے رہتے ہیں‘ اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ زندگی ''پھر کبھی‘‘ کا آپشن دیتی ہی نہیں۔ جب ہم کسی بھی کام کے موزوں ترین موقع کو ہاتھ سے جانے دیتے ہیں تب اُس کام کے کرنے کا دوسرا یا متبادل موقع مطلوب نتائج پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ وقت کا دم بہ دم یہی تقاضا ہے کہ ''ابھی نہیں یا کبھی نہیں‘‘ کی سوچ کو اپنایا جائے یعنی جو کچھ بھی کرنا ہے‘ وہ کر گزرنا ہے‘ آنے والے کسی وقت پر نہیں ٹالنا۔ ہم اس بنیادی تقاضے کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسرے‘ تیسرے‘ چوتھے موقع یا آپشن کی تلاش میں رہتے ہیں۔
انسان جس زمانے کو ٹوٹ کر چاہتا ہے اُسی کا ہو جاتا ہے۔ جو لوگ ایک باضابطہ مضمون کی حیثیت سے تاریخ میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے ہیں ‘وہ گزرے ہوئے زمانوں کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ ان کی گفتگو اگلے وقتوں سے شروع ہوکر اگلے وقتوں ہی پر ختم ہوتی ہے۔ یہی الجھن کی بات ہے۔ انسان کو گزرا ہوا زمانہ ہمیشہ اچھا لگتا ہے۔ حد یہ ہے کہ گزرا ہوا زمانہ بُرا ہو تب بھی یاد رہ جاتا ہے‘ بلکہ یاد آتا رہتا ہے۔ دنیا کا ہر انسان ایک خاص حد تک ماضی پرست ہوتا ہے۔ انسانی فطرت و مزاج کے پیش نظر یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ ماضی کے حوالے سے تھوڑا بہت سوچنے میں کچھ ہرج نہیں ‘مگر ماضی کی پرستش کرتے رہنا یا ماضی کے تلخ تجربات کو یاد کرکے کڑھتے رہنا کسی بھی اعتبار سے قابلِ ستائش عمل یا طریقِ زندگی نہیں۔
انسان غیر معمولی خواہش رکھنے پر بھی ماضی سے جان چھڑا نہیں سکتا۔ ہاں‘ ماضی میں گم رہنے کے رجحان کو کمزور ضرور کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے مشق درکار ہے۔ انسان کی کوئی عادت پختہ ہو جائے تو آسانی سے جان نہیں چھوڑتی۔ جان چھڑانے کے لیے خاصی مشق کرنا پڑتی ہے۔ نفسی امور کے ماہرین اِس حوالے سے متعدد طریقے تجویز کرتے ہیں۔ زمانۂ حاضر یا لمحۂ موجود کو سب سے زیادہ اہمیت دینا انسان کے لیے پلک جھپکتے میں ممکن نہیں ہو جاتا۔ یہ مشق کا معاملہ ہے۔ کسی بھی عادات سے چھٹکارا پانے کے لیے انسان کو اپنے آپ پر جبر کرنا پڑتا ہے۔ وقت کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی کرسکتے ہیں وہ کر گزریں‘ کسی اور موقع کے منتظر نہ رہیں۔ ہر کام کے کرنے کا ایک وقت ہوتا ہے۔ وہ وقت گزر جائے تو مطلوب نتائج کا حصول انتہائی دشوار ثابت ہوتا ہے۔ یہ حقیقت جس قدر جلد سمجھ میں آجائے اُتنا ہی اچھا ہے۔
اِس وقت روئے زمین پر کوئی ایک بھی ترقی یافتہ قوم ایسی نہیں ‘جس نے وقت کے تقاضوں کو سمجھے اور نبھائے بغیر ترقی کی ہو۔ ہر ترقی یافتہ اپنی حقیقی اور بھرپور ترقی اُسی وقت ممکن بناسکی ‘جب اُس نے وقت کی نزاکت کو سمجھا اور اپنی صلاحیت و سکت کو وقت کے تقاضوں کے مطابق‘ بروئے کار لانے پر توجہ دی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ ہر ترقی یافتہ قوم آنے والے زمانوں کا خالص تکنیکی بنیاد پر درست اندازہ لگانے کی کوشش کرتی ہے۔ جو تبدیلیاں دس‘ پندرہ یا بیس سال بعد رونما ہونی ہیں اُن کے لیے خود کو تیار کرنا لازم ہے‘ تاکہ بدلتی ہوئی صورتِ حال کے منفی اثرات سے بچنا ممکن ہوسکے۔
ماضی کے بعد اور مستقبل سے پہلے بہت کچھ ہے جو ہمیں کرنا ہے۔ گزرے ہوئے اور آنے والے زمانوں کے درمیان جو لمحات ہمیں میسر ہیں وہی زندگی کا اصل روپ ہیں۔ اِن لمحات کو موثر طریقے سے بروئے کار لانے ہی پر ہماری زندگی کا رخ متعین ہوتا ہے۔ پورے ہوش و حواس کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے ماحول کی ہر تبدیلی پر نظر رکھتے ہیں اور تمام تبدیلیوں سے مطابقت رکھنے والے عمل یا ردِعمل کا مظاہرہ کرکے اپنے لیے امکانات کی کھیتی ہری رکھتے ہیں۔ پوری طرح مثبت رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کا یہی درست طریقہ ہے۔ گزرے ہوئے وقت کے بے جا ماتم اور آنے والے وقت کے حوالے سے غیر ضروری تشویش سے دامن بچاتے ہوئے لمحاتِ حاضر سے کماحقہ مستفید ہونا ہی قرینِ دانش ہے۔