"MIK" (space) message & send to 7575

’’صِفر‘‘ سے دور رہنا ہے

ایک سفر ایسا ہے‘ جس کی کوئی منزل نہیں‘ یعنی چلتے ہی رہنا ہے‘ بڑھتے ہی جانا ہے۔ یہ سفر ہے اوصاف میں اضافے اور اُن کی تہذیب و تطہیر کا۔ آج کی عمومی زبان میں کہیں تو معاملہ اپ ڈیٹنگ اور اپ گریڈنگ کا ہے۔ خالص تکنیکی زبان بروئے کار لائی جائے تو اِسے ''ویلیو ایڈیشن‘‘ کہا جائے گا‘ یعنی ہر انسان کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں میں ورائٹی لائے اور محنت کا گراف بھی بلند کرے۔ محنت ہی سے صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور نکھار بھی پیدا ہوتا ہے۔ 
آج ہر انسان اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ کارگر بنانے کا خواہش مند ہے‘ تاکہ محنت کا زیادہ سے زیادہ معاوضہ ملے۔ ملنا بھی چاہیے۔ زیادہ معاوضہ چاہنا بُری بات نہیں۔ مشکل اُس وقت کھڑی ہوتی ہے کہ ہم اپنے آپ کو اپ ڈیٹ اور اپ گریڈ کیے بغیر بہت کچھ پانے کی تمنا کرتے ہیں۔ محنت کرنے کی غیر معمولی توقیر ہے ‘مگر اس توقیر کی بھی ایک حد ہے۔ دنیا میں محنت کرنے والوں کی کمی نہیں۔ دنیا بھر میں لوگ رات محنت کرتے ہیں‘ اپنے وجود کو کھپا دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ نیک نیتی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود من چاہا معاوضہ نہیں مل پاتا۔ بات کچھ یوں ہے کہ اگر کسی کاریگر کے فن میں زیادہ نفاست نہ ہو تو اُسے تیار کی ہوئی اشیاء کی تعداد کے لحاظ سے معاوضہ دیا جاتا ہے‘ نہ کہ معیار کے لحاظ سے۔ اگر کسی کاریگر کے ہاتھ میں غیر معمولی صفائی اور نفاست ہو تو لوگ زیادہ معاوضہ دیتے ہیں۔ یہ معاوضہ محنت کا نہیں‘ نفاست کا ہوتا ہے۔ 
محنت کے ساتھ مہارت بھی ہو تو معاوضہ زیادہ ملتا ہے۔ یہ ساری دنیا کا اصول ہے۔ مہارت کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ایک تو یہ کہ کام ڈھنگ سے کرنا آنا چاہیے۔ اور دوسرے یہ کہ کام میں کچھ نہ کچھ ندرت بھی ہو۔ جب تک نیا پن نہ ہو تب تک لوگ متوجہ نہیں ہوتے۔ جیسا کام سب کر رہے ہیں ‘ویسا ہی کام اگر آپ بھی کریں گے تو لوگ آپ کی طرف متوجہ کیوں ہوں گے؟ آپ کو کچھ ہٹ کر کرنا ہے تاکہ لوگ متوجہ بھی ہوں اور قدر بھی کریں۔ 
ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں ‘جس میں معمول کے کام کرنے والوں کی کمی بھی نہیں اور وقعت بھی نہیں۔ لگا بندھا کام کرنے والوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ جو دوسروں سے ہٹ کر کچھ کرتا ہے‘ اُسی کی موجودگی کا نوٹس لیا جاتا ہے۔ 
یہ تو ہوا معاشی امور کا معاملہ۔ معاشی امور کا تعلق ہماری زندگی سے اس قدر بنیادی اور گہرا ہے کہ کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ معاشرتی امور بھی معاشی امور کی خرابی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ بہر کیف‘ زندگی صرف معاشی امور تک محدود نہیں۔ زندگی میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ اگر معاشی امور کو زندگی کے ہر معاملے پر محیط کرلیا جائے ‘تو خرابیوں کا گراف تیزی سے بلند ہوتا ہے۔ 
معاشرتی امور میں ہمیں بہت سی باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ تعلقات کی نوعیت بھی معاشرتی معاملات پر اچھے یا بُرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ اچھی زندگی وہ ہے‘ جس میں ہر پہلو مکمل اور متوازن ہو۔ اگر انسان مرتے دم تک معاشی معاملات ہی کو سب کچھ سمجھتا رہے تو کیا خاک جیا؟ جن کی جیبیں اور تجوریاں بھری ہوئی ہوں وہ دوسرے بہت سے معاملات کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ خرابیوں کی طرف لے جانے والا راستہ یہی ہے۔ 
زندگی کو متوازن رکھنے کے لیے لازم ہے کہ تمام معاملات میں توازن پیدا کرنے پر توجہ دی جائے۔ معاشرتی معاملات میں توازن پیدا کرنے سے گریز زندگی کو غیر متوازن کردیتا ہے۔ گھر‘ خاندان‘ احباب‘ کمیونٹی اور دفتری ساتھیوں (کولیگز) میں انسان کو اپنا آپ متوازن رکھنا پڑتا ہے۔ دل چاہے یا نہ چاہے‘ بہت سے معاملات میں توازن برقرا رکھنا ہی پڑتا ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں بہت کچھ بگڑ جاتا ہے۔ کبھی کبھی معاشرتی تعلقات کی خرابی معاشی معاملات پر بہت بُری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ اثر انداز ہونے کے طریقے سے واقفیت نہ ہونے کے باعث لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں۔ معاشرتی حلقے کے لوگوں کا بالعموم معاشی حلقے کے لوگوں سے کوئی ربط نہیں ہوتا ‘مگر معاشرتی معاملات کی خرابی سے انسان کی کام کرنے کی صلاحیت بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اہلِ خانہ یا احباب سے تعلقات میں پیدا ہونے والی خرابی معاشی سرگرمیوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ 
سیانے کہتے ہیں کہ رشتہ دار تو نصیب میں لکھے ہوئے ہوتے ہیں‘ دوستوں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ رشتہ داروں سے تعلق ختم نہیں کیا جاسکتا۔ دوستوں کو ‘البتہ تبدیل کیا جاسکتا ہے‘ ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اپنایا جاسکتا ہے۔ 
ریاضی کا سیدھا سا اصول ہے کہ کوئی رقم کتنی ہی بڑی ہو‘ صفر سے ضرب دیئے جانے پر نتیجہ صفر ہی برآمد ہوتا ہے۔ تعلقات کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہمیں دوستوں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ ہر انسان کے حقیقی دوست چند ہی ہوتے ہیں اور بعض معاملات میں تو کیس ایک یا دو سے آگے نہیں بڑھتا۔ دوست وہ ہے ‘جو آپ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھائے‘ آپ کی اپ گریڈیشن کرے‘ ویلیو ایڈیشن یقینی بنائے۔ دوستی معاشی امور کو توانا کرنے کے لیے نہیں ہوتی ‘مگر دوستی کے پُرکیف ماحول میں انسان ڈھنگ سے جینے کا جوش و خروش پاتا ہے۔ اچھے دوست انسان کو بہتر زندگی بسر کرنے کی تحریک دیتے ہیں۔ اگر حلقۂ احباب عمل پسند لوگوں پر مشتمل ہو تو انسان بہت کچھ کرنے کا حوصلہ پاتا ہے۔ 
بات رشتوں کی ہو‘ دوستی یا یا پھر دیگر معاشرتی تعلقات کی ... ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ ہمیں اُن سے ربط بڑھانا ہے ‘جو ہمیں اپ گریڈ کریں‘ ہمیں ویلیو ایڈیشن کے مرحلے سے گزاریں۔ کسی بھی عدد کو صفر سے ضرب کرنے پر نتیجہ صفر رہتا ہے۔ تعلقات کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اگر ہم نچلی سطح کے لوگوں سے تعلقات استوار کریں تو ہمیں کچھ ملنا تو خیر کیا ہے‘ جو کچھ پاس ہوتا ہے‘ اُس سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں! زندگی سے ہارے ہوئے‘ جوش و خروش سے محروم اور بھرپور زندگی بسر کرنے کی لگن سے یکسر بے بہرہ لوگ ہمیں کچھ دیں گے تو کیا‘ ہم سے زندہ رہنے کی لگن بھی چھین لیتے ہیں۔ دوستی اور دیگر معاشرتی تعلقات استوار کرتے وقت غیر معمولی احتیاط لازم ہے۔ ہماری زندگی میں وہی لوگ آنے چاہئیں‘ جو پورے جوش و خروش کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر یقین رکھتے ہوں۔ کوئی بھی نیا تعلق ہمارے لیے کیسا ہے اِس کا اندازہ نتائج سے لگایا جانا چاہیے۔ اگر کسی سے دوستی یا دیگر مراسم کے نتیجے میں ہماری زندگی کا معیار بلند نہ ہو تو ملنے کا یا ملتے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ 
زندگی ڈھنگ سے بسر کرنی ہے تو ریاضی کا اصول یاد رکھیے۔ بڑے سے بڑے عدد کو صِفر سے ضرب دیجیے تو حاصلِ ضرب صِفر آتا ہے۔ تعلقات کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ جوش و خروش سے محروم لوگ ہماری زندگی میں آتے ہیں تو ہم میں پائی جانے والی تھوڑی بہت لگن کی بھی مِٹی پلید کردیتے ہیں۔ محض ضروری نہیں ‘بلکہ لازم ہے کہ ہم کسی سے دوستی پروان چڑھاتے وقت باٹم لائن‘ یعنی حتمی نتائج پر نظر رکھیں۔ اگر دوستی اور کسی اور تعلق کے نتیجے میں زندگی کی اپ گریڈیشن نہیں ہوتی اور ویلیو ایڈیشن تک بات نہیں پہنچتی تو پھر ایسے تعلقات برقرار رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اُنہیں اپنانے کی کوشش کیجیے‘ جن سے ضرب دیئے جانے کی صورت میں آپ کی قدر کئی گنا ہوجائے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں