"MIK" (space) message & send to 7575

اپنا اپنا اندھیرا

دنیا مسائل کا گڑھ ہے۔ الہامی ادیان کے علاوہ انسانی ذہن کی اختراع خیال کیے جانے والے مذاہب نے بھی یہ بات کسی نہ کسی انداز سے ضرور کہی ہے کہ یہ دنیا اس لیے ہے کہ ہم آلام و مصائب سہیں‘ یعنی ہماری آزمائش ہو اور پھر اس آزمائش کی بنیاد پر ہمارا حتمی فیصلہ ہو۔ گویا آخرت کا تصور انسانی ذہن کی اختراع سمجھے جانے والے مذاہب میں بھی کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتا ہے۔ 
دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو کسی نہ کسی شکل میں پریشانی جھیلنی ہی ہے۔ مسائل کم ہونے کا نام نہیں لیں گے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہر انسان اپنی الگ سوچ رکھتا ہے اور اُس سوچ کو کسی بھی صورت ترک کرنے پر آسانی سے آمادہ نہیں ہوتا۔ سوچ اگر بُری ہو تو اُس کا دوسروں کی سوچ سے ٹکرانا حیرت انگیز نہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اگر کسی کی سوچ اچھی ہو‘ تب بھی دوسروں کی سوچ سے ٹکرانا ہی اُس کا مقدر ہے۔ یہ ہر دور کے انسان کا انتہائی بنیادی مسئلہ ہے۔ 
جس انسان نے واضح طور پر مثبت سوچ اپنا رکھی ہو اور دوسروں کو نقصان پہنچانے سے گریز کرتا ہو‘ اُسے آسانی سے قبول نہیں کیا جاتا۔ بات سیدھی سی ہے کہ سیدھی سوچ رکھنے والا قدم قدم پر مشکلات پیدا کرتا ہے! اس بات کو یوں سمجھا جاتا ہے کہ سڑک پر اگر 90 فیصد ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا مظہر ہو تو جو 10 فیصد گاڑیاں قوانین کے مطابق چلائی جارہی ہوں ‘وہ دوسروں کے لیے الجھن پیدا کریں گی۔ اگر ٹریفک سگنل پر رکنے کا رجحان عام نہ ہو تو لال بتی دیکھتے ہی رک جانے والا دوسروں کے لیے رکاوٹ بنے گا! مثبت سوچ کا یہی معاملہ ہے۔ جب معاشرے میں ہر طرف الجھنیں بڑھ جاتی ہیں‘ لوگ منفی سوچ کے دائرے میں قید ہو جاتے ہیں تو اُنہیں ہر وہ انسان بُرا لگنے لگتا ہے‘ جس نے مثبت سوچ اپنا رکھی ہو۔ 
اگر ہم ایک لمحے کو دینی تصورات ایک طرف رکھ کر عمرانیات کے بنیادی تصورات اور نفسیات کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں بھی جائزہ لیں‘ تو اندازہ ہوگا کہ پاکستانی معاشرہ منفی سوچ کی انتہائی شکل کو چُھو رہا ہے۔ بیشتر معاملات میں سوچنے کا عمل اول تو دکھائی نہیں دیتا اور دکھائی دے بھی رہا ہو تو اُس کا منفی پہلو اس قدر نمایاں ہوتا ہے کہ کسی بات کا کوئی سِرا آسانی سے ہاتھ نہیں آتا۔ 
آج عام پاکستانی کی زندگی میں بہت کچھ ایسا ہے‘ جو اُس کی مرضی کا نہیں۔ بہت سے معاملات دوسروں کے پیدا کردہ ہیں اور شدید الجھنیں پیدا کر رہے ہیں۔ دوسری طرف بہت سے معاملات میں انسان اپنے لیے شدید مشکلات کا سامان خود کر رہا ہے۔ یہ سارا کھیل ایسا الجھا ہوا ہے کہ بہت سوں کی‘ بلکہ بیشتر کی ذہنی استعداد داؤ پر لگ گئی ہے۔ مفادات کے تصادم کی کیفیت شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ ہر سطح پر مفادات کا تصادم انسان کو مزید منفی سوچ اپنانے پر اُکسا رہا ہے۔ 
ایک طرف تو وہ مسائل ہیں ‘جو ماحول کے پیدا کردہ ہیں۔ ماحول میں حکومت بھی ہے‘ کاروباری ادارے بھی ہیں‘ احباب بھی اور رشتہ دار بھی۔ یہ سب مل کر ہمارے ماحول کی تشکیل کرتے ہیں۔ اِن کی طرف سے الجھنوں کا ملنا؛ اگرچہ تکلیف دہ ہے ‘مگر حیرت انگیز نہیں۔ اس حقیقت پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جہاں سبھی کچھ بے ذہنی کی نذر ہوچکا ہو‘ وہاں کسی بھی سطح پر کسی بہتری کی امید آسانی سے بارآور نہیں ہو پاتی۔ ہم دوسروں سے اس بات کی زیادہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ ہمارا بھلا سوچیں گے‘ ہماری زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے پر متوجہ ہوں گے۔ جہاں سبھی کچھ مادّی فوائد کے حصول کے محور کے گرد گھوم رہا ہو‘ وہاں فلاح کی امید رکھنا حیرت کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ 
ہمارے لیے سوچنا کس کا فرض ہے؟ خود ہمارا‘ اور کس کا! جہاں خود غرضی کا چلن عام ہو وہاں ہم یہ توقع کیسے رکھ سکتے ہیں کہ کوئی ہماری بھلائی کا سوچے گا یا یہ کہ وہ ہماری فلاح کو اپنے بہبود پر ترجیح دے گا؟ یہ خالص منطقی معاملہ ہے۔ ہمیں حقیقت پسندی کو اپناتے ہوئے سوچنا ہے کہ ہمارا بھلا کس چیز میں ہے اور اُن کانٹوں کو کس طور ہٹایا جاسکتا ہے‘ جو ہمارے راستے میں بچھائے جارہے ہیں یا بچھ رہے ہیں۔ 
جن معاشروں میں ہر طرف خرابیاں ہی خرابیاں پائی جاتی ہوں اور کوئی کسی اور کی بہبود کے بارے میں یا تو بالکل نہ سوچتا ہو یا زیادہ نہ سوچتا ہو‘ وہاں زندگی ایک معما ہوکر رہ جاتی ہے۔ ہمارے ہاں اس وقت عمومی کیفیت یہی تو ہے۔ ایسے میں لازم ہو جاتا ہے کہ فرد اپنے بارے میں سوچے۔ اب اگر آپ کو اپنے لیے کچھ درکار ہے تو اُس کے بارے میں آپ ہی کو سوچنا ہے۔ کوئی اور آپ کے لیے یہ کام نہیں کرے گا۔ اگر غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ سوال صرف پس ماندہ معاشروں کا نہیں۔ سلجھے ہوئے اور ترقی یافتہ معاشروں میں بھی فرد کو اپنے لیے سوچنا پڑتا ہے۔ انتہائی بنیادی نوعیت کے فیصلے تو خود ہی کرنا پڑتے ہیں۔ 
ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ ماحول میں پائی جانے والی خرابیوں کے ممکنہ اثرات سے محفوظ رہنے کی سوچ اپنانے کے بجائے آج ہم انفرادی سطح پر محض بدحواسی کا شکار ہیں اور کسی بھی مسئلے کے نمودار ہونے پر اُسے حل کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے بدحواسی کا شکار ہوکر اُسے مزید الجھانے والے کام کرتے چلے جاتے ہیں۔ 
بیشتر معاملات الجھن پیدا کرنے والے ہوں تو ذہن کی سمت درست رکھنے کی ضرورت مزید اہمیت حاصل کرلیتی ہے۔ دنیا میں جہاں بھی جتنی بھی ترقی ہوئی ہے‘ اُس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ مسائل کو حل کرنے کے لیے سیدھی ‘یعنی درست سوچ اپنائی گئی‘ ذہنوں سے منفی تصورات کو نکال دیا گیا‘ مسائل حل کرنے پر پوری‘ یعنی خاطر خواہ توجہ دی گئی۔ ہمارے ہاں اب تک اس کا اہتمام نہیں کیا جارہا۔ جب بھی کوئی بڑا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے‘ ہم اُسے حل کرنے کی بجائے محض بدحواس ہوکر اپنی سوچ کو مزید منفی کرلیتے ہیں۔ کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے جس قدر ذہنی قوت درکار ہوتی ہے ‘وہ ہم میں پائی جاتی ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ دنیا کے ہر انسان کو اللہ نے یہ قوت عطا کی ہے۔ سوال اُسے درست انداز سے بروئے کار لانے کا ہے۔ ہم مسئلے پر فوکس کرنے کی بجائے محض بدحواسی کو شعار بنائے ہوئے ہیں۔ 
اگر اندھیرا اپنا پیدا کردہ ہو تو دوسروں کی بخشی ہوئی روشنی بھی کچھ خاص کام نہیں کر پاتی۔ اندھیرا ذہن و دل کا پیدا کردہ ہو تو باہر کی روشنی کو ڈھنگ سے بروئے کار نہیں لایا جاسکتا۔ من حیث القوم ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم باہر کے اندھیرے کو اپنے لیے کافی نہ سمجھتے ہوئے اپنے اندر بھی اچھا خاصا اندھیرا پیدا کرنے یا اُسے برقرار رکھنے پر متوجہ رہتے ہیں! ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ مسائل کسی نہ کسی طور حل ہوں‘ مگر ہم اِس کی بجائے اُنہیں مزید الجھانے کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔ 
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دوسروں کے پیدا کیے ہوئے اندھیرے کے مقابل روشنی کا اہتمام کرنا ہوتا ہے۔ اندھیرے کا مقابلہ اندھیرے سے نہیں کیا جاسکتا۔ ذہن و دل کو روشن کرنے اور روشن رکھنے کی ضرورت ہے۔ عفریت نما مسائل کو سامنے پاکر محض پریشان ہونے اور بدحواسی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اُنہیں حل کرنے کی ذہنیت اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ دنیا میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے ‘اسی طور ہوئی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں