"MIK" (space) message & send to 7575

کام سے کام رکھنا ہے ‘کام آپ کا

کیا آپ کے ذہن میں یہ تصور پروان چڑھتا رہا ہے کہ کچھ لوگ قسمت کے دھنی ہوتے ہیں‘ یعنی اُنہیں ہر اعتبار سے جامع اور موزوں ترین حالات ملتے ہیں اور اِن حالات کی مہربانی سے وہ بھرپور کامیابی یقینی بناتے چلے جاتے ہیں؟ اگر واقعی ایسا تو ذہن سے یہ تصور جھٹک دیجیے۔ اِس دنیا میں کسی کو بھی موزوں ترین یا من چاہے حالات میسر نہیں ہوتے۔ اپنے اپنے حصے کے مسائل کا سبھی کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے‘ مشکلات ملتی ہیں اور اُن مشکلات سے نبرد آزما ہونے ہی پر کامیابی کو یقینی بنانا ممکن ہو پاتا ہے۔ 
یہ دنیا ہر آن تبدیل ہو رہی ہے۔ اپنے ماحول پر نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوگا کہ تبدیلیوں کا ایک سلسلہ ہے ‘جو جاری رہتا ہے۔ ہمیں اسی ماحول میں زندگی بسر کرنی ہے‘ اس لیے خود کو تبدیلیوں کے لیے تیار کرنا اور تیار رکھنا پڑتا ہے۔ 
حالات اچھے ہوتے ہیں‘ نہ بُرے۔ کسی بھی صورتِ حال میں ہم جس نوعیت کا رسپانس دیتے ہیں ‘اُسی سے یہ طے ہوتا ہے کہ وہ صورتِ حال ہمارے حق میں جائے گی یا خلاف؟ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ حالات غیر جانب دار نہیں رہتے‘ یعنی اچھے یا بُرے ہوتے ہیں ‘تب بھی یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ ہم میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ‘جسے کسی نہ کسی حوالے سے خراب حالات کا سامنا نہ رہا ہو۔ حالات متواتر خراب ہوتے رہتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کی نوعیت مجموعی طور پر ایسی ہوتی ہے کہ حالات فرد کے خلاف جاتے رہتے ہیں۔ ہر شخص کو اپنی صلاحیت اور سکت کے مطابق رسپانس دینا ہوتا۔ یہ رسپانس ہی اُسے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے اور اپنی مرضی کے نتائج کی راہ ہموار کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ 
آپ نے اس حقیقت پر ضرور غور کیا ہوگا کہ کچھ لوگ پریشان کن صورتِ حال میں بھی پرسکون رہتے ہیں۔ اور کچھ لوگ ذرا سی پریشانی کا سامنا ہونے پر ہتھے سے اکھڑنے لگتے ہیں۔ شدید ذہنی دباؤ کی حالت میں ہم جو کچھ کرتے ہیں‘ اُسی سے یہ طے ہوتا ہے کہ ہم کیا ہیں اور کیا کرسکتے ہیں۔ دنیا کے ہر انسان کو مشکل حالات کا سامنا کرنے کی صورت ہی میں اپنی حقیقی صلاحیت اور سکت کا اندازہ ہو پاتا ہے۔ 
زندگی کے بارے میں قدرے سنجیدہ ہوکر غور کرتے وقت ہم یہ حقیقت بالعموم نظر انداز کردیتے ہیں کہ حالات کا کام مسلسل تبدیل ہونا ہے۔ معاشرے میں جتنے بھی لوگ ہیں ‘وہ کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔ سب کے اعمال یا افعال کا نتیجہ حالات کے بدلتے رہنے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ یہ عمل جاری رہتا ہے اور ہمارے زندگی پر اثر انداز بھی ہوتا ہے۔ 
معاشرے میں جو کچھ بھی ہوتا رہتا ہے‘ وہ ہمارے معمولات اور اُن سے کہیں بڑھ کر فکر و عمل کے ڈھانچے اور پوری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس دباؤ کا سامنا کرنے کے لیے ہم جو کچھ کرتے ہیں ‘اُسی کی بنیاد پر طے ہوتا ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں اور کیا کریں گے۔ یہ سوچنا حماقت کے سوا کچھ نہی کہ کچھ لوگ زیادہ خوش نصیب ہوتے ہیں‘ اُنہیں سب کچھ پکا پکایا‘ بنا بنایا مل جاتا ہے اور زندگی مجموعی طور پر پھولوں کی سیج ثابت ہوتی ہے۔ ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا۔ زندگی کسی کے لیے بھی مکمل طور پر پھولوں کی سیج نہیں ہوتی۔ سب کو اُن کے حصے کے کانٹے بھی ملتے ہیں۔ 
شخصی ارتقاء کے حوالے سے عالمگیر شہرت کے حامل مصنف نپولین ہل نے لکھا ہے کہ اچھے وقت یا سنہرے موقع کا انتظار فضول ہے۔ اچھا وقت کبھی نہیں آتا۔ جو کچھ آپ کرتے ہیں اُسی سے یہ طے ہوتا ہے کہ آپ کے لیے اچھا موقع کب معرضِ وجود میں آئے گا۔ 
دنیا کا ہر انسان کسی نہ کسی شکل میں اور کسی نہ کسی حد تک اچھے وقت کا انتظار کرتا ہے۔ یہ انتظار دل کو سکون بخشتا ہے۔ اچھے وقت اور سنہرے موقع کا انتظار ایک ایسی کیفیت ہے ‘جو انسان کو بہت سی حقیقی پریشانیوں سے توجہ ہٹاکر دل کا سکون یقینی بنانے کا موقع فراہم کرتی ہے‘ مگر خیر یہ سب کچھ انسان کے حق میں نہیں جاتا۔ اچھے وقت یا سنہرے موقع کا انتظار کرنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاملات کو درست یا اپنے حق میں کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ 
ہمارے لیے بہترین مواقع وہی ہوسکتے ہیں ‘جو ہم بھرپور محنت کے ذریعے یقینی بنائیں۔ دنیا کے ہر انسان کو قدرت نے محنت کرنے اور صلاحیتوں کو بروئے لانے کا اختیار بخشا ہے۔ اگر کوئی اپنے وجود کو بروئے کار لانے پر متوجہ نہیں ہوتا تو قصور وار خود ہے‘ کوئی اور نہیں۔ عمل کی دنیا میں داخل ہونے سے کسی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے‘ کام کرنے کی سکت پیدا کرنے اور دونوں کو بروئے کار لانے کا آپشن سبھی کو ملا ہے۔ جو اس آپشن کو استعمال نہ کرے‘ وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ یہی اصل ناکامی ہے‘ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ قدرت نے اُسے ناکام ہونے کے لیے خلق کیا ہے ‘تو جان لیجیے کہ وہ اپنے بارے میں بالکل غلط رائے رکھتا ہے اور اپنے خالق کی رضا کے حوالے سے بھی شدید بدگمانی کا شکار ہے۔ کائنات کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ جو جتنا کرے گا اُتنا پائے گا۔ یہ اصول سب کے لیے ہے۔ کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ 
ہر انسان کی صلاحیتیں بھی محدود ہیں اور سکت بھی۔ بہت کچھ ایسا ہے ‘جو آپ نہیں کرسکتے۔ اور دوسری طرف بہت کچھ ایسا بھی ہے‘ جو آپ آسانی سے اور اچھی طرح کرسکتے ہیں۔ آپ کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں کرسکتے۔ جو کچھ آپ اچھی طرح کرسکتے ہیں اُسے شناخت کرنا اور اُس پر متوجہ رہنا لازم ہے۔ آپ کو سب سے اُن تمام معاملات پر متوجہ ہونا ہے ‘جو آپ کی صلاحیت اور سکت کے دائرے میں ہیں‘ یعنی آپ جنہیں آسانی سے انجام تک پہنچا سکتے ہیں۔ 
جو کچھ آپ نہیں کرسکتے ‘اُسے اُن کاموں میں مداخلت کا موقع مت دیجیے ‘جو آپ کرسکتے ہیں اور بخوبی کرسکتے ہیں۔ جن معاملات میں ہم قدرے بے بس ہوں ‘اُن کے بارے میں زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔ ہر انسان کے لیے دانش کا سَودا یہ ہے کہ جو کچھ بھی وہ کرسکتا ہے‘ اُس کے بارے میں سوچتا رہے۔ ہماری توجہ ممکنات پر مرکوز رہے تو اچھا۔ کسی بھی صورتِ حال میں سب سے پہلے ہمیں وہ کرنا ہے‘ جو ہم کرسکتے ہیں۔ جو کچھ ہماری صلاحیت اور سکت کے دائرے سے باہر ہو‘ اُس کے بارے میں پھر کبھی سوچیے گا۔ 
ماحول میں بہت کچھ ہے ‘جو آپ کو اِدھر سے اُدھر لے جانے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ آپ کی توجہ منتشر کرنے والی باتیں قدم قدم پر ہیں اور بہت واضح تناسب سے ہیں۔ کامیابی صرف اُن کا مقدر بنتی ہے‘ جو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں‘ اپنے وجود‘ صلاحیت اور سکت پر متوجہ رہتے ہیں۔ جو کچھ طے کرلیا ہے ‘اُسی پر خاطر خواہ توجہ دینا بھی لازم ہے۔ یہ کام ہے بہت مشکل سہی‘ ناممکن ہرگز نہیں۔ اپنے ماحول کا جائزہ لیجیے‘ تو بہت سے لوگ‘ اسی طور کام کرتے ہوئے بھرپور کامیابی سے ہم کنار ملیں گے۔ آپ کو بچتے بچاتے چلنا ہے‘ جو کچھ کرنا لازم ہے‘ اُسی پر آپ کی توجہ رہنی چاہیے۔ یاد رکھیے کہ ع
کام سے کام رکھنا ہے کام آپ کا 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں